بُک شیلف

گذشتہ چند برس سے جو ادبی جراید تواتر سے شایع ہو رہے ہیں، ان میں سہ ماہی روشنائی سرفہرست ہے. فوٹو: فائل

گذشتہ چند برس سے جو ادبی جراید تواتر سے شایع ہو رہے ہیں، ان میں سہ ماہی روشنائی سرفہرست ہے. فوٹو: فائل

روشنائی (ادبی جریدہ)
مدیر: احمد زین الدین
صفحات:240
قیمت:150
ملنے کا پتا:A-8، ندیم کارنر، نارتھ ناظم آباد، کراچی

گذشتہ چند برس سے جو ادبی جراید تواتر سے شایع ہو رہے ہیں، ان میں سہ ماہی روشنائی سرفہرست ہے، جس کا سہرا احمد زین الدین کے سر ہے، جو مطالعے کی گھٹتے رجحان اور اشتہارات کے فقدان کے باوجود یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ روشنائی کا 53 واں شمارہ ہے۔ اس پرچے نے ادیبوں اور شعرا کے گوشے شایع کرنے کا مفید سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ دو شخصیات کے گوشے اِس پرچے کا حصہ ہیں۔ ایک گوشہ تبدیلی کا استعارہ بن چکی ملالہ یوسف زئی کا ہے، جنھیں مختلف شعرا نے اپنے اپنے انداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ دوسرا گوشہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب، آغا گل سے متعلق ہے۔ چھے مضامین اُن کی بابت پرچے میں شامل ہیں۔

مستقل سلسلوں کی بات کی جائے، تو ’’کتھا کہانی‘‘ سات افسانوں پر مشتمل ہے۔ ’’شعلہ و شبنم‘‘ میں نو شعرا کی نظمیں ہیں۔ ’’حسن تغزل‘‘ میں تیرہ شعرا کی غزلیں شامل ہیں۔ ’’زندہ تحریریں‘‘ میں محمود الظفر کے افسانے ’’جواں مردی‘‘ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مضمون نگاروں نے ہاجرہ مسرور، اقبال عظیم، انور سدید، ناظر صدیقی، دیویندر اسر، سید محمد اشرف اور سید احتشام حسین سے متعلق قلم اٹھایا ہے۔ ایک حصہ بنگلادیشی ادب کے لیے مختص ہے، اور ایک کتابوں پر تبصرے کے لیے۔

اداریے میں قارئین کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی گئی ہے کہ آج ہم عصر ادب پر عملی تنقید نہیں لکھی جا رہی، جس کے ذمے دار، اداریہ نگار کے بہ قول، ناقدین بھی ہیں، اور وہ بھی جو اپنی تحریر پر ہلکی سی تنقید برداشت نہیں کرتے۔ ساتھ ہی سچ بولنے اور سچ سننے کی روایت کی ترویج پر بھی زور دیا ہے۔

پہلا آدمی (افسانوی مجموعہ)
افسانہ نگار: شاہد رضوان
صفحات: 168
قیمت: 250
ناشر: دانیال پبلشرز، چیچہ وطنی

زیر تبصرہ کتاب گورنمنٹ کالج، چیچہ وطنی سے بہ طور مدرس منسلک، شاہد رضوان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا عنوان ’’پتھر کی عورت‘‘ تھا۔

یہ مجموعہ 14 افسانوں پر مشتمل ہے۔ فلیپ پر ڈاکٹر رشید امجد کی رائے درج ہے۔ اندرونی صفحات پر شاہد کے فن سے متعلق ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر شبیہ الحسن، ڈاکٹر قاضی عابد، نیلم احمد بشیر، طاہرہ اقبال اور حمیرا اشفاق کے مضامین موجود ہیں۔

