’’کریڈٹ گوز ٹو چیئرمین صاحب‘‘

چیئرمین نے کئی ’’کارنامے ‘‘ انجام دیے تو ایسے میں انھیں میڈیا سے کیوں چھپنا پڑا


Saleem Khaliq January 04, 2018
چیئرمین نے کئی کارنامے انجام دیے تو ایسے میں انھیں میڈیا سے کیوں چھپنا پڑا؛ فوٹوفائل

2017 ہماری کرکٹ کیلیے بہتر رہا، ہم ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون بن گئے، قومی کرکٹ سے قریبی تعلق رکھنے والی شخصیت سے دوران گفتگو جب میں نے یہ کہا تو ان کا جواب تھا '' جی بالکل، کریڈٹ گوز ٹو چیئرمین نجم سیٹھی صاحب''

اب میں نے مسکراتے ہوئے چیمپئنز ٹرافی کی فتح کا ذکر کیا تو وہ پھر کہنے لگے ''کریڈٹ گوز ٹو چیئرمین نجم سیٹھی صاحب'' میں نے یاد دلایا کہ اس وقت تو شہریارخان بورڈ کے سربراہ تھے تو انھوں نے جواب دیا تو کیا ہوا،اصل کام سیٹھی صاحب کا تھا، میں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ معاملات پیچیدگی کا شکار ہی رہے، اس پر ان صاحب نے پھر وہی جملہ دہرایا کہ ''کریڈٹ گوز ٹو چیئرمین نجم سیٹھی صاحب'' میں نے جواب دیا جی تو وہ گڑبڑا کر کہنے لگے نہیں نہیں اس میں ان کا کیا قصور ہے، جب بھارت کھیلنا ہی نہیں چاہتا تو وہ بیچارے کیا کر سکتے ہیں، اس پر میں سوچنے لگا کہ ان دنوں یہی حال ہے جو اچھا کام ہے اس کا کریڈٹ چیئرمین کو ملتا ہے جبکہ ناکامیوں کو کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں، سوشل میڈیا پر بھی ان دنوں چیئرمین بورڈکے جانثاروں کی پوری کوشش ہے کہ 2017میں ٹیم نے جوکامیابیاں حاصل کیں ان کا کریڈٹ نجم سیٹھی کو ہی دیا جائے جیسے وہی میدان میں کارنامے انجام دے رہے تھے۔

ایسے لوگوں کا بس چلے تو وہ 1992 میں پاکستان کی ورلڈکپ فتح کا سہرا بھی انہی کے سر باندھ دیں، یقیناً انھوں نے بعض مثبت اقدامات کیے مگران کی شخصیت سے جڑے منفی پہلو ہی زیادہ سامنے آتے رہے،اس میں سب سے بڑی وجہ بیک ڈور سے کرکٹ بورڈ میں آمد تھی،کھیل سے کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود سابق وزیر اعظم نواز شریف نے انھیں چیئرمین بنا دیا، پھر وہ ایک میڈیا گروپ سے جڑے ہوئے تھے اس کو فیور کرنے کی وجہ سے بھی مسائل کا شکار رہے، کمزور میڈیا ڈپارٹمنٹ کا بھی بڑا کردار رہا،سیٹھی صاحب نے اپنی قریبی شخصیت کو سربراہی سونپی، وہ معاملات سنبھال نہ پائے، لوگوں سے رابطے میں نہ رہے اور میڈیا ان کیخلاف ہو گیا، آپ اس کا اندازہ یوں لگا سکتے ہیں کہ گذشتہ دنوں جب چیئرمین کراچی آئے تو میڈیا ڈپارٹمنٹ کا کوئی آفیشل ساتھ نہ تھا، انھیں پتا تھا کہ وہ مسائل کم کرنے کے بجائے بڑھا ہی دیں گے اسی لیے کسی کو نہیں لائے، دورے کے آخر تک وہ صحافیوں سے خفا خفا رہے۔

الیکٹرونک میڈیا کے بعض نمائندوں سے جاتے جاتے مختصر بات چیت کی مگر سینئر صحافی اس میں شریک نہ ہوئے،بقول قریبی لوگوں کے چیئرمین نے کئی ''کارنامے '' انجام دیے تو ایسے میں انھیں میڈیا سے کیوں چھپنا پڑا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا، پہلے ''مخصوص'' لوگوں کے ویڈیو پیغامات سامنے آتے تھے، اب بورڈ نے نئی پالیسی اپنائی ہے کہ چیئرمین کو میڈیا کے سامنے لانے کے بجائے اپنے دفتر میں بٹھا کر من پسند باتیں کہہ دی جائیں، اس سے صحافیوں کے چبھتے ہوئے سوالات سے بچا جا سکے گا، میں چیئرمین کی بعض قریبی شخصیات سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ آپ خوشامد کریں مگر اس میں اس حد تک نہ چلے جائیں کہ دیگر لوگوں کے اچھے کام بھی سیٹھی صاحب کے کریڈٹ پر ڈال دیں، ہمیں شہریارخان کو نہیں بھولنا چاہیے، جس وقت ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی جیتی وہی بورڈ کے سربراہ تھے مگر آج ان کا نام تک کوئی نہیں لیتا، پی ایس ایل بھی ان کے دور میں شروع ہوئی۔

