نیت

کامران عزیز  جمعرات 3 مئ 2018

’’ بے شک اعمال کا دارومدار نیت پر ہے‘‘ یہ جب بھی کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو نیت جھلک جاتی ہے، ایک فریق کرسی پکی کرنے کے لیے کام کرتا ہے تو دوسرا انھیں چلتا کرنے کا راستہ ڈھونڈتا ہے، اس ہیر پھیر میں دستور کے ساتھ ہاتھ کیا جا رہا ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ یہ بنایا ہی کیوں گیا اور اس میں شامل بھی ایسے اجزا کیے گئے جس سے ہماری سیاست و جمہوریت ’آدھا تیتر اور آدھا بٹیر‘ بن گئی، آئین کی روح سے ملک میں پارلیمانی جمہوریت ہے جو نوآبادیاتی باس کی نشانی ہے لیکن پارلیمنٹ کی تشکیل میں نئے ’’عالمی چوہدری‘‘ کو بھی لبھانے کا خیال رکھا گیا ہے مگر نہیں سوچاگیا تو ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ماتحت اپنا کاروبار زندگی چلائیںگے یا چلا رہے ہیں۔

ملک کی غالب اکثریت مسلمان تو پھر آئین سازی میں وقت کیوں ضایع کیا گیا، یہ تو ہمارے آنے سے پہلے ہی آ چکا تھا اور آج بھی ہرگھر میں بہت اہتمام و عقیدت سے پڑھا جاتا ہے، ہر ایک کی آسان رسائی میں ہے لیکن آج جو آئین ہمارے ملک میں نافذ ہے وہ کتنے گھروں میں اور کتنوں کی رسائی میں ہے، کتنے لوگ اسے پڑھتے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

یہ دستاویز تو چند ججز، قانون دانوں، طالب علموں، وکلا اور ماہرین کی رسائی تک محدود ہے اور وہ بھی انھیں قانونی موشگافیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے، کیا یہ ملک احسن طریقے سے چلانے کے لیے بنائی گئی، یہ عوام کے حقوق و ذمے داریاں کا تعین کرتی ہے یا یہ اداروں کی حدود کا احاطہ کرتی ہے، اسے عوامی نمایندوں اور منتخب ایوان کے اختیارات واضح کرنے کے لیے بنایا گیا یا یہ جرم وسزا سے نمٹنے کے طریقوں کا جواز پیش کرنے کے لیے تیار کی گئی، اگر یہ دستاویز انھی کاموں کے لیے بنائی گئی تو پھر یہ کام ہوتے نظر کیوں نہیں آتے۔

منتخب نمایندے اور ادارے آج کہاں کھڑے ہیں یہ باہم دست وگریباں کیوں ہیں، حقیقت میں اس دستاویز کو محض حق حکمرانی کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، اسے موم کی ناک بنا کر جیسے چاہا مروڑا گیا، پھر بھی اس کے تحفظ کی قسمیں کھائی جاتی ہیں اور ہر روز اسے روندا جاتا ہے، آج کون اس کی پاسداری کر رہا ہے شاید ڈھونڈے سے بھی نہ ملے مگر اس کے تحفظ کے لیے سرکرداں جگہ جگہ پائے جاتے ہیں اور یہی ہر بار اسے اپنے تحفظ کے لیے توڑتے مروڑتے رہے ہیں اور آج پھر یہی کام کرنے کی بات سر عام ہو رہی ہے اور اسے توڑ کر جنھیں روندا جاتا ہے ۔

انھیں ہی اس کام کے لیے بازو بنایا جا رہا ہے، لگتا یہی ہے کہ یہ دستور اس ملک کے توانا، طاقتور اور بااثر طبقوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے بنایا گیا، اگر اللہ کی رضا اور عوام کے حقوق کا تحفظ مقصود ہوتا تو پھرنہ اس آئین کی نوبت آتی نہ ملک برسوں بغیردستور چلایا جاتا بلکہ قرآن و سنت کو دستور قرار دے کر قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کے فورم کو استعمال کیا جاتا لیکن ایسی صورت میں بالادست طبقات کے مفادات کا تحفظ نہ ہوتا، اسی لیے معاشرے کے کسی گوشے اور زندگی کے کسی پہلو میں قرآن کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اور صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لیے موجودہ آئین میں مختلف حوالوں سے الہامی کتاب کا نام استعمال کیا گیا ہے ورنہ آج تک قوانین کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے کیا پیشرفت ہو سکی ہے۔

سود کے خاتمے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے، اسلامی نظام معیشت کو لاگو کرنے کی جدوجہد کیا رہی، یہ تو دور کی بات ہے بلکہ اس کے الٹ کام کرنے کی کوشش کی گئی، سودی کمائی پر چلنے والے بینکوں کے ذریعے زکوٰۃ کی کٹوتی فریب کاری کا زبردست ثبوت ہے، اس غلط کاری کو پکڑنے کے باوجود تصحیح کے لیے کوئی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے، اب بھی سودی کھاتوں سے زکوٰۃ کاٹی جاتی ہے، انصاف آج کہاں ہے اور ادارے کیا کام کر رہے ہیں، اخلاقی اقدار کس کھیت کی مولی ہیں کون جانتا ہے اور عوام کے حقوق کی کسے پروا ہے۔

آج سیاست میں سب جائزہے، رشوت اور بدعنوانی سکہ رائج الوقت ہے اور جھوٹ اوڑھنا اور بچھونا، حاکمیت طاقت کی اور قانون لاٹھی کا، بیدار مغز بھی حکمرانی کے ادارے کی ساخت میں تبدیلی کے ذریعے معاشرے میں سدھار لانا چاہتے ہیں، ایک کہتا ہے کہ وزیراعظم کو مضبوط بنانے والاطرز سیاست و طریقہ حکمرانی بالآخر انصاف پر مبنی معاشرے کو جنم دے گا جب کہ دوسرا فریق بضد ہے کہ صدراتی نظام ہی ملک سے ساری خرافات کو ختم کرے گا اور معاشرہ جنت بن جائے گا لیکن اس بحث سے قطع نظر 1973ء کے بعد سے موجودہ آئین کئی بار معطل و بحال ہوا مگر انتظامیہ کی کمان طاقتور کے ہاتھ میں رہی نہ کہ وزیراعظم اور صدر کے ہاتھ میں، اسی طاقت کے بل بوتے پر سیاست ہوتی رہی اور سیاستدان اپنی ہی بساط پر بکتے لوٹتے اور اپنی قسمتیں بدلتے رہے۔

1977ء میں آئین کو لپیٹنے اور اس کے بحال ہونے کے بعد حکمرانی وزیراعظم کے ہاتھ میں رہی یا صدر کے، پھر 1999ء میں دستور سے انحراف اور اس کے پھر سے نفاذ پر حکمرانی کس کے ہاتھ میں رہی، 2008ء میں آمر کے رخصت ہونے اور آئین کے ہوتے ہوئے بھی حکمران کون تھا اور اب بھی حکمرانی کس کی ہے صدر، وزیراعظم یا کسی اور کی۔

یہاں بات اختیار واقتدار، اصول و اخلاق کی نہیں بلکہ مفاد کی ہے جس کے لیے سب جائز ہے اور اسی مقصد کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے ورنہ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور آخری رسول کی امت ہونے کا شرف حاصل کرنے والی قوم کا اپنے حقوق و فرائض کے تحفظ، آپس کے معاملات نمٹانے اور ملکی امور چلانے کے لیے قرآن و سنت سے زیادہ کس آئین پر اتفاق ہو سکتا ہے مگر ایسا کرنے سے مفادپرست بالادست طبقہ کسی صورت منتخب ایوانوں میں نہیں پہنچ سکے گا۔

موجودہ پارلیمنٹ کے ارکان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی مقدس کتاب کا قاری ہو، جو لوگ آفاقی آئین سے واقف ہی نہیں بلکہ واقفیت چاہتے ہی نہیں وہ اس کے تحت قانونی سازی کیسے کریں گے، کیسے خود زندگی گزاریںگے اور کیسے اس کا ملک میں نفاذ کریں گے، کیا ان کے اعمال سے ان کی نیت اور ارادے واضح نہیں، مسلمان کی تو منزل یہی ہے توکیا کبھی ہم اس کا نفاذ کر پائیںگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