واقف نہیں تو ہمت مرغاں ہوا سے

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 22 مارچ 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

1965 کی پاک بھارت جنگ میں فضائی جنگ کی نئی تاریخ رقم کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے لٹل ڈریگن ایم ایم عالم طویل علالت کے بعد 78 سال کی عمر میں کراچی میںانتقال کرگئے۔ انھیں پاک فضائیہ کے موجودہ اور سابقہ سربراہان اور افسران نے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سفر آخرت پر روانہ کیا۔ ایم ایم عالم نے دنیا کی فضائی جنگی تاریخ میں ایک منٹ سے بھی کچھ کم وقت میں پانچ جنگی جہاز گرانے کا جو ریکارڈ کارنامہ انجام دیا اور جس طرح دفاع مادر وطن کا فریضہ انجام دیا اس پر پاک فضائیہ ہمیشہ نازاں اور قوم ان کی ممنون و معترف رہے گی۔

دنیا میں فضائی جنگ کی تاریخ کے صفحات جب بھی پلٹے جائیں گے ان کا نام دنیا بھر کی فضائی جنگوں میں کارنامہ انجام دینے والے ہیروز میں سرفہرست آئے گا۔ اس سے بڑا ریکارڈ شاید تاریخ میں دوبارہ رقم نہ ہو پائے۔ 1965 کی جنگ میں پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط و مسلح بھارتی فضائیہ اور کئی گنا بڑی بھارتی بحریہ اور بڑی زمینی جنگ کے لیے تیار بھارتی آرمی کے خلاف جس طرح انتہائی کم عددی استعداد کی حامل ہماری نیوی اور ایئرفورس نے جوانمردی، جذبہ شجاعت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا تھا وہ قابل رشک ہے۔

عوام بھی جذبہ حب الوطنی اور قربانی کے جذبے سے اس قدر مغلوب و سرشار تھے کہ لاہور شہر کے لوگ تو گھروں کی چھتوں اور میدانوں میں کھڑے ہوکر ہوائی حملے دیکھا کرتے تھے اور ہاکیاں اور ڈنڈے ہاتھوں میں لے کر سڑکوں پر نکل آئے اور بارڈر کی طرف چل دوڑے تھے، انھوں نے اپنے فوجیوں کی دامے درمے سخنے ہر ہر قسم کی مدد اور معاونت کی اور ان سے آگے بڑھ کر دفاع وطن کا فریضہ انجام دینے کی کوششیں کیں۔ فوجیوں، سیاستدانوں، شاعروں، فنکاروں غرض ہر شعبہ زندگی سے وابستہ افراد نے اس جنگ میں اپنی اپنی بساط سے بڑھ کر صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کردی تھیں جس کی وجہ سے قوم اس آزمائش کی گھڑی سے سرخرو ہوکر کامیاب وکامران نکلی تھی۔

1965 کے ہیرو ایم ایم عالم 1935 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے اور 2013 کراچی میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ انھوں نے جس وقت پانچ جنگی جہازوں کو مار گرانے اور ان میں سے بعض پائلٹوں کو جنگی قیدی بنوانے کا کارنامہ انجام دیا اس وقت وہ شاہینوں کی سرزمین سرگودھا ایئربیس پر تعینات تھے۔ انھیں مادر وطن کے دفاع اور ملک اور پاک فضائیہ کا نام بلند کرنے کے کارنامے پر ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ قوم و ملک نے انھیں جو محبت و احترام دیا وہ اس سے کہیں زیادہ محبت و احترام کے مستحق تھے۔ انھیں کسی لابنگ، سفارش یا مبالغہ آرائی کی بنا پر بلکہ ان کی مہارت و کارنامے کو دنیا بھر نے عمل کی کسوٹی پر پرکھا تھا، انھیں اﷲ تعالیٰ کی نصرت و تائید حاصل تھی جس کی ذات پر وہ راسخ ایمان رکھتے تھے۔

ایم ایم عالم نے بطور انسٹرکٹر پائلٹس کی تربیت کے فرائض بھی انجام دیے۔ جہاں انھوں نے اقبال کے شاہین بچوں کے بال و پر نکالنے کی آرزو بھی پورا کرنے کی کوششیں کیں۔ ایئرکموڈور کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد انھوں نے اپنی ذات کو دین کے لیے وقف کردیا اور ایک صالح، راسخ العقیدہ اور عملی مسلمان کی طرح زندگی گزاری۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد نسلاً بہاری ہونے کے باوجود بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے انھیں پیشکشیں بھی کی گئیں۔

