بھارت کو پاکستانی حکومت کی آفر

میں نے بارہا لکھا ہے کہ انسان کے عقائد و نظریات اپنے وقت کے علم اور معلومات کے مطابق ہوتے ہیں


Zaheer Akhter Bedari September 10, 2018
[email protected]

پاکستان کی نئی منتخب حکومت مختلف اس لیے ہے کہ ایک مڈل کلاس انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی ہے، اس مڈل کلاس حکومت کا وژن سابقہ اشرافیائی حکومتوں کی طرز حکمرانیکو ختم کر کے ایک ایسا نظام لانا ہے جس میں طبقاتی استحصال کا خاتمہ ہو اور ملک میں معاشی انصاف کا آغاز ہو، یہ بڑا کٹھن کام اس لیے ہے کہ اشرافیہ اس کی مزاحمت کررہی ہے، اس کی وجہ صرف یہی نہیں کہ اشرافیہ کی جگہ ایک مڈل کلاس حکومت نے لے لی ہے بلکہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اشرافیائی لوٹ مار کا احتساب ہو رہا ہے اور اشرافیہ کے عالی مرتبت لوگ جیلوں میں ہیں۔

اس حوالے سے بدقسمتی یہ ہے کہ اہل دانش کا ایک حلقہ اس تبدیلی کو جمہوریت کے خلاف سازش کا نام دے کر 71 سالہ اشرافیائی لوٹ مار پر دانستہ یا نادانستہ پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نئی حکومت اندرونی خرابیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی تعلقات کو بھی بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کو یہ دلچسپ اور معنی خیز آفر پیش کی گئی ہے کہ دونوں ملک عوام کی خوشحالی کی جنگ کا معاہدہ کریں۔ یہ آفر بڑی نیک نیتی سے کی جا رہی ہے، جس کا جواب بھی نیک نیتی سے ملنا چاہیے۔ اس حوالے سے آگے بڑھنے سے پہلے تقسیم ہند کی المناک تاریخ پر ایک نظر ڈالی جانی چاہیے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ مذہبی تفاوت انسان کو جانور کس طرح بنا دیتی ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی 71 سالہ تاریخ جنگوں اور کشیدگی کی تاریخ ہے، 14 اور 15 اگست 1947ء کو یہ دونوں ملک نوآبادیاتی نظام کے چنگل سے آزاد ہوئے، صدیوں کی غلامی کے بعد جب آزادی ملی تو دونوں ملکوں میں جشن آزادی منایا جانا چاہیے تھا لیکن دنیا کی تاریخ کی یہ عجیب حیرت انگیز آزادی تھی کہ آزادی کے ساتھ ہی دونوں ملکوں کے عوام نے ایک دوسرے کا خون اس بے دردی سے بہایا کہ 22 لاکھ انسان اس آزادی کی بلی چڑھ گئے۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک بن گیا، پاکستان مسلمانوں کا ملک بن گیا۔ برصغیر کی اس حوالے سے لکھی جانے والی تاریخ اس قدر دردناک اور خون آشام ہے کہ دنیا کی تاریخ میں آزادی کی ایسی خون میں ڈوبی ہوئی تاریخ نہیں ملتی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہزار سال تک بھائیوں کی طرح رہنے والی ان دونوں قوموں میں اس بدترین تاریخی خون خرابے کی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں ہندو رہتے تھے اور پاکستان میں مسلمان رہتے تھے؟ بلاشبہ یہ خون کی ندیاں اسی لیے بہائی گئیں کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک بن گیا، پاکستان مسلمانوں کا ملک بن گیا۔

کیا ہندوستان کی ہندو قیادت اور پاکستان کی مسلم قیادت کو اندازہ تھا کہ برصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں مذہبی منافرت کا ایسا لاوا پھیلے گا کہ 22 لاکھ انسان جن میں بوڑھے، جوان، بچے اور خواتین شامل ہیں، اس بے دردی سے قتل کر دیے جائیں گے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے گا۔

میں نے بارہا لکھا ہے کہ انسان کے عقائد و نظریات اپنے وقت کے علم اور معلومات کے مطابق ہوتے ہیں، اس حقیقت کو اگر سمجھ لیا جائے تو انسانوں کے درمیان مذہبی منافرت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ بیسویں صدی سے دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی، تحقیق اور دریافت کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کی وجہ سے دنیا کی نظریاتی ہیئت میں انقلابی تبدیلیاں آگئی ہیں، ضرورت تو اس بات کی تھی کہ دنیا کے نظام کو اس نئی دنیا کی حقیقتوں کے پس منظر میں بدل کر ایک نئی دنیا کی تخلیق کی کوشش کی جائے، جس میں انسانی رشتے کو اولیت دی جائے، لیکن حیرت ہے کہ دنیا کے اہل علم، اہل دانش گونگے بہرے اور اندھے بنے ہوئے ہیں، اگر بیسویں صدی سے دریافت کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، انسان چاند پر ہو آیا ہے، اب مریخ پر جانے کی تیاری کر رہا ہے، ان حقائق کو پیش نظر رکھا جائے تو مذہبی تفریق بے جواز بن جاتی ہے۔

دونوں ملکوں کے 50 فیصد سے زیادہ عوام غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اگر دفاع پر خرچ ہونے والے اربوں روپے عوام کی خوشحالی کے لیے خرچ کیے جائیں تو بلاشبہ عوام کی غربت میں کمی آسکتی ہے۔ پاکستان میں 71 سال سے اشرافیہ کی حکومتیں رہی ہیں، اشرافیہ کو عوام کی غربت کی پرواہ ہوتی ہے نہ عوام کی خوشحالی سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے، 71 سال کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان میں ایک مڈل کلاس حکومت برسر اقتدار آئی ہے، جس کا سربراہ دل سے عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے کا خواہش مند ہے۔

اسے ہم بھارتی عوام کی بدقسمتی کہیں یا پورے جنوبی ایشیا کے عوام کی بدقسمتی کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار آئی ہے جس کا سربراہ تو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کی سیاست اور اس کے نظریات عوام دشمن مذہبی انتہاپسندی پر مبنی ہیں۔ ماضی کے سیکولر بھارت کو ایک کٹر مذہبی انتہا پسند بھارت میں بدل دیا ہے۔ ہندوتوا کے فلسفے پر کاربند مودی حکومت بھارتی عوام میں ایسی مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے بجائے دشمنی کو فروغ دینے کا باعث بن رہی ہے۔ مودی کا تعلق ایک نچلے طبقے سے ہے، مودی دوسروں کے مقابلے میں عوام کی مشکلات اور معاشی پستی کو زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں، کیا برصغیر کے ایک ارب سے زیادہ عوام کی معاشی بدحالی کو کم یا ختم کرنے سے زیادہ اہم ہندوتوا کا گھٹیا اور انسان دشمن فلسفہ ہے؟

سابق صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی سیاسی ترجیحات کو توڑ کر بھارتی حکومت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کی غیر روایتی آفر دی تھی جسے بھارت کی اندھی بیورو کریسی نے ناکام بنادیا، اس کے بعد عمران حکومت ایک بار پھر دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کے معاہدے کی پیشکش کر رہی ہے، کیا مودی حکومت اس پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برصغیر کے عوام کی قسمت بدلنے میں مثبت کردار ادا کرے گی یا روایتی میں نہ مانوں کی رٹ پر قائم رہے گی؟ یہ سوال برصغیر کے ایک ارب سے زیادہ غریب عوام کا ہے۔

مقبول خبریں