شاہ زیب کیس کا فیصلہ، قوم کے بچوں کی حفاظت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  پير 10 جون 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

24 دسمبر کی رات عین اس وقت جب 25 دسمبر کا دن ظہور پذیر ہورہا تھا، بانی پاکستان قائد اعظم کی ولادت کا دن جن کی قیادت میں مسلمانان ہند نے ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں اس عزم کے تحت یہ خطہ زمین حاصل کیا تھا کہ یہاں اﷲ کا قانون ہوگا، آزادی، مساوات، جان و مال، عزت و آبرو کی سلامتی ہوگی، جس کی ضمانت خود آئین پاکستان بھی دیتا ہے۔ اس دن رات بارہ بجے کے قریب کلفٹن میں ایک قتل ہوا۔ حیرت انگیز طور پر اس بہیمانہ قتل کو میڈیا اور سماجی تنظیموں کی بھرپور توجہ حاصل ہونے اور ملزمان کے بیرون ملک فرار ہوجانے کی وجہ سے ملکی سے بڑھ کر بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگئی۔

واقعے کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ وقوعے کے دن مقتول شاہ زیب اپنی بہن کے ولیمے سے فارغ ہوکر اپنی چھوٹی بہن کے ہمراہ گھر پہنچا، اسے کار سے اتار کر کار پارک کرنے لگا تو مقتول کی والدہ نے اس کو فون پر اطلاع دی کہ ملزمان شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے اس کی بہن کے ساتھ بدتمیزی کی ہے جس پر مقتول کی ملزم سے تکرار ہوئی اور اس نے ملزم کو تھپڑ ماردیا۔ واقعے پر مقتول کے والد نے ملزمان اور مقتول کے درمیان صلح کرانے کی خاطر مقتول سے معافی بھی منگوا دی۔ مگر ملزمان نے مقتول کو گولیوں کا نشانہ بناڈالا اور فرار ہوگئے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی نے بھرپور احتجاج کیا اور سپریم کورٹ نے اس کیس کا ازخود نوٹس لے لیا اور آخری وقت تک اس کیس کی نگرانی بھی کرتی رہی جس کے نتیجے میں یہ بااثر افراد کیفر کردار تک پہنچے۔

عدالت نے 95 صفحات پر مشتمل فیصلے میں دو مرکزی ملزمان شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپر کو سزائے موت جب کہ اعانت جرم میں شریک ملزمان سجاد تالپر اور علی مرتضیٰ کو عمر قید کی سزا کے علاوہ تمام ملزمان پر 5 لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزا بھی عائد کی ہے، جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں انھیں مزید 2 سال قید بھگتنا ہوگی۔ قتل کا یہ مقدمہ مقتول شاہ زیب کی بہن، جس کو چھیڑنے اور ردعمل میں شاہ زیب کے قتل پر قائم ہوا تھا اور دوران سماعت مقتول کی اس بہن سے بدتمیزی پر عدالت نے عمر قید پانے والے شریک ملزم علی مرتضیٰ لاشاری کو مزید ایک سال کی سزا سنائی ہے۔ چند ماہ کی تیز ترین عدالتی کارروائی میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے گئے اور میڈیکل، پوسٹ مارٹم رپورٹس، ایم ایل او اور عینی شاہدین اور آلہ قتل کی برآمدگی کے ثبوت اور شواہد کے بعد مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔

ملزمان فیصلہ سننے سے پہلے بھی ہشاش بشاش اور مسکراتے رہے اور فیصلہ سننے کے بعد بھی تالیاں بجا کر وکٹری کا نشان بناتے رہے۔ عدالت میں ملزم کے بھائی نے شور شرابا کیا تو عدالت نے اس کو باہر نکلوا دیا۔ ان بااثر ملزمان کو واردات کے شروع ہی سے ایک مضبوط لابی کی بھرپور سرپرستی اور آشیرباد حاصل تھی جس نے ہر مرحلے پر سرکاری مشنری اور حکومتی اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، مجرموں کو غیر قانونی طور پر ملک سے فرار کروایا جس کے جرم میں ایف آئی اے، متعلقہ ٹریول ایجنٹ اور ایک ایئر لائن کے اہل کار بھی غیر قانونی ہیومن ٹریفکنگ کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے گئے اور مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ گرفتاری کے بعد ملزم کو کم عمر ظاہر کرکے بچہ جیل بھجوا کر جرم کی سنگینی کم کرنے کی کوشش بھی کی گئی جو میڈیکل رپورٹ اور دیگر ریکارڈ سے کارگر ثابت نہ ہوئی۔ مقدمے کے تفتیشی افسر کا بھی یہ کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران پولیس پر سخت دباؤ تھا، اس مقدمے میں 4 مرتبہ سرکاری وکلا کو بھی تبدیل کیا گیا۔ دوران سماعت مقتولین کے ورثا پر بھی دباؤ کی اطلاعات آتی رہی تھیں۔