اگر وہ نجم سیٹھی کو فری ہینڈ اور بورڈ کے خزانے سے بھاری رقم نہ دیتے تو ایونٹ کا انعقاد نہیں ہو سکتا تھا، ورلڈ الیون کے دورہ پاکستان میں بھی بیشتر کردار شہریارخان کا تھا، انھوں نے جائلز کلارک و دیگر سے اپنے ذاتی تعلقات استعمال کرتے ہوئے مہمان ٹیم کو مدعو کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مگر جب ہانڈی پک کر تیار ہوئی تو وہ کھانے کیلیے موجود نہ تھے،انھوں نے بطور سابق چیئرمین اسٹیڈیم میں بیٹھ کر میچز دیکھے، اب میں ٹویٹر دیکھوں تو اس میں ''مداح'' سیٹھی صاحب کی شان میں زمین وآسمان ایک کیے دکھائی دیتے ہیں، کئی لوگوں نے چیمپئنز ٹرافی کی فتح، ٹی ٹوئنٹی میں نمبر ون بننا یہ سب سیٹھی صاحب کے مرہون منت قرار دیا، بھائی آپ لوگ یہ بات بھول گئے کہ ایک سرفراز احمد نام کا کپتان بھی تو ہے، اگر مجھ سے پوچھیں تو میں 2017میں ٹیم کی بیشتر فتوحات کا کریڈٹ سرفراز کو ہی دوں گا، انھوں نے ہی ٹیم میں اعلیٰ قیادت سے نئی روح پھونکی، نوجوان کھلاڑی تو پہلے بھی اسکواڈ میں شامل ہو کر ''جوائے ٹرپ'' کر کے واپس آجاتے تھے، سرفراز نے انھیں اعتماد دیا جس کی وجہ سے حسن علی، فخرزمان و دیگر ینگسٹرز نے چیمپئنز ٹرافی میں بہترین پرفارم کیا، نوجوان بابراعظم کے ساتھ سینئرز اظہر علی اورمحمد حفیظ نے بھی اپنا کردار بخوبی نبھایا، شعیب ملک نے بھی جونیئرز کی رہنمائی کی۔

ان سب کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے،اسی طرح گذشتہ برس بولنگ میں محمد عامر، شاداب خان، جنید خان نے بھی اچھا پرفارم کیا، یہ کھلاڑی ہی میدان میں جا کر پرفارم کرتے ہیں انھیں سراہنا چاہیے، مکی آرتھر سمیت کوچنگ اسٹاف کا بھی اس میں کردار ہے، چیئرمین کی تعریفیں کرنے والے شاید پی ایس ایل فکسنگ اسکینڈل کو بھول گئے جس کی تحقیقات تقریباً ایک سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکیں، شرجیل خان جیسے باصلاحیت بیٹسمین کو ہمیں کھونا پڑا، بھارت کے جھوٹے وعدوں کا شکار ہونے کے بعد اب قانونی جنگ میں پیسہ بہانے والا معاملہ بھی ابھی چل رہا ہے، آئی سی سی نے تو تاحال پینل بھی تشکیل نہیں دیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کیس کتنا طویل چلے گا، افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارتی مسلسل پاکستان مخالف بیانات دے رہے ہیں کہ ہمیں پاکستان سے کرکٹ نہیں کھیلنی، مگر ہمارے بورڈ میں اتنی جرات نہیں کہ کوئی جواب دے سکے۔

انڈر 19ٹیم کی وارم اپ میچ میں فتح تک پر ٹویٹ کرنے والے چیئرمین چپ سادھے ہوئے ہیں،اسی طرح اب پی ایس ایل تھری ہونے والی ہے مگر ابتدائی دونوں ایڈیشنز کی آڈٹ رپورٹ نجانے کیوں سامنے نہیں آ رہی، ایف ٹی پی کو دیکھ لیں ہم تنہائی کا شکار ہو گئے ہیں، ویسٹ انڈیز کی ٹیم وعدہ کر کے ٹور پر نہیں آئی،ایسے اور کئی مسائل ہیں جن کا سیٹھی صاحب کو سامنا ہے،مگر قریب موجود خوشامدی لوگ انھیں آسمان پر چڑھا کر اس جانب توجہ ہی نہیں دینے دے رہے، ابھی انڈر 19ٹیم سیریز جیتی تو واہ جی سیٹھی صاحب زندہ باد، بھائی اس میں وہ کہاں سامنے آ گئے، گذشتہ دنوں نیب میں نجم سیٹھی کا کیس جانے کی خبریں شائع ہوئیں تو پی سی بی نے لمبا چوڑا سا تردیدی بیان جاری کیا، حالانکہ یہ الزامات شخصیت پر تھے تو دفاع انھیں خود کرنا چاہیے تھا مگر بورڈ کی جانب سے ایسا ہوا، اس سے اچھی مثال قائم نہیں کی گئی کل کو ہر چیئرمین ایسا کرے گا، ہمیں اچھے کاموں پر تعریف ضرور کرنی چاہیے مگر اتنا زیادہ نہ چڑھائیں کہ حقائق ان کی نظروں سے اوجھل ہی رہیں،ابھی سیٹھی صاحب کے کئی امتحان باقی ہیں۔

مقبول خبریں