یاد ِصبا
یہ دنیا کتنی عجیب و غریب ہے اور ہم جو کہ خود کو انسان کہتے ہیں بلکہ خود کو اپنے تئیں انسان سمجھنے کے زعم میں مبتلا...
یہ دنیا کتنی عجیب و غریب ہے اور ہم جو کہ خود کو انسان کہتے ہیں بلکہ خود کو اپنے تئیں انسان سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں شاید انسانوں کے روپ میں خوبصورت جانور ہیں اور یہ دنیا جو واقعی ایک حسین جنگل ہے اس حسین جنگل کے کتنے ہی بھیانک اصول اور بدنما داغدار قانون ہیں، اس حسین جنگل کا ہر کمزور جانور طاقتور کی خوراک اور پیٹ کا سامان ہے، ایسی ہی ایک کہانی ہے پاکستان کے جنگل میں رہنے والے ان لوگوں کی جو ''بلوچ'' ہیں وہ بلوچ جو کہ کمزور ہیں، جو کہ غلام ہیں، جو کہ محکوم ہیں اور جو کہ مظلوم بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ زمین کے ستائے ہوئے ہیں جو کہ خاک و خون میں لتھڑائے ہوئے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے بچے بھوکے ہیں، جو تعلیم، صحت، روزگار، دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں اور جب یہ محروم ابن محروم ایک خوشحال زندگی کے پیدائشی حق کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو ان کی سانسیں چھین لی جاتی ہیں، یہ اپنے مادر وطن اپنے ساحل و وسائل کی ہر نعمت اور آسائش سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں لیکن انھیں اس چیز کی اجازت نہیں، یہ بلوچ وہ لوگ ہیں جو خوش رہنے، ہنسنے مسکرانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے، انھیں تو بس رونا ہے، انھیں تاریک راہوں، تاریک کال کوٹھڑیوں، تاریک زندانوں، تاریک عقوبت خانوں میں اپنے آقائوں کے جبر و قہاریت کے بھیانک روپ کو دیکھنا ہے، ان کے مقدر میں روشنی کے ''لائٹ ہائوس'' یا ''بیکن ہائوس'' اور جھلملاتے قمقمے نہیں، بلکہ ان کی تقدیر اور ان کا مقدر بس یہ ہے کہ یہ جنازوں کو کندھا دیں، اپنوں اور پیاروں کے سربریدہ لاشوں سے لپٹ کر روتے رہے، حالت سوگ میں رہیں، ہر دن ایک نئی لاش کچلی ہوئی اور مسخ شدہ حالت میں وصول کرتے رہیں۔
پروفیسر صبا دشتیاری بھی تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کا ایک تسلسل ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قتل کوئی آخری قتل نہیں، پروفیسر صبا دشتیاری کیوں باغی بنے؟ انھیں واجب القتل کیوں ٹھہرایا گیا؟ ایک یونیورسٹی استاد کیونکر انقلابی بن گیا؟ اور آزادی پسندوں کی حمایت کرنے لگا؟ ہماری حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کیوں کا جواب نہیں۔ مقتدر قوتوں کے پاس کوئی جواب، کوئی دلیل، کوئی منطق اور استدلال نہیں اور جب سارے جواب تمام دلائل ختم ہو جاتے ہیں تو وہاں سے جنگ کی ابتدا ہوتی ہے اور ہر جنگ کی ابتدا ''کیوں'' سے ہوتی ہے۔ پروفیسر صبا دشتیاری نے بھی کیوں کا سوال اٹھایا اور انکار کی جرأت کی۔ انھوں نے نا انصافی، بے اصولی، ظلم و بربریت، جبر، لوٹ کھسوٹ، درندگی اور حیوانیت کے فرعون کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اس شاعر، ادیب اور دانشور کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ یہ پوچھتے تھے کہ ہمیں قتل کیوں کیا جا رہا ہے، ہمارے بچوں کو غیر انسانی، غیر قانونی، غیر اخلاقی طریقوں سے کیوں اغوا کیا جا رہا ہے، ہماری تاریخ، ہماری تہذیب، ہماری شناخت، ہماری ثقافت، ہماری چادر اور چار دیواری کے تقدس کو کیوں روندا جا رہا ہے، ہمارے سروں کو کیوں قلم کیا جا رہا ہے، بندوق کے زور پر ہمیں زبردستی وفادار بنانے کی کیوں کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ پوچھتے تھے کہ دنیا کے وسائل سے مالا مال خطے کے پیدائشی وارث اس قدر غریب و محتاج کیوں ہیں۔ یہ تھے وہ سوالات جو پروفیسر صاحب بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کے احاطے سے اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہائوس اور بااثر حلقوں سے پوچھتے تھے۔ چیل کے گھونسلے میں ماس تو ہو سکتا ہے مگر پاکستان کی مقتدرہ قوتوں کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں، سو پروفیسر صاحب کو سوال پوچھنے پر مجرم اور انکار کرنے پر باغی ٹھہراتے ہوئے واجب القتل اور قابل گردن زدنی ٹھہرایا گیا۔
بہرحال شاید یہ بلوچوں سے ایک اور وعدہ تھا جو وفا ہوا۔ پروفیسر صبا دشتیاری گوئٹے کا ''فائوسٹ'' تھا۔ جس نے اپنی روح سچائی، علم اور انصاف کو گروی رکھا ہوا تھا۔ دیکھنے میں نہ تو وہ رستم تھا نہ گاما پہلوان، لیکن ایک ''انکار'' کی صفت نے اسے انتہائی طاقتور ترین انسان بنا دیا تھا۔ پروفیسر صاحب نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے ہماری سیاست کے تمام نظریاتی کوڑھ سر بازار عریاں کر دکھائے۔ یہ پروفیسر صاحب کے کردار کی طاقت اور قوت کی گواہی تھی۔ ننگی طاقت، قوت اور انتقام کے وحشیانہ مظاہرے کے عروج کے دنوں میں بھی پروفیسر صبا دشتیاری بلوچ عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔
بلوچستان میں جاری ایک ایسی غیر منصفانہ جنگ جس میں وہ ایک یونیورسٹی استاد کے طور پر تنہا کھڑے رہے اور آزادی، جمہوریت، مساوات اور اعلان حق کا نعرہ بلند کرتے رہے۔ ہمارے حکمرانوں کو ان کی صورت میں ''گائی فاکس'' نظر آ رہا تھا جو نوک قلم سے شاہوں کو ان کے مسخرے، درباریوں، خلوت اور جلوت کدوں کو اڑا دینے والا تھا، بلوچستان کا ایک اور منصور شہید ہو گیا۔ قصہ دار و رسن کے بغیر بھلا کسی دور کی تاریخ مکمل ہوتی ہے۔ صبا دشتیاری بہر حال زندہ رہے گا جب تک آزادی، حق حاکمیت اور عدل و انصاف کا پرچم حکمرانوں کے جھنڈوں سے بلند تر نہیں ہو جاتا۔ بلوچستان کے آخری ڈیھ آخری گوٹھ کی سرد آہوں میں صبا کی یاد بھی تازہ رہے گی۔
قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے