کپتان کا اصل امتحان تو اب شروع ہوگا

احتشام بشیر  پير 30 جولائی 2018
کامیابی کے بعد متاثر کن پالیسی بیان کے بعد عمران خان کیلئے بڑا چینلج الیکشن میں عوام سے کیے گئے وعدوں کا پوراکرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

کامیابی کے بعد متاثر کن پالیسی بیان کے بعد عمران خان کیلئے بڑا چینلج الیکشن میں عوام سے کیے گئے وعدوں کا پوراکرنا ہوگا۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کو دنیائے کرکٹ کا چیمپین بنانے کے بعد عمران خان نے دوسرے کرکٹرز کی طرح کرکٹ کی ہی دنیا میں رہنے کے بجائے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور سیاست کے ساتھ انہوں نے اپنی والدہ کے نام پر اسپتال بنانے کے مشن پر بھی کام شروع کیا اور وہ اس مشن میں کامیاب ہوئے۔ کپتان عمران خان انصاف سے محروم لوگوں کی آواز بنے اور لوگوں کو انصاف دلانے کا نعرہ لگایا۔ عمران خان نے اسی مشن کو لے کر 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھ دی۔ اس وقت ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور شہید بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں۔ پی ٹی آئی بننے کے سات ماہ بعد پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کردی گئی، عمران خان اپنے چند قریبی ساتھیوں کے ساتھ نئی پارٹی کی بنیاد رکھ کر تنظیم سازی کیلئے پورے پاکستان کے ہنگامی دورے کرنے لگے۔

اس وقت ن لیگ، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی ف، ایم کیو ایم، اے این پی جیسی بڑی جماعتوں کے ہوتے ہوئے عمران خان کی جماعت کو وقعت ہی نہیں دی جاتی تھی لیکن عمران خان وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پارٹی کو قومی سطح پر لائے اور ان بڑی جماعتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دن رات ایک کیا۔ عمران خان کا کارواں چلتا رہا اور لوگ شامل ہوتے گئے۔ آج 22 سال بعد عمران خان کی تحریک انصاف ملک کی بڑی بڑی جماعتوں کو شسکت دے کر قومی سطح پر حکومت سازی کیلئے سب سے اکثریتی پارٹی بن گئی ہے۔

عمران خان نے 1997 میں اپنا پہلا الیکشن میانوالی سے لڑا جب ان کی پارٹی کو صرف دس ماہ ہوئے تھے لیکن وہ اس الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ 2002 میں عمران خان قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور وہاں سے اپنی پارلیمانی سیاست کی ابتداء کی۔ عمران خان اس وقت اسٹیبلشمنٹ پر خوب تنقید کرتے رہے کہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کیلئے ان کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن وہ رکے نہیں اور تحریک انصاف کو قومی جماعتوں کے مقابلے میں لانے میں کامیاب ہوگئے۔ 2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ اس حکومت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے گٹھ جوڑ کا فائدہ تحریک انصاف نے خوب اٹھایا، سیاسی مبصرین کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب پی ٹی آئی اسٹیبلشنٹ کے نزدیک ہونے میں کامیاب ہوئی۔ پی ٹی آئی نے پھر ایسی رفتار پکڑی کہ کسی کے ہاتھ نہ آئی اور 2013 تک پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کو پیچھے چھوڑ کر ن لیگ کے مقابلے میں کھڑی ہوگئی۔

2013 کے الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی کامیابی نظر آرہی تھی اور عمران خان نے اس وقت بھی الیکشن سے قبل ہی اپنی پارٹی کو فاتح قرار دیدیا تھا لیکن الیکشن نتائج نواز لیگ کے حق میں آگئے اور نواز شریف تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ تبدیلی کی یہ ہوا صرف خیبرپختونخوا میں چلی اور پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ البتہ نوازشریف حکومت سازی کے بعد بھی سکھ کا سانس نہ لے سکے۔ نواز حکومت پہلے دھرنے اور بعد میں پاناما کیسز میں الجھی رہی۔ پاناما سے شروع ہونے والی تحریک نواز شریف کی نااہلی پر ختم ہوئی۔

