انتخابات 2013، کچھ ڈھنگ پُرانے، کچھ رنگ نرالے

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 14 اپريل 2013
سخت اسکروٹنی نے اس الیکشن کے عمل کو دل چسپ اور یادگار بنادیا ہے۔ فوٹو: فائل

سخت اسکروٹنی نے اس الیکشن کے عمل کو دل چسپ اور یادگار بنادیا ہے۔ فوٹو: فائل

ہمارے رنگ انوکھے، ڈھنگ نرالے اور انداز جداگانہ ہیں ۔ ہَلا گلا، شور شرابا، دھوم دھڑکا، اس میں تو ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

سنجیدگی، بردباری، متانت، شائستگی، رواداری، احترام، برداشت، میانہ روی، کتنے اچھے اوصاف ہیں ۔ بس یہ الفاظ ہی رہ گئے، ہم انہیں اپنا اوصاف نہ بنا سکے۔ ان سے ہمارا دور پار کا ناتا نہیں ہے ، اور ہو بھی کیسے کہ چھوٹے ہمیشہ بڑوں سے سیکھتے ہیں اور ہمارے بڑے ۔۔۔چلیے چھوڑ دیجیے کہ اس بحث سے پیشانیاں شکن آلود، آنکھیں شؑعلہ بار اور دہن انگارے اگلنے لگتا ہے۔ ناخلف، گستاخ، منہ پھٹ اور بد تمیز اضافی سننے کو ملتے ہیں۔

انتخابات کا موسم آگیا ہے۔ موسم بہار میں پھول کھلنے لگے ہیں۔ غنچے چٹخنے لگے ہیں۔ ڈالیاں مسکراتی اور ہوائیں گیت گاتی ہیں۔ اور ایسے میں انتخاب کا کھیل شروع ہوا ہے ۔ ہر سیاسی جماعت اپنا منشور جو خوب صورت لفظوں سے سجا ہوا ہے، خوب وعدوں سے لدا ہوا، سہانے دور کی نوید مسرت لیے ہوئے، روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم و روزگار، امن اور چین کے ترانے، ہم ہیں ناں، ہم ہیں ناں کی تال پر پیش کر رہی ہے۔ سیاسی کارکن بھی؛ آوے آوے؛ میں لگ گئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں میں ٹکٹ تقسیم کردیے ہیں۔ اب جسے ٹکٹ ملا وہ اسے لہراتے ہوئے باہر آیا اور مبارک سلامت کا شور سنتے ہوئے روانہ ہوا۔

جسے نہیں ملا اس نے اپنے حامیوں کے ساتھ خودسوزی کی کوشش کی، ٹائروں کو آگ لگاکر سڑک بند کرکے سینہ کوبی کی، کچھ بجلی کے کھمبوں پر چڑھ گئے۔ جو کچھ شائستہ تھے وہ مختلف چینلز پر بیٹھے میرٹ کا قتل عام کا رونا روتے ہیں۔ لیکن بہت محتاط انداز میں کہ کہیں زیادہ ہی نہ بول دیں۔ جن امیدواروں کو ٹکٹ ملے انہوں نے الیکشن کمیشن کا رخ کیا۔ نام زدگی کا فارم حاصل کیا۔ اسے بہت محتاط ہوکر پر کیا اور پھر بہت تام جھام سے ریٹرننگ افسر کے حضور پیش کرنے کے لیے عازم سفر ہوئے ۔ ہار پھول، ڈھول تاشے، باجے گاجے، ناچتے گاتے لشکر کے ساتھ فارم جمع کرائے اور پھر سینہ پھلا کر جیتنے سے پہلے ہی وکٹری کا نشان بناکر تصویر کھنچوائیں اور طرم خان بنے واپس لوٹے۔ لیکن ان میں ایسے بھی تھے جو سائیکل پر آئے۔ ایک صاحب جو اب جیل میں ہیں گدھا گاڑی پر چلے آئے۔

