مسئلہ کشمیر پر صدر زرداری کا ٹھوس مؤقف

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’’مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی محور ہے۔‘‘ یہ بات صدر نے آزاد کشمیر کی سیاسی قیادت کے ایک وفد سے کہی جو وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید کی سربراہی میں صدر مملکت سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آیا تھا۔ وفد نے صدر کو کامیابی کے ساتھ حکومت کے پانچ سال مکمل کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے انھیں آزاد کشمیر اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت دی جو صدر نے قبول کر لی۔ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی  زرداری کا کہنا تھا کہ افضل گورو اور مقبول بٹ کے جسد خاکی ان کے لواحقین کو ملنے چاہئیں۔

یہ موقف درست ہے ، بھارتی حکومت کو اس پر غور کرنا چاہیے ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کو  اول تو جعلی پولیس مقابلوں میں مار دیا جاتا ہے یا پھر سنگین الزامات لگا کر پھانسی دیدی جاتی ہے اور لاشیں بھی لواحقین کو نہیں دی جاتیں۔ ادھر مقبوضہ وادی میں مدت مدید سے چلنے والی آزادی کی تحریک کے بعض لیڈر حالیہ عرصے میں یہ گلہ کرتے پائے گئے کہ پاکستان نے انھیں فراموش کر دیا ہے لہذا ستر ہزار سے زاید کشمیریوں کی جانوں کی قربانیاں کہیں رائیگاں نہ چلی جائیں۔ ایسی صورت میں صدر مملکت آصف علی  زرداری کی طرف سے یہ یقین دہانی کہ مسئلہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی محور ہے‘ خصوصی اہمیت کا حامل ہے، جس کا مطلب ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی قطعاً تبدیل نہیں ہوئی اور پاکستان اب بھی اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرانے کا متمنی ہے۔

اس تاریخی حقیقت کے باوجود کہ بھارت نے جس اصول کی بنیاد پر ریاست حیدرآباد دکن پر قبضہ کیا تھا کہ اگرچہ وہاں کا حکمران (نظام) مسلمان تھا لیکن ریاست کی آبادی میں ہندو اکثریت تھی۔ مگر یہ اصول مسلمانوں کی اکثریتی آبادی والی ریاست جموں وکشمیر پر لاگو نہیں کیا گیا بلکہ یہاں بھارت کی منطق یہ تھی کہ ریاست کے حکمران  نے اس کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مہاراجہ کشمیر ہندو تھا جب کہ کشمیریوں کی اکثریت مسلمان تھی جو پاکستان سے الحاق چاہتی تھی ۔ بعدازاں جب شدید عوامی احتجاج سے حالات قابو سے باہر ہونے لگے تو اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لال نہرو نے اس تنازع کو اقوام متحدہ کے پاس بھیج دیا۔

جہاں یہ قرارداد منظور ہو گئی کہ ریاست کے باشندوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے جس کے مطابق وہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس باقاعدہ فوج کشی کے ذریعے اس مسلم اکثریتی ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اور بعد ازاں وہاں  پر نام نہاد الیکشن کروا کے ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کر لیا اور اٹوٹ انگ کی گردان شروع کر دی۔ پاکستان کے لیے کشمیر کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ پاکستان کے تقریباً تمام دریا کشمیر کے چشموں سے نکل کر ہی ادھر آتے ہیں۔

اور جن پر اب بھارت نے تھوک کے حساب سے ڈیم بنا لیے ہیں تا کہ جب چاہے پاکستان کی طرف آنے والے دریائی پانی میں من مانے طور پر کمی بیشی کر سکے۔ اس حوالے سے بھارت سندھ طاس  معاہدے کی بھی صریح خلاف ورزی کر رہا ہے جو  بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان کے مابین عالمی بینک کی زیرِ نگرانی کرایا گیا تھا اور جس کے تحت فیلڈ مارشل ایوب خان نے پاکستان کے تین دریا بھارت کی تحویل میں دینے کا اقرار کر لیا تھا۔

اس وقت تک چونکہ ملک میں پانی کی قلت کا کوئی مسئلہ نہ تھا اس لیے اس معاہدے کے منفی پہلوؤں کا ادراک نہ کیا جا سکا، تاہم جب ہماری دریائی زمینیں دریاؤں کے خشک ہونے سے بنجر ہونے لگیں تو ہمارے کاشتکاروں  کو جان کے لالے پڑ گئے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کا تنازعہ بار بار عالمی عدالت انصاف تک جانے لگا۔ تاہم اگر ہم اس سارے قضیے کا مکمل غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو ہمیں اپنی حکومت کا بھی تھوڑا قصور نظر آئے گا جس نے ڈیموں کی تعمیر پر  مناسب توجہ نہیں دی جب کہ عدو اپنی چستی اور پھرتی سے میدان مار گیا۔