عوامی حمایت؟

عبدالقادر حسن  منگل 23 جنوری 2018
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے کی تیاریاں عروج پر ہیں اور اس کی سب سے اہم وجہ الیکشن کی آمد آمد ہے۔ آیندہ الیکشن کے انعقاد کے بارے میں افواہیں اور شکوک و شبہات تو بہت پھیلائے جا رہے ہیں لیکن معلوم نہیں کیوں میری چھٹی حس کہتی ہے کہ یہ تمام افواہیں دم توڑ جائیں گی اور شکوک و شبہات کے بادل چھٹ جائیں گے۔

الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے، اسے آپ میری خوش فہمی بھی سمجھ سکتے ہیں لیکن الیکشن ہی وہ واحد چھلنی ہے جس سے گزر کر ہی بالآخر ہمیں اچھے حکمران نصیب ہوں گے، اس لیے یہ خوش فہمی برقرار اور یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ اچھے لوگ ضرور آئیں گے اور اپنافرض ِ حکمرانی ادا کریں گے۔

آمدہ الیکشن سے پہلے ایک طرف حکومت اپنی تمام تر بلکہ بے پناہ طاقت کے ساتھ اور دوسری طرف زندہ اپوزیشن ہے جس کی بڑی پارٹیاں کسی گو مگو کی کیفیت میں نظر آتی ہیں، وہ شاید الیکشن کے بارے میں ابہام کا شکار ہیں جب کہ باقی ماندہ چھوٹی پارٹیاں بھی تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہی ہیں کہ الیکشن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور ان کا باضابطہ اعلان کب ہوتا ہے تا کہ اس کے مطابق صف بندیاں کی جا سکیں۔ حکومتی پارٹی سمیت تمام پارٹیاں الیکشن کے اس بڑے سوارخ سے کئی مرتبہ گزر چکی ہیں اورمزید گزرنے کے لیے تیار نہیںاس لیے وہ محتاط اور محدود پیمانے پر الیکشن کی تیاری کر رہی ہیں۔

الیکشن ہوں گے یا نہیں اور ہوں گے تو کیسے ہوں گے، یہ ایک آج کا ترو تازہ موضوع ہے جو الیکشن کے آغاز سے لے کر انجام تک جاری رہے گا۔ اس بے یقینی کا سبب کوئی اور نہیں خود میاں نواز شریف ہیں جو ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں جس کو کچھ مخصوص حلقوں میں شدت سے ناپسند بھی کیا جارہا ہے، وہ اس بات پر مصر ہیں کہ ان کو پہلے یہ بتایا جائے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ملک کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے پائے جاتے ہیں کہ ان کو سب کچھ معلوم ہے لیکن اس کا اظہار وہ مناسب وقت پر کریں گے۔

ان کا یہی اکھڑ پن اور ضد انتخابات کے عمل کو مشکوک بنا رہی ہے، پہلے تو مارچ میں ہونے والے  کے انتخابات کے بارے میں ہی شکوک و شبہات بہت زیادہ ہیں کہ اگر یہ انتخابات ہو جاتے ہیں تو سینیٹ میں نواز لیگ ایک بڑی طاقت کے طور پر موجود رہے گی اور جو طاقتیں آیندہ عام انتخابات سے یہ توقع لگائے بیٹھی ہیں کہ نواز لیگ آئوٹ ہو جائے گی ان کو یہ صورتحال قبول نہیں۔

میاں نواز کو مختلف ذرائع سے پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں کہ وہ اپنی تلخی کو کچھ کم کریں لیکن زبان غیر سے اس شرح آرزو میں جو فائدہ ا نہیں جس بات سے روبرو ہونے میں ہے وہ ان غائبانہ پیغام رسائیوں میں کہاں لیکن یہ سب اونچے لوگوں کی باتیں ہیں، سابق اور حاضر حکمرانوں کی ہمارے جیسے عوام کو بڑے لوگوں کی باتوں میں دخل نہیں دینا چاہیے ہمیں تو صرف ایک اعلان کا انتظار رہتا ہے کہ اب فلاں صاحب آپ کے نئے حکمران ہوں گے۔

آنے والے الیکشن اسی اطلاع کو عام کرنے کا ایک طریقہ ہیں تا کہ عوام دلجمعی کے ساتھ اس نئی اطلاع کا خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور اس غلط فہمی میں قطعاً نہ رہیں کہ وہ بھی نئے حکمرانوں کو منتخب کرنے کے فیصلے میں شامل تھے۔

میرا خیال ہے آپ بھی میری طرح سرکاری پارٹی کی الیکشنی تیاریوں کو انجوائے کر رہے ہوں گے۔ اس پارٹی کو فی الوقت دو الیکشنوں کا سامنا ہے جس میں پہلا مرحلہ سینیٹ کا ہے جس میں خیرو خوبی گزر جانے کے بہت سے اسباب موجود ہیں، سب سے بڑا پنجاب اسمبلی میں اکثریت ہے اور بلوچستان اسمبلی کی طرح کوئی نئی صورتحال پیدا نہ ہوئی تو سینیٹ کا الیکشن نواز لیگ کی جیت کا الیکشن ہو گا، دوسرا عام الیکشن ہیں جس کا دارومدار عوام کے موڈ پر ہے کہ وہ کس کو اپنا نیا حکمران منتخب کرتے ہیں۔

مسلم لیگ نواز کا تو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر یہ دعویٰ ہے کہ وہ آیندہ انتخابات میں عوام کی بھر پور اکثریت سے کامیاب ہو گی لیکن عوام کے نزدیک فلاحی کاموں کو اہمیت کم ہی دی جاتی ہے اور ابھی بھی انتخابات میں ذات برادی کا بنیادی کردار ہے جس کی بنیاد پر امیدواروں کی ہار جیت کے فیصلے ہوتے ہیں البتہ شہروں میں ذات برادری سے زیادہ لیڈر کی پسند نا پسند کو اہمیت دی جا رہی ہے اور آیندہ الیکشن میں شہروں میں خاص طور پر شخصیات کا کردار اہم ہو گا۔

عوام ملک کی دو بڑی پارٹیوں کو متعدد بار آزما چکے ہیں اور ان کی کارکردگی ان کے سامنے ہے۔ گزشتہ الیکشن میں پیپلز پارٹی کا جس طرح عوام نے صفایا کیا اس بار نواز لیگ کے ساتھ یہ سب ہونے کی توقع کچھ کم ہے کہ انھوں نے کسی حد تک نظر آنے والے ترقیاتی کام بھی کیے ہیں جس کی بنیاد پر ان کا ووٹر ان کے ساتھ کھڑا ہے مگر ان دونوں کی کٹر سیاسی حریف تحریک انصاف بھی پُر امید ہے کہ وہ اس بار ان دونوں کا صفایا کر کے اپنی حکومت بنائے گی۔

تحریک کے ’ نوجوان‘ لیڈرپر اعتماد ہیں کہ وہ سب کو شکست دیں گے اور ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ ان کے پر اعتماد لب و لہجہ پر عوام کس حد تک لبیک کہتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس ملک کا اگلا حکمران کون ہو گا۔ کیا عوامی کی خواہشات پوری ہوں گی یا پھر ایک بار نظریہ ضرورت کا استعمال کر کے عوام کو غلامی میں دھکیل دیا جائے گا، یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ عوام کی طاقت کتنے زور سے الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشنوں کے لیے نکلے گی کیونکہ عوام کی رائے کے کو تسلیم کرنا ہی وقت کی ضرورت ہے اور عوام اپنی رائے دینے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ عوامی حمایت کس کے سر پر اقتدار کا ہما بٹھائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