خدا خدا کرکے ایک مرحلہ تو گزر گیا۔ فارمز تو جمع ہوگئے۔ پھر شروع ہوا جانچ پڑتال کا مرحلہ اور یہ مرحلہ سب سے زیادہ مشکل ہے ۔ ساری قابلیت سامنے آجاتی ہے۔ کلغی سر نگوں ہوجاتی ہے اور اندر سے نکل آتا ہے اصل۔ وہ جو قابلیت جھاڑتا پھرتا تھا پانی کا بلبلا بن جاتا ہے، لرزتا ہوا، کانپتا ہوا، امیدوار مودب ہوکر ریٹرننگ آفیسر کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے امتحان۔ دوسرا کلمہ سناؤ، پاکستان کا قومی ترانہ کس نے لکھا، جنگ بدر کب ہوئی تھی، دعائے قنوت سناؤ، سورۂ کوثر سناؤ، پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کون تھے، چاند پر پہلا قدم کس نے رکھا، اور پھر جوابات سنیے اور اپنے مستقبل کو دیکھیے یا احساس ہے تو سر پیٹیے سینہ کوبی کیجیے۔ 63-62 کی تلوار سے لیس ریٹرننگ افسر اپنے سوالوں کے یہ جواب سنتا ہے: ’’دوسرا کلمہ نہیں یاد، کوئی اور سن لیں‘‘، پاکستان کا قومی ترانہ علامہ اقبال نے لکھا تھا‘‘،’’جنگ بدر سعودی عرب میں ہوئی تھی‘‘،’’پاکستان کے پہلے گورنر جنرل لیاقت علی خان تھے۔‘‘

لطیفے ہی لطیفے۔ امیدوار مجسم لطیفہ بن گئے ہیں۔ اب یہ دوسری بحث ہے کہ کیا یہ درست طریقہ ہے؟ اچھے اچھے امیدوار شرمندہ ہیں اور نہ جانے ہیں بھی یا نہیں۔۔۔۔۔۔بہت دل چسپ صورت حال ہے کہ ایک نام ور اداکارہ نے دعائے قنوت سنائی، ریٹرننگ افسر پر پھونک ماری، آنسو بہائے اور سرخروٹھہری۔ ایک نام ور کالم نویس نے اپنے کالم کے اردو ترجمے کو غلط قرار دیا، لیکن نہیں سنی گئی۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ سب سے زیادہ خطرناک صورت حال جعلی ڈگریاں کے حوالے سے پیدا ہوئی ہے ۔ اب وہ آتے ہیں اور جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔

اب تو امیدوار ریٹرننگ افسر کے پاس جانے سے پہلے بازو پر امام ضامن باندھنے لگے ہیں اور ’’آل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو‘‘ کا ورد بھی کرتے ہیں ۔ نذرنیاز، صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں۔ مزاروں، درگاہوں، آستانوں پر سر جھکائے دعائیں اور منتیں مانگ رہے ہیں، پیروں، فقیروں، ملنگوں ، نجومیوں اور عاملوں کے چرنوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر قسمت نے یاوری کی اور سرخرو ٹھہرے تو فاتحانہ انداز میں باہر آتے اور اخبار نویسوں کو اپنا نتیجہ سناتے ہیں کہ ہم تو ہوگئے پاس، ایسے مونٹیسوری کے معصوم بچوں کی طرح اترائے پھرتے ہیں جو اپنا پہلا امتحان پاس کرنے پر خوشی اور مسرت کا ایسا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی چال ہی بدل جاتی ہے، وہ گیت یاد آیا:

یہ محفل جو آج سجی ہے

اس محفل میں، ہے کوئی ہم سا

ہم سا ہو تو سامنے آئے

اب شروع ہوا انتخابی مہم کا آغاز ۔ واہ جی ! کیا کہنے، الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق اور دیگر ضوابط ہوا میں بخارات بن کر تحلیل ہوجاتے ہیں۔ امیدواروں کے بینرز، پمفلٹ، ہینڈبل، وال چاکنگ، کارنر میٹنگ، دعوتیں، ملنا ملانا ۔ امیدوار سراپا اخلاص ا ور مجسم اخلاق بن جاتے ہیں۔ غریبوں کے درد سے بے حال اور ہر ایک کی مدد کے لیے تیار۔ پینافلیکس کے رنگارنگ بینرز، رکشوں، ٹیکسیوں، تانگوں، کاروں پر بینرز۔ ہوا میں لہراتے ہوئے پرچم اور سڑکوں کے آرپار رسی سے بندھے بینرز۔ ہر طرف بینرز ہی بینرز۔ دیواروں پر نیلی پیلی لال گلابی چاکنگ کے ساتھ پوسٹرز کی بہار اور پھر پوسٹر پر پوسٹر لگاتے ہوئے جھگڑے ۔