ایک نئے ملک میں ترقی کے نئے افلاک اور نئی دنیا ان کی منتظر تھی لیکن انھوں نے سرزمین پاکستان سے اپنا ناتا توڑنا گوارہ نہ کیا حالانکہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے دانستہ یا بادل نخواستہ بنگلہ دیش ہجرت کی یا انھیں اس پر مجبور کیا گیا یا اس کے سوا انھیں کوئی دوسرا متبادل نظر نہیں آیا، جن میں افواج پاکستان اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات اور شوبز سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔ بعض حلقوں کی جانب سے ایم ایم عالم کی صلاحیت اور حب الوطنی کو مشکوک بنانے کی کوششیں بھی کی گئیں جنھیں قوم نے مسترد کردیا۔ راقم کو تقریبات میں دو مرتبہ ایم ایم عالم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

انھیں قریب سے دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ لوگ انھیں دیکھ کر فرط جذبات اور عقیدت سے ان کے گرد امنڈ آتے تھے، ان کے گرد حلقہ زن ہوکر اور ان پر دیدہ و دل نچھاور کرتے تھے ہاتھ ملانے کے لیے دھکم پیل تو نہیں صف بندیاں ضرور ہوجایا کرتی تھیں۔ وہ منکسر المزاجی سے لوگوں سے ملتے، انتہائی سادہ، درویش صفت، نہ غرور، نہ دکھاوا، نہ فخر، سادہ لباس، سادہ طرز زندگی، ہاتھ میں فوجی اسٹک ، سر پر رومال، قد بھی درمیانہ قسم کا تھا۔

کوئی شعلہ بیاں قسم کے خطیب یا مقرر تو نہیں تھے بلکہ اپنے کلام کے آغاز سے قبل اپنی زبان پر کمزور دسترس کی پیشگی معذرت بھی کرلیا کرتے تھے مگر جب اپنی بات کا آغاز کرتے تھے تو جذبات و اخلاص سے معمور ان کے خطاب کا انداز بھی مجاہدانہ اور اثرانگیز ہوتا تھا، وہ ملک و قوم کا درد اور بھرپور ادراک رکھتے تھے، ان کی ذات میں اقبال کے مرد مومن، مرد حر، مرد حق اور اقبال کے شاہین کی خوبیاں جھلکتی تھیں، اقبال جس مستی کردار کے خواہاں تھے اس کی جھلک ایم ایم عالم کے عمل سے جھلکتی تھی ان کی ذات اقبال کی اس نظم کی عملی تفسیر تھی:

کیا میں نے اس خاکدان سے کنارا

جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ

بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو

ازل سے فطرت مری ہے راہبانہ

نہ باد بہاری، نہ گلچیں، نہ بلبل

نہ بیماری نغمہ عاشقانہ

خیابانیوں سے ہے لبریز لازم

ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ

ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری

جوانمر کی ضربت غازیانہ

حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں

کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ

جھپٹنا‘ پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا

مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں

کہ شاہین بناتا نہیں آشیانہ

بیس سال قبل کی بات ہے راقم ایک تقریب میں مدعو تھا جس کے مہمان خصوصی ایم ایم عالم تھے، سخت گرمی کے دن تھے، تقریب خاصی طویل ہوگئی کہ مغرب کی اذانیں ہوگئیں اور نماز کا وقفہ دیا گیا اس وقت تقریب کے شرکا اور انتظامیہ پر یہ راز کھلا کہ عالم صاحب نفلی روزے سے ہیں ان کے لیے ہنگامی طور پر فوری افطار کا بندوبست کیا گیا۔ انھوں نے شہرت اور معاش سے دور خلوت کی زندگی گزارنے کی کوشش کی، اس لیے ان کے متعلقین ہی جانتے ہیں کہ انھوں نے مجاہدانہ، مومن اور درویش صفت انسان کی زندگی بسر کی۔ ان کا کردار اور ذات دونوں نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ نوجوان نسل کو اپنے اسلاف اور قومی ہیرو سے روشناس ہونا چاہیے۔ جس کا خود کوئی آئیڈیل یا ہیرو نہ ہو اس کے لیے خود کسی کا آئیڈیل یا ہیرو بننا ناممکن ہوتا ہے۔

جسامت اور قدوقامت کے اعتبار سے کم نظر آنے والے عالم اور منہاس جیسے شاہینوں کی زندگیوں میں آئیڈیل بھی تھے اور مشن بھی تھا جس کی تسکین کے لیے وہ بچپن ہی سے اپنے اسلاف کے کارنامے اور کہانیاں پڑھا کرتے تھے۔ جذبے کی تسکین کے لیے کاغذ اور لکڑیوں کے جہازوں کے ماڈل بنایا کرتے تھے اور پھر خود نوجوانوں کے آئیڈیل بن کر امر ہوگئے۔اس قومی ہیرو کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت ان کے نام سے کوئی بڑا اسٹیڈیم، تعلیمی ادارہ، شہر یا قومی عمارت و شاہراہ کو موسوم کرکے نوجوان نسل میں جذبہ حب الوطنی پیدا کرنے کے لیے انھیں ایم ایم عالم جیسے ہیروز کے کردار و کارناموں سے روشناس کرائے۔

واقف نہیں ہے تو ہمت مرغاں ہوا سے

تو خاک نشیمن‘ انھیں گردوں سے سروکار

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