نام میں کیا رکھا ہے
اب لڑکیاں اپنے نام کے ساتھ خان لگا رہی ہیں بیگم،بی بی ہٹا رہی ہیں۔
افغان صدر اشرف غنی کو اپنے نام کے آگے ذات پات اور قوم قبیلے کا لاحقہ لگانا شاید پسند نہیں تھا۔اسی لیے تو انھوں نے سرکاری ریکارڈ میں اپنے نام کے ساتھ احمد زئی نہ لکھنے کی ھدایت کر دی تھی۔ اشرف غنی کا تعلق احمد زئی پشتون قبیلہ سے ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ چونکہ وہ سارے افغانستان کے صدر ہیں اس لیے نام کے ساتھ احمد زئی لگانے سے دوسرے کئی پشتون قبیلوں اور شمالی والوں میں یہ تاثر جنم لے گا کہ ان کی سوچ اپنے قبیلے تک ہی محدود ہے۔
پیدائش پر والدین بچے کا نام رکھتے ہیں۔بڑے ہو کر بچہ بگڑتا ہے تو نام بھی بگاڑ دیتا ہے اور اپنے نام کے آگے ذات پات اور قوم قبیلے کے نام کا اضافہ کرتا ہے۔آج کل یہ ایک فیشن بن گیا ہے۔ اب تو فیشن ترقی کرتا جا رہا ہے۔ لڑکیاں بڑی ہوکر لڑکوں کے نام رکھ رہی ہیں اور لڑکے بڑے ہوکر لڑکیوں کے نام رکھ رہے ہیں۔ نام پڑھ کر لڑکی اور لڑکے کا پتہ ہی نہیںچلتا ۔یہ تو بعد میں انکشاف ہوتا ہے کہ جو لڑکی والا نام ہے وہ لڑکا ہے اور جو لڑکے والا نام ہے وہ لڑکی ہے۔
اب لڑکیاں اپنے نام کے ساتھ خان لگا رہی ہیں بیگم،بی بی ہٹا رہی ہیں۔ اور لڑکے اپنے نام کے ساتھ اختر،شمیم ،شفقت ، رفعت،نسیم لگا رہے ہیں۔ اسی لیے تو لڑکیاں لڑکوں والے بوائے ہیئر کٹ رکھ رہی ہیں اور لڑکے لڑکیوں کی طرح کمر تک لمبے بال رکھ رہے ہیں۔ دور سے لڑکے دکھائی دینے والے نزدیک آنے پر لڑکیاں بن جاتی ہیں اور لمبے بالوں کے ساتھ لڑکیاں دکھائی دینے والے نزدیک آنے پر لڑکے بن جاتے ہیں۔ اس لیے سرکاری نوکریوں کی بھرتی میں جہاں لڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں لڑکیاں بھرتی ہوجاتی ہیں اور جہاں لڑکیوں کی ضرورت ہوتی ہے وہاں لڑکے بھرتی ہوجاتے ہیں۔ اور پھر سیاست دان لوگ گلہ کرتے ہیں کہ سرکاری ادارے روبہ زوال ہیں۔
میں پشاور میں ایک انگریزی اخبار کا بیورو چیف تھا۔ عرصہ ہوا میری خبر بائی لائن نہیں چھپتی تھی۔ مجھے بھی نام چھپنے میں کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ کیا ہوا کہ سینئر صحافی شمیم شاہد میرے بیورو میں رپورٹر ہو کر شامل ہوگیا۔ شمیم نام کی وجہ سے اسلام آباد نیوز ایڈیٹر کو تاثر ملا کہ شمیم کوئی لڑکی ہے۔ چنانچہ شمیم شاہد جو خبر بھیجتا وہ اس کے نام سے چھپتی اور میری خبر بیورو رپورٹ کے نام سے چھپتی۔
ایک دن نیوز ایڈیٹر کا فون آیا ۔ اِدھر اُدھرکی باتیں ہوئیں ۔ پھر کہنے لگا شمیم کیسی ہے۔ میں نے کہا کہ تم ہم پشتونوں کا مذاق اڑاتے ہو کہ پشتون مذکر کو مونث اور مونث کو مذکر بنا دیتے ہیں۔ آج تو تم پنجابیوں نے مذکر کو مونث بنا دیا ہے۔کہنے لگا کیوں شمیم لڑکی نہیں ہے۔
میں تو سمجھ رہا تھا شمیم لڑکی ہے اور شاہد اس کے والد کا نام ہے۔ میں نے کہا کہ لڑکی سمجھ کر تم اس کی خبر اس کے نام سے چھاپ رہے ہو۔وہ دن اور اس کے بعد کے دن۔ بے چارے شمیم کی کوئی خبر اس کے نام سے نہیں چھپی۔
ہمارے پاکستان میں ذات پات اور قوم قبیلہ کی سیاست چل رہی ہے اور افغانستان میں بھی۔ صرف جمہوریت ہی ہے جس میں برادریاں اور قبیلے والے بکھر کر ایک سیاسی پارٹی کے جھنڈے تلے گڈ مڈ ہوجاتے ہیں۔
یہاں مجھے انگریزی ڈرامہ نگار اور شاعر شیکسپئیر یا د آگیا ہے جو نام،تخلص،ذات پات اور قوم قبیلہ سے بھی آگے چلا گیا ہے۔ کہتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے۔ مگر اے این پی والے شیکسپئیر کی نفی کرتے ہیں اور بضد ہیں کہ نام میں تو سب رکھا ہے۔ اسی لیے تو وہ سرحد کو پختونخوا کا نام دینے کی سیاست کرتے رہے۔ اب پختونخوا والوں کو پتہ چل گیا ہوگا کہ نام میں کچھ رکھا ہے یا نہیں۔