ایک دوسرے کو کوستے ہوئے امیدوار، غریبوں کے دکھ درد میں بے حال اور انہیں سہانے خواب دکھا نے میں ایک دوجے سے بازی ملے جانے کے لیے بے قرار امیدوار۔ نوجوانوں کے لیے پرنٹ کی ہوئی ٹی شرٹس، بیجز، انتخابی دفاتر پر رنگارنگ قمقمے، جلتی بجھتی جھالریں، انتخابی نشانات اور بس ایک ہی درخواست کہ ہمیں ووٹ دو، ہمیں راہ نما بناؤ، ہمیں وزیر بناؤ، ہمیں اقتدار دو، جو کچھ ہوا، مجبوری تھی، بھول جاؤ۔ آؤ ہم تمہیں گلے لگائیں، تم ہمیں گلے لگاؤ۔ شاہ راہوں پر دیوقامت بل بورڈز پر بینرز اور یہ زحمت کیے بنا کہ ان بل بورڈز کا کرایہ بھی ادا کرنا ہے۔

پلاٹوں پر ناجائز قبضے کے ساتھ بل بورڈز پر قبضے کی جنگ، روزانہ سیکڑوں لوگوں سے ملاقاتیں اور ان سے ووٹ لینے کے وعدے، منت سماجت سے کام نہ چلے تو دھونس دھمکیاں۔ جعلی ووٹ بھگتانے کے لیے تگ و دو، اسلحہ بردار جماعتوں کے جتھے اور مارکٹائی کے ونگز۔ پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے نظارے۔ چینلز کی بھی چاندی ہوگئی ہے، اک دوجے کے مخالفین کو سامنے بٹھاکر تماشا، جیسے مرغوں کی لڑائی۔ خود کو دوسرے سے ممتاز کہنے والے دردمند، ٹی وی چینلز کے اینکرز کیمرا لیے لوگوں کے تاثرات پوچھتے پھر رہے ہیں۔

بابا جی! آپ کس کو ووٹ دیں گے،

اوجی! میں اسے ووٹ دوں گا جو بجلی بند کردے،

آپ ایسے امیدوار کو کیوں دیں گے ووٹ؟

اوجی! اچھا ہے بجلی آتی نہیں ہے پھر بھی بل آتا ہے۔ اچھا ہے بجلی ہی نہ رہے، کم ازکم بل تو ادا نہیں کرنا پڑے گا۔

لیکن بابا جی! آپ پھر کیسے گزارا کریں گے۔

اوجی! دیا جلائیں گے۔

بھائی! آپ کسے ووٹ دیں گے؟

اوجی! جسے ہمیشہ دیتے ہیں،

آپ کسے دیں گے ووٹ؟

بس جی! دیں گے اور ڈنکے کی چوٹ پر دیں گے۔ ہمارا لیڈر آوے ہی آوے۔

پولنگ کا دن ہمیں کیا دکھائے گا ۔ اس کے لیے تو انتظارکرنا ہوگا ۔ وہ انتظا ر جس کے ہم عادی ہوگئے ہیں۔

اک ہنگامہ ہے، تماشا ہے، شغل میلہ ہے، بس رہے گا چند دن ۔ کیا یاد آگیا۔ چار دن کی چاندنی ہے اور پھر اندھیری رات۔ خدا کرے اب اجالا ہو۔ اندھیری رات ختم ہو اور سویرا آئے۔

داناسیاست داں

نام ور، زیرک اور محتاط سیاست داں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک سے زاید حلقوں سے انتخابات لڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 11 مئی 2013 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف اور ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف نے تین حلقوں سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنے کاغذات جمع کرائے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان سب پر بازی لے گئے، انہوں نے پانچ حلقوں سے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے مخدوم جاوید ہاشمی اور سابق آمر جنرل پرویز مشرف بھی چار حلقوں سے انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ اس طرح سے محتاط سیاست داں کسی نہ کسی حلقے سے جیت جاتے ہیں اگر وہ سب حلقوں سے جیت جائیں تو باقی حلقوں میں ضمنی انتخاب ہوتا ہے اور وہ اپنے ہی کسی پارٹی راہ نما کو اس حلقے سے کام یاب کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ہم خرما، ہم ثواب۔

ٹکٹ نہ ملنے پر مسلم لیگ (ن) کی سکینہ مینگل کی خود سوزی کی کوشش

کوئٹہ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کارکن سکینہ مینگل نے پریس بریفنگ کے دوران پارٹی کی جانب سے ٹکٹ نہ دیے جانے پر دل برداشتہ ہوکر خود پر پیٹرول چھڑک کر خودسوزی کی کوشش کی جسے وہاں موجود لوگوں نے ناکام بنادیا۔ سکینہ نے دعویٰ کیا کہ وہ 2002 سے پی ایم ایل (ن) کی کارکن ہیں لیکن پارٹی نے انہیں نظرانداز کیا۔ سکینہ کو ٹکٹ تو پھر بھی نہ مل پایا البتہ انہیں پولیس ضرور گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے گئی۔

ریٹرننگ افسران کو نجی زندگی سے متعلق سوالات کرنے سے روک دیا گیا

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب بھر میں ریٹرننگ افسران کو نجی زندگی، بیویوں کی تعداد اور مختلف سورتیں سننے سے روک دیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کے دوران نجی زندگی سے متعلق سوالات کے خلاف دائر ایک درخواست پر یہ فیصلہ کیا گیا۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے سماعت کی اور دوران سماعت عدالتی معاون نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ریٹرننگ افسران کاغذات نام زدگی میں درج تفصیلات سے ہٹ کر امیدواروں سے غیرمتعلقہ سوالات کر رہے ہیں، جن کا پڑتال سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عدالت نے دلائل سننے کے بعد ریٹرننگ افسران کو نجی زندگی سے متعلق سوالات کرنے سے روک دیا ہے۔ ریٹرننگ افسران امیدواروں سے اسلامی شعائر اور نجی زندگی سے متعلق سوالات نہیں کرسکیں گے۔ پڑتال کے دوران ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں کیمرے لے جانے اور میڈیا کوریج پر بھی پابندی عاید کردی گئی ہے۔

شامیانوں میں پولنگ اسٹیشن

صوبہ پنجاب میں 176 پولنگ اسٹیشن ایسے بھی ہوں گے جو بغیر عمارت کے ہوں گے اور ٹینٹوں میں قائم کیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پولنگ اسٹیشنوں پر ٹینٹ لگاکر پولنگ کرائی جائے گی۔

یہ پولنگ اسٹیشن 21 اضلاع میں بنائے جائیں گے۔ ملتان میں 16، قصور میں ایک، سرگودھا میں 27، شیخوپورہ اور اوکاڑہ میں 18 پولنگ اسٹیشن ٹینٹوں میں قائم ہوں گے۔

آمنے سامنے

انتخابات میں نت نئے سیاسی گروہ اور ہم خیال سیاسی گروپس تو آپ نے بنتے بہت دیکھے ہوں گے مگر اس بار کوئی سیاسی پس منظر نہ رکھنے والے بھی محض ایک دوسرے کے مدمقابل آستینیں چڑھا کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ مثلاً حمزہ شہباز اور عائشہ احد، عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی اور سابق صدر مشرف، مسرت شاہین اور مولانا فضل الرحمن۔

سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف نے لاہور کے حلقہ این اے 119 سے کاغذات نام زدگی داخل کرادیے، جب کہ ان کی بیوی ہونے کا دعویٰ کرنے والی عائشہ احد نے بھی اسی حلقے سے کاغذات نام زدگی جمع کرادیے ہیں۔ اگر دونوں کے کاغذات نام زدگی درست قرار پاتے ہیں تو یہ حلقہ بہت دل چسپی کا مرکز بنا رہے گا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کراچی کے حلقہ این اے 250 سے سابق آمر پرویز مشرف کے خلاف انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ کاغذات نام زدگی جمع کراتے وقت میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ مشرف کو ظلم کی علامت تصور کرتی ہیں اور اسی لیے ان کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ الیکشن میں مشرف کو شکست دیں گی۔

