لوٹ مار کا انجام

اس میں کوئی شک نہیں کہ بینک قرضوں کے علاوہ بھی بھاری کرپشن کے کئی ملزمان کے خلاف بھی انکوائری شروع ہوئی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari August 19, 2018
[email protected]

ہمارے کچھ سیاستدانوں کو یہ شکایت تھی کہ کرپشن کے خلاف آپریشن امتیازی ہے اور اس حوالے سے میڈیا میں اور سڑکوں پر احتجاج بھی کیا جاتا رہا ہے لیکن چیف جسٹس صاحب نے احتساب کا دائرہ وسیع کر کے مخالفین کی زبانیں بڑی حد تک بند کر دی ہیں۔ اس حوالے سے کرپشن کے سب سے بڑے اسکینڈل بینکوں کے قرضوں کی معافی کے مسئلے پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے، 122 قرض معاف کرانے والوں کو غالباً نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بینک قرضوں کے علاوہ بھی بھاری کرپشن کے کئی ملزمان کے خلاف بھی انکوائری شروع ہوئی ہے لیکن اس حوالے سے عام اعتراض یہ ہے کہ احتساب کی رفتار سست ہے، مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر احتساب کی رفتار بھی تیز ہونی چاہیے اور فیصلے بھی جلد ہونے چاہئیں، کیونکہ سارے ہی ملزم مجرم نہیں ہوتے، فیصلوں میں دیری کی وجہ سے بے گناہوں کو بلاوجہ اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ انصاف میں دیری بھی ایک طرح کی ناانصافی ہوتی ہے۔

یہاں میں ان ہزاروں غریب اور بے وسیلہ ملزمان کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو معمولی معمولی الزامات کے تحت برسوں سے جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہیں، ان میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعت بھی نہیں ایسے ملزموں کی تعداد ہزاروں میں ہے، ہماری بار کونسلوں کی ذمے داری ہے کہ وہ نادار ملزمان کے کیس بلا فیس لے کر بے گناہوں کی مدد کریں۔

ویسے تو کرپشن کی بیماری ہر اس ملک میں ہے جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے لیکن ہمارا ملک اس حوالے سے بدقسمتی سے سرفہرست ممالک میں شامل ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں 70 سال سے اشرافیہ کی حکمرانی ہے اور اشرافیہ کا اوڑھنا بچھونا کرپشن ہے، جس طرح مچھلی بغیر پانی کے نہیں رہتی اسی طرح اشرافیہ بغیر کرپشن کے نہیں رہ سکتی۔ حالیہ آپریشن کے دوران کرپشن کے حوالے سے ایسے ایسے محترم نام سامنے آئے ہیں جن کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جا سکتا تھا۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایسے ایسے اعلیٰ سطح کے عمائدین کرپشن کے الزام میں جیلوں میں بند ہیں جن کے اختیارات بادشاہوں کے اختیارات سے زیادہ رہے ہیں۔

اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ کرپشن کی نذر ہونے والے کھربوں روپے دراصل غریب محنت کش عوام کی محنت کی کمائی ہے، اسے ہم سرمایہ دارانہ نظام کا کرم کہیں یا حکمران طبقات کی بے ایمانی کہ غریبوں کی کمائی سے اشرافیہ 70 سال سے دنیا میں جنت کے مزے لوٹ رہی ہے اور ملک کے کروڑوں عوام کی زندگی جہنم بنی ہوئی ہے۔ ہمارا ملک پسماندہ ترین ملکوں میں بھی زیادہ پسماندہ ہے، ہر سال لاکھوں پاکستانی غذا نہ ملنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں، میڈیا ہی کے مطابق لاکھوں مرد اور عورتیں علاج سے محرومی کی وجہ موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ سارے المیے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اور چند ہاتھوں میں ارتکاز کا نتیجہ ہے، یہاں میں ہماری مذہبی قیادت سے سوال کروں گا کہ وہ اپنا سارا وقت سرمایہ دارانہ کرپٹ جمہوریت کی حصہ داری میں لگا دیتے ہیں اور بے چارے عوام غربت اور ذلت کی زندگی میں گزار دیتے ہیں۔ ہمارے پیغمبر نے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزار دی نہ وہ جاگیردار تھے نہ وہ سرمایہ دار۔ ہماری مذہبی قیادت اگر سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور لٹیروں کے خلاف جہاد شروع کر دے تو یہ ایک مذہبی فرض کی بجا آوری بھی ہو گی اور غریب عوام کی حمایت کا وسیلہ بھی لیکن مذہبی قیادت طبقاتی مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے سرمایہ دارانہ جمہوریت کے سحر میں گرفتار ہے یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حمایت سے محروم ہے۔

کرپشن ایک ایسا زہر ہے جو پورے قومی جسم میں پھیل گیا ہے کرپشن کے خاتمے کے خلاف بلاشبہ ہماری محترم عدلیہ کوشش کر رہی ہے اور اس کوشش میں وہ کامیاب بھی ہو رہی ہے لیکن اسی کرپٹ کلاس نے قومی معیشت کو اس بری طرح تاراج کیا ہے کہ ہمارا زر مبادلہ تاریخ کی کم ترین سطح پر آگیا ہے۔ حالیہ الیکشن میں ایک مڈل کلاس جماعت برسر اقتدار آئی ہے لیکن ماضی کے ایماندار حکمرانوں نے معیشت کا بیڑا اس طرح غرق کیا ہے کہ نئی حکومت سخت امتحان سے گزر رہی ہے اس امتحان سے نکلنے کے لیے 9 ارب ڈالر درکار ہیں۔

امریکا نے آئی ایم ایف کو اشارہ کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی نئی حکومت کو قرض دینے سے اجتناب کرے۔ آئی ایم ایف بھاری سود کے ساتھ قرض فراہم کرتا ہے لیکن چونکہ آئی ایم ایف امریکا کا تابع دار ادارہ بنا ہوا ہے اس لیے اس کی مرضی کے خلاف وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ نئی حکومت کو ایران نے گرم جوشی کے ساتھ ویلکم کیا ہے اس لیے دنیا کا دادا نئی حکومت سے خفا ہے لیکن اس نازک مرحلے پر سعودی حکومت نے اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے چار ارب ڈالر سے زیادہ قرض پاکستان کو دینے کے لیے آمادہ کر لیا ہے امید ہے کہ کچھ اور عرب ممالک بھی آگے بڑھ کر پاکستان کی مالی مشکلات کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

نئی حکومت چونکہ کرپشن کے حوالے سے بے داغ ہے لہٰذا دوسرے مال دار ممالک بھی پاکستان کی مدد کو آگے بڑھیں گے۔ ہماری سابق حکومت مسلسل یہ کہتی رہی ہے کہ اس نے پاکستان کو بے مثال ترقی سے ہم کنار کر دیا ہے کیا ماضی کی حکومت کا یہ دعویٰ درست ہے؟ اس کا اندازہ ہمارے زرمبادلہ کے تاریخی ذخائر سے لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان اس حال کو اس لیے پہنچا کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے ایسا لوٹ مار کا بازار گرم کیا کہ اس لوٹ مار نے اسے اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا۔ آج وہ زرمبادلہ کی کم ترین سطح پر کھڑا ہوا ہے۔

مقبول خبریں