انتساب سعادت حسن منٹو کے نام ہے، جنھیں افسانہ نگار نے ’’روحانی مرشد‘‘ قرار دیا ہے۔ اِس نقطۂ نگاہ سے جائزہ لیا جائے، تو منٹو کے مانند شاہد کے افسانوں کا اختتامیہ بھی احساس کی سطح پر ایک بھرپور ’’اچانک‘‘ کو جنم دیتا ہے۔ البتہ اُنھیں پڑھتے سمے اُن کے ’’مرشد‘‘ کو پڑھنے کا، خوش قسمتی سے، احساس نہیں ہوتا کہ اُن کے موضوعات اور کردار آج کی دیہی اور نیم شہری زندگی سے جڑے ہیں۔ یعنی یہ ممبئی اور لاہور کی کہانیاں نہیں، بلکہ اُس دھرتی کی ہیں، جہاں افسانہ نگار نے آنکھ کھولی۔

تیکنیکی اعتبار سے تو افسانے بیانیہ ہیئت میں بند ہیں، جن میں بہ وقت ضرورت علامت نگاری اور کہیں کہیں تجریدیت کا رنگ بھی ملتا ہے، البتہ بیانیہ ہی غالب ہے، جس میں اُنھوں نے حقیقت بیان کرنے کی سعی کی ہے، مگر حقیقت کے جھمیلے میں فکشن کا حسن قائم رکھا ہے۔ چند افسانہ مثلاً ’’مزدور‘‘، ’’سائیں جی‘‘، ’’جوگی چوک‘‘ اور ’’حج اکبر‘‘ دل چسپ ہیں۔ ’’خواب گاہ‘‘ تیکنیک کے زاویے سے ذرا مختلف ہے۔ گو موضوعات نئے نہیں، مگر مطالعے کے دوران تازگی کا احساس ہوتا ہے۔

کتاب مجلد ہے۔ سرورق اچھا ہے، البتہ کاغذ اور چھپائی میں بہتری کا امکان موجود ہے۔ یہ مجموعہ قاری کے وقت کا اچھا مصرف ثابت ہوسکتا ہے۔

بیدی میرا ہمدم میرا دوست
مصنف: اُپندرناتھ اشک
مترجم: مشتاق اعظمی
صفحات :208
قیمت:400
ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی

اردو کے رجحان ساز اور صاحب اسلوب افسانہ نگاروں کا تذکرہ راجندر سنگھ بیدی کے بغیر ادھورا ہے۔ حقیقت میں چھپی ’’گہری حقیقت‘‘ تک رسائی حاصل کرنے والی اُن کی تخلیقات نے لاکھوں ذہنوں کو متاثر کیا۔ اِس ممتاز ادیب کو آخری ایام میں شاید بے بسی اور بے کسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنوں نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ ان درد ناک شب وروز کی بابت اردو میں زیادہ تفصیلات منظرعام پر نہیں آئیں، البتہ لگ بھگ سو برس قبل جالندھر میں آنکھ کھولنے والے معروف افسانہ نگار اور ڈراما نویس، اُپندر ناتھ اشک نے ہندی میں اِس پر ایک جامع کتاب لکھی، جس میں بیدی کے خطوط بھی شامل تھے، جو اِس بڑے تخلیق کار کے خیالات کا عکاس ہیں۔ ساتھ ہی یہ اشک اور بیدی کے مخلصانہ اور طویل روابط کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔

اِس اہم کتاب کو مشتاق اعظمی نے مہارت سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ مترجم کا تعلق ہندوستان سے ہے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے وہ حامل ہیں۔ ترجمہ رواں اور بامحاورہ ہے۔ پڑھتے ہوئے ترجمے سے زیادہ ’’حقیقی‘‘ ہونے کا گمان ہوتا ہے۔

پاکستان میں نثری دائرہ، کراچی کے زیراہتمام اس کتاب کو زین پبلی کیشنز سے شایع کیا گیا ہے، جو بلاشبہہ ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ قارئین اور ناقدین دونوں ہی کے لیے یہ کتاب خاص اہمیت کی حامل ہے۔ بیدی کے غمگین ایام کی آگاہی کے علاوہ یہ اُن کے فن کی تفہیم میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ فلیپ پر اشک کی تصویر اور اُن کے بیدی سے متعلق خیالات درج ہیں۔ اے خیام نے اندرونی حصے میں اشک کا، ایک صفحے پر مشتمل تعارف لکھا ہے۔ کاغذ اور چھپائی معیاری ہے۔

درد کا چاند (ڈرامے)
ڈرامانویس: اجمل اعجاز
صفحات:210
قیمت:300
ناشر: فائزہ پبلی کیشنز، کراچی

