چراغ عقل لے کر ڈھونڈیئے تو…

نجمہ عالم  جمعـء 5 اپريل 2013

لیجیے انتخابات بالکل سر پر آگئے لہٰذا ہر کوئی اپنی بساط بھرکوشش میں ہے کہ صوبائی یا وفاقی اسمبلی میں کوئی سیٹ انھیں بھی حاصل ہوجائے۔ پرانے بوڑھے گھوڑوں سے لے کر نئے اور جوان تک سب اس دوڑ میں سرپٹ بھاگے جارہے ہیں۔ اور اس گہماگہمی میں نہ کوئی اپنے (بلکہ دوسروں کے بھی) دامن کو دیکھ رہا ہے اور نہ گریبان میں جھانک رہا ہے۔ سب دودھ کے دھلے بلکہ نہائے ہوئے چاند کے ٹکڑے خود کو سمجھ رہے ہیں۔ ہر قسم اور نام کی مسلم لیگیں پی پی پی اور دیگر جماعتیں (4-2 سیٹوں کی صورت ہی میں سہی) جو بار بار کی آزمائی ہوئی ہیں ان کے سابقہ کردار اور اعمال پر طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو شاید انتخاب میں کسی کے کچھ کام ہی آجائے۔

ان گھاگ سیاستدانوں اور ان  کے اتحادیوں کے کارناموں کی میں کوئی لمبی چوڑی فہرست پیش کرنا نہیں چاہتی ہوں کیونکہ ان تمام کارناموں کے بیان کے لیے ایک کالم نہیں بلکہ پورے اخبار کا ضمیمہ درکار ہوگا میں تو صرف ایک دو مثال ہی سے مجوزہ انتخاب میں ووٹر کو فیصلے میں مدد کے لیے پیش کر رہی ہوں۔بھاری مینڈیٹ والے ایک صاحب نے اپنے دور حکومت میں کے پی ٹی کے قوانین کو ایک روز کے لیے معطل فرماکر نہ جانے کتنی گاڑیاں (اور شاید کچھ اور بھی) بلا کسٹم ادا کیے نکلوائیں۔ موصوف نے قرض اتارنے اور کشکول توڑنے کا  نعرہ لگاکر پوری قوم سے ایک دن کی تنخواہ وصول فرمائی تھی نہ قرض اتارا نہ کشکول ٹوٹا۔

اب ہر کالم نگار ، ہر سیاستدان، ہر شخص کو ایک جماعت کا پانچ سالہ آئینی اقتدار مکمل ہونے پر اس کا صرف منفی پہلو ہی نظر آرہا ہے۔ کسی مثبت پہلو پر کسی کی نظر ہی نہیں پڑ رہی بلکہ اس پانچ سالہ دور کے علاوہ ماضی کے حکمرانوں میں تمام نہ سہی کچھ نہ کچھ خوبیاں سب کو نظر آرہی ہیں۔ ’’حالانکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ’’کوئی بھی نہ مکمل برا ہوتا ہے اور نہ مکمل اچھا‘‘ کیونکہ قوم کا حافظہ اس قدر کمزور ہے کہ وہ ایک اقتدار سے دوسرے دور اقتدار کے درمیانی عرصے میں سب کچھ بھول جاتے ہیں اور یہ بدنصیب ملک گزشتہ 65 سال میں آج جس مقام پر ہے اس کو اس جگہ پہنچانے میں صرف حال میں فارغ ہونے والی حکومت کی غلطیوں کے سوا کسی اور کا کوئی ہاتھ نہیں۔

آج سب کو قتل و غارت گری (جس کی اصل وجہ فسطائیت ، مذہبی انتہاپسند جماعتوں اور طالبان کی یلغار ہے جو پہلے نہ تھی) قومی و نجی املاک کا نقصان بہت مضطرب کر رہا ہے۔ مگر نو ستاروں کے اتحاد نے بھٹو کے خلاف چلانے والی تحریک میں جو حشر ملک کا اور قومی و نجی املاک کا کیا تھا وہ شاید سب بھول گئے ہوں لیکن میں وہ منظر نہیں بھلا سکتی جب کے۔آر۔ٹی۔سی کے ڈپو کو نذرآتش کیا گیا تھا، جہاں سیکڑوں بسیں موجود تھیں اور کئی دن تک ان سے شعلے اور دھواں اٹھتا رہا تھا۔ آج جہاں الکرم اسکوائر ہے وہ ڈپو شاید اسی جگہ تھا اور ہم سڑک پار شریف آباد میں رہتے تھے کئی دن شعلوں کی تپش اور دھوئیں سے دم گھٹتا رہتا تھا۔ تمام تعلیمی ادارے چوپٹ اور سڑکیں ویران ہوچکی تھیں۔ گلی کوچوں میں مذہبی نظام رائج کرنے والوں کے کارکنان نعرے لگاتے دندناتے پھرتے تھے۔ گھر سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اس تحریک کا مقصد  تو پورا نہ ہوا البتہ پہلے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی اور مارشل لاء کا نفاذ اس تحریک کا فقید المثال کارنامہ ضرور ٹھہرا۔