مقدمے کا فیصلہ آنے پر مقتول شاہ زیب کے والدین نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے کہ آیندہ دولت اور اثر و رسوخ کے غرور میں کوئی قتل نہ کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ وہ میڈیا اور سماجی تنظیموں کی مدد سے ڈٹے رہے، ان کا بیٹا تو واپس نہیں آسکتا لیکن شاہ زیب کا فیصلہ پوری قوم کے بچوں کی حفاظت کے لیے ہے۔ مقتول شاہ زیب کے والدین اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں بروقت انصاف مل گیا گوکہ اس میں ابھی اپیل در اپیل اور رحم کی اپیل اور ورثا کی جانب سے مجرموں کو معاف کردینے کے مراحل باقی ہیں، جن میں اثرورسوخ، جاہ ومنصب، دھونس دباؤ، دھمکی جیسے عوامل خاص حیثیت رکھتے ہیں۔ مجرموں کو معاف کردینے کے سوال پر مقتول کے والدین کہہ چکے ہیں کہ معاف کرنے کا ارادہ تو نہیں ہے، ہوسکتا ہے اﷲ ہمارے دل میں رحم ڈال دے۔ اس لیے سزا پر یقینی عملدرآمد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر کسی بھی عدالت سے سزا یافتہ مجرم کی سزا معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور اس کا زیادہ تر فائدہ بااختیار و اثرورسوخ رکھنے والے افراد کو پہنچتے دیکھا گیا ہے۔ ان تمام اپیلوں کے مسترد ہونے کے باوجود بھی حکومت سزائے موت کے حقدار افراد کو تختہ دار تک پہنچانے سے گریزاں رہتی ہے۔ اس وقت بھی ایسے سیکڑوں قیدی موت کی سزا کے منتظر ہیں۔ سندھ کی کسی جیل میں کوئی جلاد تعینات ہے نہ ہی اس کی کوئی منظور شدہ آسامی ہے۔ آخری جلاد کو ریٹائرڈ ہوئے 23 برس بیت چکے ہیں، اس کے بعد کوئی پھانسی دینی ہوتی تھی تو اعلیٰ افسران کے حکم پر پھانسی گھاٹ پر تعینات عملے کے کسی فرد سے لیور کھینچنے کا کام لیا جاتا تھا اور ڈاکٹر کی تصدیق کے بعد لاش نیچے اتار کر مجسٹریٹ کی نگرانی میں کارروائی کرکے ورثا کے حوالے کردی جاتی تھی، طویل عرصے سے موت کی کسی سزا پر عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

سزا میں جرم کے تدارک، عبرت عامہ اور تسکین کے پہلو کارفرما ہوتے ہیں تاکہ ایک جانب تو متاثرہ افراد کے جذبہ انتقام کی تسکین ہوسکے تاکہ معاشرے میں خود انتقام اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی ریت نہ پڑے، دوسرے ایسی سزاؤں سے عوام الناس کو عبرت ہو کہ اگر انھوں نے بھی اس قسم کے جرم کا ارتکاب کیا تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ جس سے معاشرے میں بہت سے جرائم کا تدارک اور سدباب ہوسکتا ہے۔ قانون سے بے خوفی ہی مجرموں کو غلط رویے پر اکساتی ہے کہ وہ عدالت سے سزا ملنے پر سیٹیاں بجاتا اور وکٹری کا نشان بناتا ہے۔ ایسا رویہ کسی حریت پسند، مذہبی، لسانی نظریے کے پیروکار کی طرف سے تو کچھ حد تک سمجھ میں آتا ہے چاہے اس کے نظریے سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کیا جائے۔ مگر ایک قبیح قسم کے اخلاقی جرم میں ملوث افراد کی طرف سے اس قسم کا فاتحانہ انداز ان کی نظر میں انسانیت اور قانون و اخلاقیات کی بے وقعتی و پامالی، خودسری اور تکبر کے سوا کچھ اور نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ رویہ معاشرے کے دوسرے افراد میں بھی اس قسم کے مزاج اور رویے کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