کچھ دل چسپ مقابلے

گیارہ مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں کچھ دل چسپ مقابلے بھی دیکھنے کو ملیں گے، مثلاً ڈیرہ اسماعیل خان سے مولانا فضل الرحمن، فیصل کریم کنڈی اور پشتو فلموں کی اداکارہ مسرت شاہین ایک دوسرے کی مخالفت میں انتخابات لڑ رہے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 8 چار سدہ کے سے انتخاب لڑیں گے جب کہ آفتاب احمد شیرپاؤ نے بھی اسی حلقے سے کاغذات نامزدگی داخل کیے ہیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی مقتول رہنما بے نظیر بھٹو کی لاڑکانہ کی آبائی نشست سے فریال تالپور کا مقابلہ غنویٰ بھٹو سے ہوگا۔

ہم سا ہو، تو سامنے آئے

خواجہ سرا بھی میدان انتخاب میں

خواجہ سرا ہمارے سماج کا نظرانداز کیا گیا طبقہ ہیں، لیکن چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کے اقدامات نے انہیں سماج کا بہتر حصہ بننے کی راہ دکھائی ہے۔ انتخابات 2013 میں خواجہ سرا بھی میدان سیاست میں آچکے ہیں۔ کراچی میں دو خواجہ سرا بندیا رانا اور مظہر انجم صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 15 اور پی ایس 130 سے امیدوار ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو صرف 6 ماہ میں اپنے لوگوں کی تقدیر بدل دیں گے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات چل رہی ہے۔ مگر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ ان کا نعرہ ہے ’’آزمائے ہوئے کو نہ آزمائیں، ہم سے ہاتھ ملائیں۔‘‘

چارسدہ میں رکشہ ڈرائیور امیدوار

صوبہ خیبرپختون خوا اور فاٹا میں جہاں ایک طرف سیاسی پارٹیاں دولت مند امیدواروں کو ٹکٹ دے رہی ہیں وہیں چار سدہ کی تحصیل شب قدر کا رہنے والا رکشہ ڈرائیور متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے انتخاب لڑے گا۔ ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کے مطابق پی کے 22 سے الیکشن میں کھڑے ہونے والے فرہاد خان نے ریٹرننگ افسر کے پاس کاغذات نام زدگی جمع کرادیے ہیں۔ فرہاد خان کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں ٹیکسی چلاتا تھا اور وہیں سے ایم کیو ایم کی پالیسیوں خصوصاً مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد کو سامنے لانے سے متاثر ہوا۔

چارسدہ کے ایک اور حلقے این اے 8 سے ایم کیو ایم نے بیکری میں کام کرنے والے ایک محنت کش لیاقت علی کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔ وہ قومی وطن پارٹی کے چیف آفتاب احمد شیرپاؤ کا سامنا کریں گے۔ لیاقت علی نے کہا کہ دھمکیاں ملنے کے باوجود ایم کیو ایم انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔

انتخابات اور کاروبار

الیکشن کی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی الیکشن سے جڑی معاشی سرگرمیاں بھی عروج پر پہنچ گئی اور ہزاروں افراد کو عارضی روزگار مل گیا ہے۔ جیسے جیسے دن گزریں گے ان میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ پارٹی کارکنوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ڈھول بجانے والوں کی خدمات بھی حاصل کرلی گئی ہیں۔

بعض سیاسی جماعتوں نے ووٹرز کو ایس ایم ایس کے ذریعے اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے موبائل کمپنیوں سے معاہدے کرلیے ہیں۔ بینرز، پینافلیکس، سیاسی کارکنوں کے کھانے پکا نے کے لییبا ورچی حضرات اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کی بھی پیشگی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں نے ووٹروں کے لیے گاڑیاں بھی بُک کرالی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