اجمل اعجاز کا شمار پرانے لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ اختصار سے بیان کردہ سماج سے جُڑی کہانیاں، زندگی کے نشیب و فراز کی سادہ زبان میں منظرکشی اُن کا وصف ہیں۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔ ’’درد کا چاند‘‘ اُن کی ساتویں کتاب ہے۔ اِس سے قبل افسانوں کی تین مجموعے، ڈراموں پر مشتمل دو کتابیں (بادل اور زمین، آس کا پنچھی) اور ایک بچوں کا ناول منظرعام پر آچکا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب سات ڈراموں پر مشتمل ہے، ماسوائے ایک کے، تمام ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے نشر ہوچکے ہیں۔ کتاب کے اندرونی حصے میں افسانہ نگار اور نقاد، نور الہدیٰ سید کا مضمون موجود ہے۔ فلیپ پر پروفیسر آفاق صدیقی (مرحوم)، شفیع عقیل، ڈاکٹر جاوید منظر، ڈاکٹر جمال نقوی اور امین جالندھری کی، مصنف کے فن سے متعلق، آرا درج ہیں۔

کسی زمانے میں ڈراموں پر مشتمل کتاب کی اشاعت معمول کا واقعہ تھا، مگر جوں جوں پڑھنے لکھنے کا رجحان سکڑتا گیا، ادب گھاٹے کا سودا تصور کیا جانے لگا، اِس نوع کی کتابوں کی اشاعت کم ہونے لگی۔ ایسے میں ریڈیو کے لیے لکھے جانے والے ڈراموں پر مشتمل کتاب کی اشاعت قابل تعریف کوشش ہے، جس کا کریڈٹ مصنف کو جاتا ہے کہ آج ڈرامے کا ’’قاری‘‘ نہ ہونے کے برابر ہے۔

کتاب کی طباعت اور اشاعت معیاری ہے۔ البتہ سرورق مزید بہتر ہو سکتا تھا۔

الیکشن سے الیکشن تک
محقق و مؤلف: حافظ نسیم الدین
صفحات: 389
قیمت:500 روپے
ناشر: سید پبلی کیشنز، کراچی

’’الیکشن سے الیکشن تک ‘‘ کے زیرعنوان شایع ہونے والی یہ کتاب دراصل پاکستان کا انتخابی انسائیکلوپیڈیا ہے۔

یہ کتاب معروف محقق اور معلومات عامہ کے میدان میں سند تصور کیے جانے والے، حافظ نسیم الدین کی شب و روز کی محنت کا نچوڑ ہے۔ حافظ نسیم الدین تدریس کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ’’پاکستان کوئز سوسائٹی‘‘ کے چیئرمین ہیں۔ ’’نیلام گھر‘‘ سمیت سیکڑوں کوئز مقابلوں کا تاج اپنے نام کر چکے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب سے قبل اُن کی تین کتابیں ’’پاکستان کے پچاس سال معلومات کے آئینے میں‘‘، ’’حیات مادر ملت ایک نظر میں‘‘ اور ’’پاکستان کے ماہ و سال‘‘ شایع ہوکر ناقدین اور قارئین سے پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔

’’الیکشن سے الیکشن تک‘‘ نامی یہ کتاب ایک کارنامہ ہے۔ نہ جانے کتنی فائلیں اُنھوں نے کھوجیں، کتنے دفاتر کے چکر لگائے، کتنا سرمایہ خرچ کیا، تب کہیں جا کر بینائی سے محروم اِس اُجلے شخص کی یہ روشن کتاب منظرعام پر آئی۔

سوال و جواب کی صورت معلومات فراہم کرنے والی اِس کتاب کا آغاز 1945-46 کے انتخابات سے ہوتا ہے، جو مصنف کے نزدیک قیام پاکستان کی بنیاد بنے۔ پھر دور بہ دور آگے بڑھتے ہوئے مصنف نے 2013 کے انتخابات سے پہلے جنم لینے والی سیاسی صورت حال کا احاطہ کیا ہے۔ کتاب حالیہ انتخابات سے عین پہلے شایع ہوئی، جس سے اِس کی اہمیت دوچند ہوگئی۔ اِس میں نہ صرف تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا احاطہ کیا گیا ہے، بلکہ اِسے جامع بنانے کے لیے اُن اسمبلیوں سے جڑی انتخابی سرگرمیوں اور تبدیلیوں پر بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔

