افغان قیادت چشم پوشی سے کام نہ لے

صدر اشرف غنی کو کم از کم اس قسم کی الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے۔


Editorial February 04, 2018
صدر اشرف غنی کو کم از کم اس قسم کی الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے قوم سے ٹیلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو طالبان اور دہشتگردی کا مرکز قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پڑوسی ملک عسکریت پسند گروپوں کے خلاف موثر کارروائی کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستانی حکام کو عسکریت پسندوں کی مکمل فہرست فراہم کر دی ہے اور اب کارروائی کا انتظار کر رہے ہیں، حالیہ دہشتگرد حملوں میں پاکستان ملوث ہے۔

افغانستان کے عوام کا مطالبہ کارروائی اور واضح کارروائی ہے۔ افغان صدر نے کہا کہ چاہے سو برس گزر جائیں افغان عوام اپنا بدلہ ضرور لیں گے، ادھر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں پیچھے نہیں رہے، ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کی جڑیں افغانستان میں نہیں پاکستان میں ہیں۔

یہ ایک درد انگیز حقیقت ہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور سابق صدر حامد کرزئی زمینی حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے زبان غیر سے شرح آرزو کی بدترین مثالیں پیش کر رہے ہیں، انہیں بھارتی ریشہ دوانیوں سے بالاتررہتے ہوئے پاکستان کے مسلسل رابطوں، وعدوں، اعتماد سازی کے اقدامات اور افغانستان میں پائیدار امن کی بے لوث مشترکہ کوششوں میں نہ صرف ساتھ دینا چاہیے بلکہ خطے کے مفاد میں پاکستان کے کلیدی کردار کو تسلیم کرنا چاہیے۔

یاد رہے جولیان شوفیلڈ نے 2008ء میں پاک افغان تعلقات کی آئندہ برسوں کی ساخت پر مبنی اپنے تجزیے میں کہا تھا کہ افغانستان کے قومی تعمیر نو کے مشن کی بنیاد پاکستان جیسے بااثر ہمسایہ ملک سے قریبی رابطہ پر ہے جو بظاہر بہت پیچیدہ سہی مگر نیٹو فورسز کی کامیابیوں کا دارومدار بھی پاکستان سے مثبت تعلقات کار اور باہمی پالیسیوں پر ہوگا۔ تاہم افغان قیادت کی الزام تراشی اور حقائق کو جھٹلانے کی عجیب حکمت عملی ہے کہ اپنی سنگین داخلی صورتحال، طالبان اور داعش کے مسلسل حملوں اور کابل حکومت کی بے بسی کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، جب کہ پاکستان خطے میں دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کر رہا ہے دوسرا کون سا ملک دہشتگردوں کے خلاف اس بے جگری سے لڑ رہا ہے۔

صدر اشرف غنی کو کم از کم اس قسم کی الزام تراشی سے گریز کرنا چاہیے، ورنہ اسے مریضانہ ڈپلومیسی کی انتہا اور پاک افغان مشترکہ امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی شعوری کوشش ہی سمجھا جائے گا جو امریکا، بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ سے الگ کوئی چیز نہیں۔

دریں اثنا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان میں دہشتگردی کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت کا حالیہ واقعات پر ردعمل بیرونی عناصر کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کا نتیجہ ہے۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت قومی سلامتی کا 18 واں اجلاس جمعے کو منعقد ہوا، اجلاس میں وزیرخارجہ خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ،پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان، پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی، مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ، اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی جب کہ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاک افغان سرحد محفوظ بنانے کے لیے افعانستان بھی اپنا کردار ادا کرے گا۔

پاکستان کی طرف سے واضح کیا گیا کہ ملک میں دہشتگردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں، نہ ہی پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال ہونے دیگا، لہذا دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی فرنٹ لائن ریاستی حیثیت اور کردار کو دنیا تسلیم کرے، افغانستان میں ناکامی پر امریکی انتظامیہ کے کچھ لوگ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ پاک افغان سرحد محفوظ بنانے کے لیے افعانستان بھی اپنا کردار ادا کرے گا، پاکستان نے افغان سرحد پر 975 چوکیاں تعمیر کیں جب کہ افغانستان کی چوکیاں صرف 200 ہیں، افغانستان سے پاکستانی علاقوں پر 470 حملے ہوئے۔

قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان کے ساتھ بارڈرکنٹرول کے حوالے سے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحد پر باڑ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور افغان حکومت کو بھی سرحد پر باڑ لگانے کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے افغان موقف میں بہت تضاد سامنے آچکا ہے، افغانستان میں حملے صدر ٹرمپ کی پالیسی کے ردعمل کے طور پر ہیں اور افغانستان بھارت کے ایماء پر پاکستان پر الزام تراشی کر رہا ہے ۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مخالف چار فریقی اسٹرٹیجی کو ترک کرکے افغان حکومت دہشتگردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے چلمن سے باہر نکل آئے، عالمی برادری سمیت ٹرمپ انتظامیہ خطے کی حرکیات کے گہرے ادراک کے مرحلہ سے گزر رہی ہے، گزشتہ روز امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوب ایشیا حکمت عملی کے تحت پاکستان پر حملہ کا کوئی پروگرام نہیں۔

پینٹاگان ترجمان ڈینا وائٹ اور لیفٹیننٹ جنرل میکنزی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان جغرافیائی لحاظ سے خطے کا اہم ملک ہے، صرف امن کے لیے اسلام آباد سے تعاون درکار ہے، انھوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان دہشتگردی سے متاثرہ ملک ہے جب کہ دہشتگردی کے خلاف اس کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ پڑوسی ملک ہوتے ہوئے بھی افغانستان امن عمل میں پاکستان کے پیج پر آنے اور افغانستان میں حقیقت امن کے قیام و استحکام کے بجائے ان قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہورہا ہے جنھیں علاقائی امن سے کوئی سروکار نہیں ۔

 

مقبول خبریں