میرا خیال ہے کہ ڈاکڑ اشرف غنی نے اپنے سرکاری ریکارڈ میں احمد زئی ہٹانے کا حکم اس لیے جاری کیا کہ وہ سارے افغانستان کے صدر ہیں ۔اگر وہ اشرف غنی احمدزئی لکھتے ہیں توپھر یہ تاثر ملتا ہے کہ صدر بننے کے بعد بھی ان کی سوچ اپنے قبیلے احمد زئی تک محدود ہے۔ دوسرے پشتون قبیلے بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ وہ تو صرف احمد زئی قبیلے کے صدر ہیں۔ اس لیے انھوں نے اچھا کیاہے۔ ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے ۔ اگر رکھا ہے تو کام میں ۔
مگر اشرف غنی نے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کا لفظ حذف نہیں کیا۔ کیونکہ وزیر اعظم عبداللہ عبد اللہ بھی تو ڈاکٹر ہیں۔ اب دو ڈاکٹروں میں مرغی حلال ہے کہ نہیںمگر دو ملاؤں تو مرغی ضرور حرام ہے۔
خدائی خدمت گار پشتون لیڈر خان عبد الغفار خان ہمیشہ اپنا نام غفار لکھتے تھے۔ گھر میں والدین انھیں بچپن میں ''غفارا'' کہہ کر پکارتے تھے اور بچپن کے دوست بھی ۔ پشتو میں نام کے آخر میں الف بڑھایا جاتا ہے۔ ہاں نام کے ساتھ صاحب یا خان لکھا یا پکارا جائے توبھی الف ہی استعمال ہوتا۔ مگر نام عبد اللہ ۔سمیع اللہ ۔وغیرہ ہو تواللہ کے آخر میں الف نہیں بولا جاتا۔
خان عبد الولی خان بھی صرف اپنا نام ولی لکھتے تھے۔ میں جب بھی کسی خبر کے سلسلے میں ان کی رہائش گاہ پر فون کرتا ۔تو فون سے دور بیٹھے ہوتے ۔ فون اٹھاتے تو ہیلو نہیں کہتے ، صرف کہتے ،ولی۔میں ہی خان صاحب پکار کر گفتگو کا آغاز کرتا۔
خان عبد الغفار خان پشتونوں کے محمد زئی قبیلے سے تھے مگر انھوں نے کبھی بھی خود کو نہ محمد زئی لکھا اور نہ کسی نے انھیں محمدزئی کے اضافی نام سے پکارا۔وہ پشتونوں کے لیے خان عبد الغفار خان تھے ۔فخر افغان تھے۔
تحریک آزادی کے دوران خان غفار خان کے پیروکاروں میں ہندو اور سکھ بھی تھے۔ جب وہ جلوس نکالتے تو مل کر پنجابی میں کورس میں یہ نعرہ گاتے۔
پارِیا غفارِیا خیری آیاں توں
وَڈیا چنَ پشاورِیا خیری آیاں توں
افغانستان میں زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ خواہ وہ شاعری کریں یا نہ کریں اپنے نام کے ساتھ تخلص ضرور لگاتے ہیں۔یہاں افغان مہاجرین آئے تو ان کے نام کے ساتھ تخلص تھے۔ ذات پات یا قوم قبیلہ کا لاحقہ نہ تھا۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین کا تخلص حکمتیار۔ مولوی یونس کا خالص۔ ان کے بھتیجے محمد یعقوب کا شرافت۔ عبدالرب رسول کا سیاف، مولوی محمد نبی کا محمدی، احمد شاہ کا مسعود،ڈاکٹر عبداللہ کا عبداللہ ۔ محمد یونس کا قانونی تھا۔
علماء کرام کے ناموں میں ذات پات یا قبیلوں کے نام نہیں ہوتے ۔ اگر ہوتے بھی ہیں تو اِکا دُکا۔ البتہ ان کے ناموں کے ساتھ مولوی، مولانا، مفتی، حافظ، علامہ وغیرہ وغیرہ ضرور ہوتے ہیں۔
شعرا ء نے بھی اپنے ناموں کے ساتھ ذات پات یا قبیلے کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ وہ اپنے نام کے آگے اپنے پیدائش کے علاقے کا نام لگاتے۔مثلاََ اکبر الہ آبادی۔نظیر اکبر آبادی، داغ دہلوی، جوش ملیح آبادی، مجید لاہوری وغیرہ۔
انگریز لوگ نہ تخلص رکھتے ہیں اور نہ اپنے ناموں کے ساتھ لندنی،اسکاٹ لینڈی، برمنگھمی، کارڈفی۔ آکسفورڈی، مانچسٹروی،لکھتے ہیں۔
وہ تو صرف اپنا نام لکھتے ہیں ۔اس لیے کہ وہ نام اور کام پر یقین رکھتے ہیں۔