اشاعت و طباعت معیاری ہے۔ سرورق بامعنی اور قیمت انتہائی مناسب۔ اندرونی صفحات میں مصنف کا تعارف موجود ہے، جو سید جاوید رضا کے قلم سے نکالا ہے۔ انوار احمد زئی کے مضمون کا عنوان ’’معلومات عامہ کا بے تاج بادشاہ‘‘ ہے۔ بلاشبہہ یہ انتخابی تاریخ کو تسلسل کے ساتھ رقم کرنے کی کام یاب کوشش ہے۔ ایک مستند اور جامع دستاویز، جس سے مستقبل میں استفادہ کیا جائے گا۔

نوبیل حیاتیات
محقق و مترجم: باقر نقوی
صفحات:598
قیمت:3000
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی

زیرتبصرہ کتاب معروف شاعر، محقق اور مترجم، باقر نقوی کی کاوش ہے، جو ادب کے ساتھ ساتھ سائنس کے مضمون میں بھی خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں، اور اس مضمون کے مختلف پہلوؤں پر جامع کتابیں لکھ چکے ہیں۔

نوبیل انعام یافتگان پر بھی اُنھوں نے خاصا کام کیا۔ اِس سودمند سلسلے کا آغاز الفریڈ نوبیل سے متعلق لکھی ہوئی کتاب سے ہوا، جس کے بعد ’’نوبیل ادبیات‘‘ منظرعام پر آئی، جسے اردو کے نثری سرمائے میں اہم اضافے قرار دیا گیا۔ اِس منفرد کتاب کے بعد اُنھوں نے امن کے میدان میں نوبیل انعام سے نوازے جانے والوں کی جانب توجہ مبذول کی۔ یہ کوشش ’’نوبیل امن کے سو سال‘‘ جیسی ضخیم کتاب کی صورت مکمل ہوئی۔ ’’نوبیل حیاتیات‘‘ اس سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔

سلسلے کی پچھلی دو کتابوں کی طرح اس کی ترتیب بھی معکوس ہے۔ آغاز 2000 سے ہوتا ہے، سال بہ سال پیچھے پلٹتے ہوئے اختتام 1901 پر ہوتا ہے۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ موجود ہے۔ تبدیلی یہ ہے کہ پہلی دو کتابوں کے برعکس اِس کتاب میں ہر برس کے اعلان تجلیل کے ساتھ صرف انعام یافتگان کے خطابات تشکر ہی شامل کیے گئے ہیں، طوالت سے بچنے کے لیے ان کے دیے ہوئے خطبات سے صَرف نظر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایک صدی میں اِس شعبے میں 171 محققین کو اِس اعزاز سے نوازا گیا۔

گرد پوش پر سید مظہر جمیل کی رائے درج ہے۔ فلیپ پر عطا الحق قاسمی کے خیالات موجود ہیں۔ مقدمہ پروفیسر حسن سجاد کے قلم سے نکلا ہے۔ مصنف کا مضمون ’’اے روشنی طبع‘‘ کے زیرعنوان کتاب میں شامل ہے۔

گو موضوع دقیق ہے، اور پہلے پہل خشک معلوم ہوتا ہے، مگر مترجم کی فنی پختگی اور اردو اور انگریزی زبانوں پر یک ساں گرفت نے اِسے سہل، رواں اور دل چسپ بنا دیا ہے۔ سہولت کے لیے قوسین بھی کام یابی سے برتے گئے۔

کتاب کی اشاعت اور طباعت کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ سرورق خوب صورت ہے۔ البتہ قیمت قاری کی قوت خرید سے باہر ہے۔ پیر بیک یا سستے ایڈیشن کی اشاعت ازحد ضروری ہے، تاکہ یہ وقیع کام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔

چُپ کی چاپ (شعری مجموعہ )
شاعر: عمران ثاقب
صفحات:144
قیمت:220 روپے
ناشر : مہردرد، کوئٹہ، بلوچستان

