خاموش سیاست کی وجوہات اور دلائل

پاکستان میں اس وقت خاموش سیاست کا موسم چل رہا ہے۔


مزمل سہروردی November 15, 2018
[email protected]

سیاست کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ اس میں گرمی، سردی، بہار، خزاں سب ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے ایک اچھے اور کامیاب سیاستدان کو ہر موسم کی سیاست کرنی آنی چاہیے۔ صرف گرمی کی سیاست کرنے والے سردی میں مار کھا جاتے ہیں اور صرف سرد سیاست کرنے والے گرمی میں مار کھا جاتے ہیں۔

اسی طرح صرف بہاروں کے موسم کی سیاست کرنے والے خزاں کے آتے ہی درخت کے پتوں کی طرح سیاست کے درخت سے جھڑ جاتے ہیں اور صرف خزاں کے عادی بہار کی لہر بہر دیکھ کر پاگل ہوجاتے ہیں اور اپنے ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ اسی لیے کامیاب سیاستدان وہی سمجھا جاتا ہے جو سیاست کے ہر موسم میں سیاست کے فن میں مہارت رکھتا ہو۔

پاکستان میں اس وقت خاموش سیاست کا موسم چل رہا ہے۔ حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں کی بڑی قیادت خاموشی سے سیاست کر رہی ہے۔ان کی سیاسی خاموشی اپنے رنگ دکھا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت کے پاس اس سیاسی خاموشی کا کوئی توڑ نہیں ہے اور وہ اس سیاسی خاموشی کے سامنے مکمل بے بس ہو گئی ہے۔فن سیاست کے ماہر حزب اختلاف کے دونوں بڑے سیاستدان نواز شریف اور آصف زرداری ایک جیسی مشکلات کا شکار ہیں اور ان مشکلات سے نکلنے کے لیے ایک جیسی حکمت عملی کا ہی استعمال کر رہے ہیں۔ دونوں اس وقت تادم تحریر نہ تو مزاحتمی سیاست کر رہے ہیں اور نہ ہی مفاہمتی سیاست کر رہے ہیں۔ بلکہ خاموشی کی سیاست کر رہے ہیں۔

ویسے تو سیاست میں خاموشی کو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سیاستدان خاموش ہو گیا تو مر گیا ۔ اس کے بولنے میں ہی اس کی جان ہے۔ آمریت میں جب سیاسی پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو سب سے پہلے سیاستدانوں کے بولنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آمریت کی پابندیوں میں بھی سیاستدان بولنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ اشاروں میں بات کر لی جاتی ہے۔ سیاسی استعارے استعمال کر لیے جاتے ہیں۔ تا ہم عوام سے بات کرنے کی کوئی نہ کوئی شکل نکال لی جاتی ہے۔ تا ہم آج کل نہ تو ملک میں آمریت ہے نہ ہی بولنے پر پابندی ہے۔ لیکن پھر بھی دونوں رہنماؤں نے خاموشی کی زبان میں سیاست شروع کر دی ہے۔

نواز شریف اور مریم نواز کی خاموشی نہ صرف حیران کن بلکہ معنی خیز بھی ہے۔ دونوں رہنما عام انتخابات سے قبل تمام تر نتائج کی پرواہ کیے بغیر بہت بول رہے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے آسمان سر پر اٹھا یا ہوا تھا۔ ایک طوفان بر پا کیا ہوا تھا۔ ادھر انتخابات ختم ہوئے۔ ادھر وہ خاموش ہو گئے۔ میرے دوست کہیں گے کہ میں غلط کہہ رہا ہوں وہ جیل سے باہر آنے کے بعد خاموش ہوئے ہیں۔ نہیں عام انتخابات کے فورا بعد جیل میں ہی نواز شریف اور مریم نواز نے خاموش سیاست شروع کر دی تھی ۔ ملنے والوں سے سیاسی گفتگو بند کر دی تھی اور ہر ملنے والے کو تاکید کی جاتی تھی کہ باہر جا کر ہمارے حوالے سے کوئی بیان نہیں دینا ہے۔ پھر کلثوم نوا ز کی وفات ہو گئی اور خاموشی کو ایک وجہ بھی مل گئی۔ لیکن اب تو کلثوم نواز کا سوگ ختم ہو گیا ہے۔

لیکن خاموشی قائم ہے۔ اس لیے خاموشی کا کلثوم نواز کی وفات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ اس سے پہلے معرض وجود میں آچکی تھی اور ابھی تک قائم ہے۔ ایک عمومی تاثر یہ بھی بن رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی رہائی میں ان کی خاموشی کا بہت عمل دخل ہے اور یہ رہائی تب تک قائم رہے گی جب تک وہ خاموش رہیں گے۔خاموشی اور رہائی ایک دوسرے سے مشروط ہیں۔ لیکن ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر رہائی اتنی ہی ضروری تھی کہ اس کے لیے خاموشی کو بھی قبول کر لیا گیا ہے تو گرفتاری دینے کی ضرورت کیا تھی۔ آرام سے لندن بیٹھتے اور یہ جیل نواز شریف کے لیے پہلی جیل نہیں تھی۔ وہ اس سے پہلے مشرف کی قید میں اس سے لمبی اور اس سے سخت جیل کاٹ چکے ہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نواز شریف کو جیل کا اندازہ نہیں تھا۔ سب پتہ تھا۔

