کسی شیر کو نہیں جانتا اصل شیر میرے جج ہیں، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  پير 16 اپريل 2018
لوگ خواتین کو شیلٹر کے طور پر سامنے لے آتے ہیں غیرت ہوتی توخود سامنے آتے، چیف جسٹس فوٹو:فائل

لوگ خواتین کو شیلٹر کے طور پر سامنے لے آتے ہیں غیرت ہوتی توخود سامنے آتے، چیف جسٹس فوٹو:فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ کسی شیر کو نہیں جانتا اصل شیر میرے جج ہیں۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے میڈیا کمیشن کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ سماعت میں بھارتی وزیر ریلوے لالو پرشاد کا نام لیا، میری معلومات غلط تھی، لالو پرشاد لاء گریجویٹ ہیں، میری اس بات پر طلعت حسین نے آسمان سر پر اٹھالیا، کیا یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے، کسی نے فیصل رضاعابدی کا انٹرویو دیکھا ہے۔

’’ میڈیا کی آزادی عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے ‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ کسی شیر کو میں نہیں جانتا۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ججز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصل شیر ہیں۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ عدالت کا اتنا احترام ضرور کریں جتنا کسی بڑے کا کیا جانا چاہیے، کسی کی تذلیل مقصود نہیں، نااہلی کیس پر فیصلے کے بعد ہی نعرے لگے، عدلیہ کے باہر عدلیہ مردہ باد کے نعرے لگے، ابھی صبر اور تحمل سے کام لے رہے ہیں، لوگ خواتین کو ڈھال کے طور پر سامنے لے آتے ہیں، غیرت ہوتی توخود سامنے آتے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ بات زبان سے بڑھ گئی ہے، میڈیا کی آزادی عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کمزور ہوگی تو میڈیا کمزور ہوگا۔

’’ سپریم کورٹ کی عمارت غیرقانونی ہے تو اسے بھی گرا دیا جائے ‘‘

دوسری جانب غیرقانونی شادی ہال تعمیرات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی تعمیرات مل ملا کر ہوتی ہیں اور سی ٹی اے بھی اس میں ملوث ہے۔ شادی لان کے وکیل نے کہا کہ بنی گالہ میں عمران خان کے گھرسمیت تعمیرات غیرقانونی ہیں، دو کلومیٹر کے دائرے میں کئی شادی ہال ہیں، سپریم کورٹ کی  بلڈنگ بھی 2 کلومیٹر کے اندر آتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر ایسا ہے تو سپریم کورٹ کو بھی گرا دیں۔ جس پر لان کے مالک جمیل عباسی نے بتایا کہ شادی لان قوانین کے مطابق ہے، عدلیہ بحالی تحریک میں تین مرتبہ جیل گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا ہو سکتا ہے چوتھی مرتبہ بھی جانا پڑ جائے۔

’’ غصے میں کسی کی سرزنش نہیں کرتا لیکن میڈیا پر چل جاتے ہیں ‘‘

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ چک شہزاد میں فارم ہاؤسز سبزیوں کی افزائش کے لئے دیئے گئے تھے لیکن وہاں محل جیسے گھر بنے ہوئے ہیں، یہ اراضی کس نے لیز پر دی۔  وکیل نے بتایا کہ فارم ہاؤسز پر بڑے بااثر لوگ رہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون بڑے اور بااثر لوگ ہیں ؟ ایک مرتبہ قانون کی حکمرانی قائم ہوگئی تو سب ٹھیک ہوجائے گا، ضرورت ہوئی تو چک شہزاد فارم ہاؤسز کا معائنہ بھی کرسکتے ہیں، غریب آدمی کو ایک کوٹھڑی نہیں ملتی، کیا صرف امیر آدمی کی زندگی ہے؟ اس ملک میں اس کلچر کو ختم کرنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں غصے میں کسی کی سرزنش نہیں کرتا لیکن میڈیا پرمیری طرف سے سرزنش کے الفاظ چل جاتے ہیں اور بلاوجہ میری بدنامی کرتے ہیں، ہم صرف سوالات پوچھتے ہیں۔

واضح رہے کہ چیف جسٹس نے محکمہ ریلوے میں مبینہ کرپشن سے متعلق کیس کی گزشتہ سماعت پر کہا تھا کہ بھارت کا وزیر ریلوے لالو پرشاد ان پڑھ آدمی تھا، لیکن ادارے کو منافع بخش بنایا، ہمارے ہاں صرف جلسوں میں ریلوے کے منافع بخش ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اصل صورتحال مختلف ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