جوان فکر عمران ثاقب گوادر کی مٹی سے ہیں۔ گوادر، جو لہولہان بلوچستان کی وہ حسینہ ہے، جس کی طلب عالمی ساہوکاروں کو پاگل کیے ہوئے ہے۔

وہ بلوچستان جہاں ہر طرف آگ ہے، بارود ہے، آدم کے لیے کوئی جائے اماں نہیں۔ جہاں جینے کا مطالبہ کرنے والا آدم زاد پہلے تعدیب خانوں، جنہیں سیف ہاؤسز کا نام دیا گیا ہے ، میں روشنی کی رمق کو ترستا ہے۔ اور جب اُس کی بوڑھی ماں، بے حال باپ ، بے آسرا بہنیں ، معصوم بھائی، اور غم خوار دوست احتجاج کرتے ہیں، تو اس کی مسخ کی ہوئی لاش ملتی ہیں۔ اب تو یہ عام سی بات ہے۔

تو عمران ثاقب اِسی شہر بے اماں و ناپُرساں کی خاک ہے۔ جہاں حکم زباںبندی ہو، سر اٹھا کر چلنا بغاوت کہلائے تو سناٹا اور گہرا ہو کر تاریک ترین سرنگ بن جاتا ہے، بے حسی رقص کرتی اور رعونت راج کرتی ہے۔ وہاں اگر کوئی دیوانہ چیخ رہا ہو تو اسے لوگ پاگل سمجھتے ہیں۔ سمجھاتے ہیں، ڈراتے ہیں، خامشی کو دوا بتاتے ہیں، لیکن مرض بڑھتا رہتا ہے، دوا بے کار و بے سود ہوکر تریاق کی بجائے زہر بن جاتی ہے۔ دانا ایسے دیوانے کو مجذوب کہتے اور اُن کی سنگت سے مناہی کرتے ہیں۔ بس ایسا ہی ہے عمران ثاقب۔ مجذوب۔ دیکھیے اُس کا نعرہ مستانہ:

فرق کیا جسم اور نظریہ فروشی میں
جسم محنت کشوں کا آلۂ مزدوری ہے
نظریے بیچنے والے اصل طوائف ہیں

وہ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ اور ہم اپنی شکل سنوارنے کی بجائے آئینہ توڑنے لگتے ہیں۔ ذرا اِس حقیقت کی داد دیجیے کہ ایسی بات کوئی مجذوب ہی کہہ سکتا ہے :

یہ تو طے ہے کہ مٹ گیا ماضی
اور فردا ابھی نہیں جنما
زندگی بس گزرتا لمحہ ہے

ڈاکٹر شاہ محمد مری نے سچ بیان کیا ہے کہ غیب، الہام، ودیعت جیسے الفاظ تو مافوق الفطرتی ریوڑ کی بھیڑیں ہیں، مگر یہ بات بھی ہے کہ ٹیلنٹ محض محنت و ریاضت کا ثمر بھی نہیں ہوتا۔ یہ بات سو فی صد درست ہے کہ محنت کر کے غبی شخص بھی ٹیلنٹ والا بن سکتا ہے، مگر وہاں محنت کرنی پڑتی ہے صلاحیت بڑھانے کے لیے۔ یہاں محنت کرنی پڑ تی ہے صلاحیت کو لگام ڈالنے کے لیے۔ جی ہاں صلاحیت اپنی فطرت میں بے لگام ہوتی ہے، وحشی۔۔۔ اُسے انسان بنانا پڑتا ہے ۔ مگر ٹیلنٹ سو فی صدی انسان کبھی نہیں بنتی۔ کچھ مجذوبیت، کچھ مستی، کچھ ٹیڑھا پن تو اُس کا پیدایشی نقص ہوتے ہیں۔

مجھے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ جسے اپنی نیند پیاری ہو، سکوں عزیز ہو، جو بس سانس کی آمدورفت کو ہی جیون سمجھتا ہو، اسے عمران کو قطعاً نہیں پڑھنا چا ہیے کہ مجذوبوں سے راہ و رسم، بات چیت، میل ملاپ، اور ان کے کہے پر عمل کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