کراچی،دہشتگردی کی وارداتوں سے سیکیورٹی ادارے پریشان

اسٹاف رپورٹر  اتوار 19 اگست 2012
تفتیش کاروں کیلیے اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف کون ہے۔ فوٹو: فائل

تفتیش کاروں کیلیے اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف کون ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی میں گزشتہ کئی روز سے ہونے والی فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وارداتوں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان کی ٹارگٹ کلنگ، پولیس خصوصاً دہشت گردوں اور شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے والے سی آئی ڈی پولیس کے اہلکاروں پر حملے اور پاکستان رینجرز پر تواتر کے ساتھ ہونے والے بم حملوں کی وارداتوں سے پولیس کے تفتیش کار، حساس اداروں کے اہلکار اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے افسران پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔

تفتیش کار اس بات کا تعین کرنے میں مشکل کا شکار ہوگئے ہیں کہ ان وارداتوں میں دہشت گردوں کا کونسا گروپ ملوث ہے اس سلسلے میں ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتیں اور ان کا طریقہ کار کوئی نیا نہیں ہے نہ ہی دہشت گردوں کا ٹارگٹ نیا ہے تاہم ماضی میں دہشت گرد گروپ کسی ایک ٹارگٹ کو مسلسل نشانہ بناتے تھے جس کی وجہ سے تفتیش کار اور حساس ادارے یکسوئی سے ایک گروپ کے خلاف کام کرتے تھے اور تحقیقات کے دوران شواہد ملنے پر ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا جاتا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش کار اس بات سے بھی خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں کہ رینجرز پر بھی سڑک کنارے بم نصب کرکے حملے کیے جارہے ہیں تو اہل تشیع فرقے سے تعلق رکھنے والوں کو بھی سڑک کنارے بم نصب کرکے نشانہ بنایا جارہا ہے دہشت گردوں کا یہ انداز عراق اور افغانستان میں اتحادی افواج پر حملوں سے ملتا جلتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف کون ہے اور کونسا گروپ ان وارداتوں میں ملوث ہے دوسری جانب دہشت گرد سی آئی ڈی کے اہلکاروں ، پولیس اہلکاروں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے۔

اس سلسلے میں سی آئی ڈی کے ایس پی مظہر مشوانی کا کہنا ہے کہ شہر میں اس وقت دہشت گردوں کے تین سے چار گروپ کام کررہے ہیں جو مختلف قسم کی وارداتیں کررہے ہیں انھوں نے بتایا کہ رینجرز اور پولیس اہلکاروں پر حملوں میں کالعدم تحریک طالبان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں انھوں نے بتایا کہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وارداتوں میں اس سے قبل کالعدم لشکر جھنگوی اور دیگر گروپ ملوث رہے ہیں تاہم اس وقت تحقیقات کی جارہی ہیں کہ ان واقعات میں کون لوگ ملوث ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