دوسری طرف زرداری کے لیے بھی جیل نئی تو نہیں۔ وہ تو لمبی جیل کاٹ چکے ہیں۔ لیکن اب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں۔ اس لیے جیل جانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اگر جیل جانے سے ڈرتے ہیں تو ملک سے باہر کیوں نہیں چلے جاتے۔ان کا نام ای سی ایل میں بھی نہیں ہے۔ ان کو تو آہستہ آہستہ قابو کیا جا رہا ہے۔ وہ ضمانتیں کروا رہے ہیں۔ جیل جانے سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے جیل جانے سے بچنے کی ایک قیمت خاموشی بھی ہے اور وہ وہ بھی ادا کر رہے ہیں۔

اس بار سیاست میں ایک نئی چیز سامنے آرہی ہے۔ اس سے پہلے جب بھی پاکستان میں سیاستدانوں کے لیے ماحول سازگار نہیں ہوتا تھا۔ ان پر کسی بھی قسم کی سختی ہونے لگتی تھی وہ ملک سے باہر چلے جاتے تھے۔ اور ملک سے باہر جلا وطنی میں سیاست کرتے تھے۔ نواز شریف جلا وطن رہے اور کسی نہ کسی شکل میں سیاست کرتے رہے۔ بینظیر بھٹو جلا وطن رہیں اور متحرک سیاست کرتی رہیں۔ خود آصف زرداری نواز شریف کے حالیہ دور میں ایک خوفناک تقریر کے بعد جلا وطن ہوگئے اور تب تک واپس نہیں آئے جب تک حالات ساز گار نہیں ہو گئے۔ مشرف بھی جلا وطنی کاٹ رہے ہیں۔ بہت سے سیاستدان جب سیاست میں ارد گرد گھیرا تنگ ہوتے دیکھتے ہیں تو جلا وطن ہو جاتے ہیں۔ اب بھی اسحاق ڈار سے لے کر سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اس لیے ایسا نہیں ہے کہ کوئی جلا وطنی کا آپشن ختم ہو گیا ہے۔

اس لیے یہ دونوں بڑی سیاستدان اپنی مرضی سے پاکستان میں موجود ہیں۔ اس بار دونوں نے پاکستان کے اندر رہ کر حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نئی صو رتحال میں یہ دونوں اب خاموش سیاست کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ دونوں لندن یا دنیا کے کسی اور کونے میں جا کر بیٹھ جائیں تو وہاں سے روز شور بھی مچا سکتے ہیں۔ دنیا اب ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اس لیے وہ ہر وقت اسکرین پر موجود بھی رہ سکتے ہیں۔

تا ہم دوسری طرف کی اس دلیل میں بھی بہت وزن ہے کہ پاکستان میں اس وقت نہ تو بولنے اور نہ ہی لکھنے کا کوئی موسم ہے۔ نہ سیاست آزاد ہے اور نہ ہی صحافت آزاد ہے۔ دونوں طرف غیر اعلانیہ پابندیاں لگ گئی ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ صحافت آزاد ہے دوسری طرف سے حالیہ دھرنے سمیت درجنوں مثالیں دی جاتی ہیں جہاں صحافت کی خاموشی بھی نظر آئی ہے۔ اس لیے سیاستدان کہتے ہیں کہ صرف وہی خاموشی کی سیاست نہیں کر رہے بلکہ اس ملک میں اس وقت خاموشی کی صحافت بھی ہو رہی ہے۔ جس طرح لوگ بغیر لکھے آپ کی بات سمجھ رہے ہیں اسی طرح لوگ بغیر کہے ہماری بات بھی سن رہے ہیں۔پاکستان میں اس وقت لکھنے اور بولنے کا موسم نہیں ہے۔ ایسے میں خاموشی ہی واحد آپشن ہے۔

خاموش سیاستدانوں نے اس مرتبہ جلا وطنی کا آپشن استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ملک کے اندر رہ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں خاموشی ان کی ایک حکمت عملی اور ضرورت لگ رہی ہے۔ وہ مناسب حالات کا انتظار کر رہے ہیں۔ بے وجہ بول کر ماحول اور حالات کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ انتخابات ہو گئے ہیں لوگ ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔ اس نظام نے چلنا ہے۔

اس لیے انتظار کرنے میں ہی حکمت ہے۔ جب دوبارہ عوام کے پاس جانے کا وقت آئے گا تو زور بھی لگائیں گے اوربولیں گے بھی۔ اس وقت بولنا بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ نہیں۔ بلکہ ماحول اور حالات کو ٹھنڈا رکھنے میں ہی فائدہ ہے۔اس لیے خاموشی کسی دباؤ کی وجہ سے نہیں ہے بلک حکمت عملی کے تحت ہے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ملک سے دو بڑوں کے جانے کا انتظار کیا جا رہا ہے، اس کے بعد بولنے میں فائدہ ہے۔ ان کے جانے کا انتظار کرنا چاہیے۔

مقبول خبریں