سفارتکاروں کو ہراساں کیے جانے کے شواہد بھارت کے حوالے

اس سے پیشتر متعدد بار پاکستانی سفارتی عملے کو بھارت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔


Editorial March 24, 2018
اس سے پیشتر متعدد بار پاکستانی سفارتی عملے کو بھارت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوٹو : فائل

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے جمعرات کو ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ نئی دہلی میں پاکستانی سفارت کاروں کو ہراساں کیے جانے کے شواہد بھارت کو فراہم کردیے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو دورے کی دعوت مثبت پیش رفت ہے، اس دعوت کا جائزہ لیا جارہا ہے،جلد افغان حکام کو جواب سے آگاہ کردیں گے، پاکستان میں اب دہشت گردوں کا کوئی منظم وجود اور محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں، اس سلسلے میں امریکا اگر انٹیلی جنس معلومات فراہم کرے تو کارروائی کریں گے۔ بھارت میں پاکستانی سفارتکاروں کے ساتھ جو نامناسب سلوک روا رکھا گیا وہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے پیشتر متعدد بار پاکستانی سفارتی عملے کو بھارت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

ویانا کنونشن کے تحت پاکستانی سفارتکاروں کا تحفظ بھارت کی ذمے داری ہے لیکن وہ عالمی قوانین کی کھلے عام پامالی کر رہا ہے' افسوسناک امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی طاقتیں بھی بھارت کی اس غنڈہ گردی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہیں۔

پاکستان بھارت کے اس ناروا رویے کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اس احتجاج پر بھارت کیا ردعمل دیتا ہے' اس کے ماضی کے کردار کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آ جائے گا اور مستقبل میں اس سے اچھائی کی امید خارج از امکان ہے۔

افغانستان کے صدر کی جانب سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو دورے کی دعوت کے مثبت اثرات اس وقت ہی سامنے آئیں گے جب افغان حکومت بھارت اور امریکا کے ہاتھوں کٹھ پتلی کا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے ملک اور خطے کے استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دے گی۔

پاکستان نے ہمیشہ یہ واضح کیا ہے کہ پرامن افغانستان پاکستان کے استحکام کے لیے ناگزیر ہے لہٰذا وہاں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے افغان حکومت کو بھی اپنے رویے میں مثبت تبدیلی لانا ہو گی۔

مقبول خبریں