آج پھر وہی سب نئے جبہ و دستار میں عوام کی عدالت میں حاضر ہیں ’’دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ‘‘۔ اب یہ عوام کی عدالت پر منحصر ہے کہ وہ ان پر فرد جرم عائد کرے یا اپنا آیندہ حکمران تسلیم کرے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سب مختلف اوقات میں آزمائے ہوئے ہیں اور ان کے اصل چہرے کسی نقاب میں پوشیدہ رہ کر بھی سامنے ہی ہیں ہاں پردہ اگر عوام کی عقل پر پڑا ہوا ہے تو نہ کچھ کہا جاسکتا ہے اور نہ کچھ کیا جاسکتا ہے۔

یہ سارے مناظر بے شک سب کے نہ سہی کچھ کی نگاہوں میں تو ضرور ہوں گے۔ مگر کیا کیا جائے کہ انتخابات بہرحال سر پر ہیں اور عوام کے پاس ووٹ کی طاقت ہے اس کا صحیح یا غلط استعمال ہی ہماری تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔ اب بے چارے عوام کریں تو کیا کریں؟ ہاں اب رہ گئے عمران خان جو یقیناً نیا خون، نیا جذبہ و ولولہ لے کر اٹھے ہیں اور بے حد پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ خود ہی اپنے گن گا رہے ہیں کہ کسی دوسرے کو ان کی مداح سرائی کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ تو چلیں ان کو آزما لیتے ہیں کیونکہ یہ ابھی نووارد میدان سیاست ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے پاس اب اتنا وقت ہے کہ وہ کسی نئے ناتجربہ کار کو آزمائے؟ تو کیوں نہ انھیں اقتدار سونپنے سے پہلے ہی اچھی طرح چھان پھٹک لیا جائے۔

عمران خان خاصے معتبر شخص ہیں۔ انھوں نے پاکستان کو ورلڈ کپ کے اعزاز سے سرفراز فرمایا۔ مگر کیا یہ اکیلے اور صرف کپتان کا کارنامہ تھا یا پوری ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا صلہ؟ انھوں نے شوکت خانم میموریل اسپتال بنوایا، کیا تن تنہا؟ پوری قوم کے علاوہ غیر ممالک سے بھی چندہ و امداد لے کر پھر اس اسپتال میں مفت علاج کی سہولت بھی کسی کو حاصل نہیں۔ اس سلسلے میں ایس۔آئی۔یو۔ٹی(SIUT) کے ڈاکٹر ادیب رضوی ہیں جو نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں نہ جھولی۔ مگر دینے والے دیتے ہیں تو اس کا استعمال بھی ایسے ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے سیٹھ ساہوکار سے لے کر معمولی مزدور اور بے روزگار مریض تک کا بالکل مفت علاج ہوتا ہے۔ (وہ اپنے اس کارنامے پر قوم سے ووٹ بھی نہیں مانگ رہے)۔

بہرحال ذکر تھا عمران خان کو آزمانے کا، ان کی اشتہاری مہم، بڑے بڑے جلسے یہ سب کچھ سب کے سامنے ہیں، ہم کسی سے کوئی حساب طلب نہیں کر رہے، بس اتنا اور بتاتے چلیں (ورنہ کالم بہت طویل ہوجائے گا) کہ عمران خان سے مکمل تعارف اور انھیں اچھی طرح جانچنے اور پہچاننے کے لیے سید ذیشان حیدر کا کالم ’’نظریے کی ماں…ضرورت‘‘ جوکہ ایکسپریس اتوار 31 مارچ میں شایع ہوا ہے دوبارہ پڑھ لیجیے۔ اس کے بعد فیصلہ کیجیے کہ خان صاحب کو آزمانا چاہیے یا نہیں۔ (اسی صورت میں ہم پاکستان کو آیندہ طالبان کی گرفت سے آزاد کراسکتے ہیں)۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس کو منتخب کیا جائے؟ تو عرض ہے کہ چراغ عقل لے کر اگر ڈھونڈا جائے تو کوئی نہ کوئی تو ایسا مل ہی جائے گا جو طالبان کا نہیں بلکہ قائد اعظم کا گمشدہ پاکستان قوم کو واپس کرنے کا عزم وحوصلہ اور صلاحیت بھی رکھتا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