حالیہ الیکشن میں بھی پی ٹی آئی اور ن لیگ کی جانب سے ایک دوسرے پر خوب الزامات کے نشتر چلائے گئے۔ تحریک انصاف اس الیکشن میں میدان مارنے کیلئے خوب تیاری سے اتری اور عمران خان جان چکے تھے کہ مرکز کو جیتنے کیلئے پنجاب کو جیتنا ضروری ہے، اسی لئے عمران خان نے پانچ سال کے دوران اپنی توجہ پنجاب پر مرکوز رکھی اور پنجاب میں ن لیگ کا مقابلہ کرنے کیلئے نواز فیملی کو خوب بے نقاب یا بدنام کیا۔ تحریک انصاف کی کامیابی میں بڑی رکاوٹ نواز شریف خود تھے اور انہیں راستے سے ہٹانا نہایت ضروری تھا، اسی لئے نواز شریف کو مقدموں میں پھنسا کر سیاست سے باہر کر دیا گیا۔ دوسری طرف عمران خان نے الیکشن میں کامیابی کیلئے ان امیدواروں کا انتخاب کیا جو اپنی نشستیں جیتنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ سیاست میں پارٹیاں تبدیل کرنے والوں کو لوٹے جانا جاتا ہے لیکن اس بار دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں آنے والوں کو الیکٹیبلز کا نام دیا گیا اور ان الیکٹیبلز کے ذریعے عمران خان الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس بار الیکشن میں تبدیلی کی ایسی ہوا چلی جس نے وفاق میں نہ صرف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی بلکہ خیبرپختونخوا میں اے این پی، ایم ایم اے (جماعت اسلامی، جے یو آئی) پیپلز پارٹی اور قومی وطن پارٹی کو بھی نہ چھوڑا۔ خیبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے اور پی ٹی آئی نے مسلسل دوسری بار حکومت بناکر صوبے میں نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ نتائج کے مطابق گزشتہ اسمبلی کے 37 چہرے واپس آگئے ہیں، جن میں 26 ارکان پی ٹی آئی کے اور 11 ارکان اپوزیشن کے ہیں۔ انتخابات جیتنے والوں میں 11 پرانے ایسے چہرے میں بھی شامل ہیں جو گزشتہ اسمبلیوں کے رکن رہ چکے ہیں۔ انتخابات میں کامیاب ہونے والوں میں گزشتہ حکومتی کابینہ کے 17 ارکان بھی شامل ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ایم ایم اے اور اے این پی نے احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ہے جو رکنے والا نہیں لگتا۔ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف کو اپوزیشن کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لگ ایسا رہا ہے کہ مکافات عمل کے تحت دھرنے کی جو روایت پی ٹی آئی نے ملکی سیاست میں ڈالی تھی، اب پی ٹی آئی کو خود بھی اس کا سامنا کرنا ہوگا۔ موجوہ وقت میں ہر جماعت اپنی منطق کے مطابق انتخابی نتائج ماننے کو تیار نہیں۔ اب تک اپوزیشن جماعتوں کے رویّے سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اپوزیشن جماعتیں پی ٹی آئی کی طرح پارلیمنٹ کے میدان کو حکومت کیلئے خالی نہیں چھوڑیں گی؛ اور نہ صرف پارلیمنٹ کے باہر بلکہ پارلیمنٹ کے اندر بھی اپوزیشن کی مزاحمتوں اور انتقامی حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پی ٹی آئی نے کامیابی کے بعد مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کیلئے تگ و دو شروع کر دی ہے۔ وفاق میں تو حکومت بنانا آسان ہے لیکن پنجاب میں حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی کو آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ عمران خان جہاں آزاد امیدواروں کی سیاست کو چھانگا مانگا کی سیاست کہا کرتے تھے اب اس پر خود عمل کر رہے ہیں۔ عدالت جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے چکی ہے اور اب وہی آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے میں لگے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں دوتہائی اکثریت کے بعد پی ٹی آئی کو حکومت سازی میں کوئی مشکل نہیں لیکن حکومتی کابینہ بنانے کیلئے مشکل ضرور ہے۔ خیبرپختونخوا میں وزارت اعلی کیلئے پرویز خٹک اور اسد قیصر مضبوط امیدوار تھے لیکن عمران خان نے دونوں کو قومی اسمبلی کی نشستیں رکھنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اب وزیراعلی کی دوڑ میں عاطف خان اور شوکت یوسفزئی شامل ہو گئے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے نو منتخب ارکان عاطف کو وزیراعلی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جبکہ شوکت یوسفزئی واحد ایسے پارلیمنٹیرن رہ گئے ہیں جن کا شمار پارٹی کے وفاداروں اور سینئر ترین ارکان میں ہوتا ہے۔

پارٹی ذرائع کے مطابق عاطف خان پارٹی میں بڑوں قریب ہونے کے باعث مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آرہے ہیں لیکن اس حوالے سے فیصلہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کرے گی۔

کامیابی کے بعد عمران خان کا پالیسی بیان متاثر کن تھا اور اب عمران خان کیلئے بڑا چینلج الیکشن کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا ہے۔ خارجہ پالیسی، بے روزگاری، بجلی کا بحران، معیشت جیسے مسائل عمران خان کیلئے بڑے چیلنج ہوں گے۔ عمران خان کا بڑا اعلان وزیراعظم اور گورنر ہاؤسز کا استعمال نہ کرنا ہے۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ وزیراعظم ہاؤس میں رہنا پسند نہیں کریں گے۔ اسی طرح کے اعلان ماضی میں بھی ہوچکے ہیں جب ایم ایم اے کی حکومت خیبرپختونخوا میں بننے والی تھی تو اعلان کیا گیا تھا کہ گورنر ہاؤس کو یونیورسٹی بنایا جائے گا، وزراء فیصلے مساجد میں کریں گے۔ پرویزخٹک بھی وزیراعلی بنے تو کچھ دن اپنے گھر میں رہائش اختیار کی، لیکن انہیں بالآخر وزیراعلی ہاؤس واپس آنا پڑا اور پانچ سال وزیراعلی ہاؤس میں ہی گزارنے پڑے۔

22 سالہ جدوجہد کے بعد عمران خان وزیراعظم بننے جارہے ہیں لیکن ان کا اصل امتحان اب شروع ہوگا۔ الیکشن سے قبل عمران خان نے عوام کو جو سبز باغ دکھائے، انہیں حقیقت کا روپ دے کر سب کے سامنے لانا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