سرد جنگ سے نکلنا ضرورت ہے

کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس سرد جنگ کے اثرات کی لپیٹ میں جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت اور پاکستان بھی آئے۔


Editorial April 27, 2018
کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس سرد جنگ کے اثرات کی لپیٹ میں جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت اور پاکستان بھی آئے۔ فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ان دنوں روس کے دورے پر ہیں جہاں انھوں نے روسی افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل گراسیموف سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا، وہ سرد جنگ سے نکلنا چاہتا ہے جس کے اثرات آج بھی جنوبی ایشیا میں موجود ہیں۔

جنرل باجوہ نے افغانستان میں قیام امن اور استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر روسی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل گراسیموف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوں کی تعریف اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ روس افغانستان میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا سرد جنگ کے اثرات سے نکلنے کا بیان خطے کے ممالک کے باہمی تعلقات میں اور عالمی سطح پر بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔ امریکا اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ نے عالمی سطح پر ایک نئی نظریاتی تقسیم پیدا کی اور دنیا واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئی، یہ تقسیم صرف نظریہ تک محدود نہ رہی بلکہ بڑھتے بڑھتے محاذ آرائی تک جا پہنچی۔

کشمکش اور نبرد آزمائی کے اس دور میں روس اور امریکا سپر طاقت ہونے کے ناتے براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرتے رہے مگر اندرون خانہ ان کے درمیان جاری مخاصمت سرد جنگ کے نام سے سامنے آئی۔ اس سرد جنگ نے جہاں بہت سے ممالک کو فائدے پہنچائے وہاں کچھ ممالک کے لیے تباہی اور بربادی کا پیغام لے کر بھی آئی جس کی ایک واضح مثال افغانستان ہے۔

کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی اس سرد جنگ کے اثرات کی لپیٹ میں جنوبی ایشیا کے ممالک بھارت اور پاکستان بھی آئے اور وہ الگ الگ عالمی بلاک کا حصہ ہونے کے باعث ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔

اب امریکا کے پاکستان کے بارے میں رویے میں آنے والی تبدیلیوں اور چین کے ایک بڑی معاشی اور عسکری طاقت بننے کے بعد عالمی سطح پر بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک کے باہمی تعلقات میں واضح تبدیلیاں آنے لگی ہیں اور وہ ممالک جو کل تک ایک دوسرے کے مخالف کہلاتے تھے ،آج ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ شمالی کوریا امریکا کے خلاف بھرپور مخالفانہ بیانات جاری کرنے کے بعد اب نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے امریکا سے بہتر تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دے رہا ہے۔

ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ امن مشن 2018ء کے نام سے شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت مشترکہ فوجی مشقوں میں پاکستان' چین اور روس سمیت 8ممالک شریک ہوں گے جن میں پہلی بار بھارت اور پاکستان کی افواج بھی شریک ہوں گی' یہ مشقیں اگست سے ستمبر تک ہوں گی جس کی میزبانی روس کرے گا۔

بھارت اور پاکستان کی افواج کا پہلی بار کسی فوجی مشقوں میں شریک ہونا خطے میں آنے والی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان موجود علاقائی تنازعات حل ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں دوستانہ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں تو پھر پاکستان کے لیے سرد جنگ کے اثرات سے نکلنے میں اور زیادہ آسانی ہو جائے گی۔

امریکا کے مفادات اور منافقت پر مبنی رویے کو دیکھتے ہوئے پاکستان اب چین اور روس کے ساتھ اپنے دفاعی تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ دے رہا ہے جس سے علاقائی امن اور خود مختاری کی جانب بہتر پیش رفت ہو گی۔ اس وقت پورے خطے کو دہشت گردی کا سامنا ہے' دہشت گردی کو جنم دینے والے اسباب کا عمیق جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے پس منظر میں امریکا اور یورپی قوتوں کا ہاتھ ہے۔ داعش کو شام اور عراق سے نکال کر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنا امریکی پالیسی سازوں ہی کا کارنامہ ہے۔

افغانستان میں داعش کی موجودگی پاکستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرے کے علامت ہے' انھی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان امریکا کی سرد جنگ کے دائرے سے نکل کر روس کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے کی راہ پر چل نکلا ہے۔ بھارت نے بڑی ہوشیاری سے امریکا اور روس دونوں سے فوائد سمیٹے جو اس کی بہتر خارجہ پالیسی کا مظہر ہے۔

پاکستان کو بھی اس نظریاتی جنگ میں کسی ایک بلاک کا حصہ بننے کے بجائے امریکا اور روس دونوں سے بہتر تعلقات قائم کر کے معاشی' تجارتی اور عسکری فوائد حاصل کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے' طاقتوروں کی دشمنی میں کسی ایک کا دم چھلا بن کر رہنا خود مختاری اور ملکی وقار کے منافی ہے۔ پاکستان کو کسی ایک طاقت کا ہمنوا بننے کے بجائے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دینا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں