پارلیمانی روایات کا حشر

منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہمارا ملک ساری دنیا میں بدنام ہوگیا ہے


Zaheer Akhter Bedari January 03, 2019
[email protected]

ملک جس تیزی سے بدنظمی اور جہل کی طرف جا رہا ہے اگر اسے سختی سے نہ روکا گیا تو یہاں غنڈہ راج آجائے گا، دنیا بھر میں اقتدارکی لڑائیاں ہوتی ہیں اور ہو رہی ہیں لیکن اس کی کوئی حد ہوتی ہے۔ ہمارے ایم این ایز اور ایم پی ایز یقینا تعلیم یافتہ ہوں گے اور اس حقیقت کو سمجھتے ہوں گے قانون ساز اداروں میں آنے والوں کی کیا اخلاقی ذمے داریاں ہوتی ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معزز منتخب ممبران نے قانون ساز اداروں میں جو ہنگامہ آرائیاں کرتے ہیں وہ کسی طرح بھی قانون سازوں کے شایان شان نہیں ، اگر باہرکے لوگ ہماری سیاست کو دیکھیں گے تو ہماری سیاست پر لاحول پڑھ کر چلے جائیں گے۔ ہمارے منتخب ممبران خواہ کتنے ہی غیر ذمے دار اور غیر اخلاقی ہوں انھیں اتنا تو احساس ہوتا ہے کہ عوام نے انھیں قانون ساز اداروں میں قانون سازی کے لیے بھیجا ہے صرف کمائی کے لیے بھیجا ہے نہ لڑائی کے لیے۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ قانون ساز اداروں میں قانون سازی کے لیے جانے والے حضرات پر منی لانڈرنگ سمیت دولت کی لوٹ مار کے الزامات لگ رہے ہیں۔ آج کی دنیا میڈیا کی دنیا ہے سیکنڈوں میں منہ سے نکلی ہوئی ایک بات ایک لفظ ساری دنیا میں چلا جاتا ہے۔ ہم جو کچھ کر رہے ہیں جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ قانون ساز اداروں میں بیٹھنے والے منتخب ممبران کے اخلاقی معیار کے مطابق ہے؟ آج اخبار اور ٹی وی عوام کی زندگی کا لازمی حصہ بنے ہوئے ہیں قانون ساز اداروں اور پریس کانفرنسوں میں کی جانے والی ایک ایک بات ملک کے 21 کروڑ عوام تک جاتی ہے ۔

منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہمارا ملک ساری دنیا میں بدنام ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم منی لانڈرنگ کے خلاف ایک بہت بڑا آپریشن شروع کرنے جا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے اقدام کا دو طرح سے جواب دیا جاسکتا ہے، ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت کو وہ تمام سہولتیں مہیا کی جائیں جو منی لانڈرنگ کی تحقیق کے لیے ضروری ہے منی لانڈرنگ کی تحقیق کے دوران جو متعلقہ لوگ مجرم ثابت ہوں خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، ان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے مجرم کا تعلق خواہ حکومت سے ہو یا حزب اختلاف سے جرم کا ارتکاب ثابت ہو تو بلا کسی رعایت کے گلٹی شخص کے خلاف سختی سے قانونی کارروائی کی جائے۔ اگر اس قانونی کارروائی کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کی جائیں یا محاذ آرائی کی جائے تو ایسے پارلیمنٹ ممبر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ اگر اس مرحلے پر رعایت اور جانبداری کا مظاہرہ کیا گیا تو رعایت کرنے والے اور جانبداری کا جرم کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے۔

اس اصول پر سختی سے اور غیر جانبدارانہ طور پر عمل کیا جاتا تو شاید وہ صورتحال پیدا نہ ہوتی جو ہوگئی ہے اور اس صورتحال بلکہ شرم ناک صورتحال پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قانون ساز اداروں کو قانون ساز رہنے دینے کے بجائے پہلوانوں کے اکھاڑے بنادیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے اس پریکٹس سے کسی جماعت کی طاقت کا اظہار ہو لیکن عالمی سطح پر جو بدنامی ہوگی اس کا ازالہ ممکن نہیں۔

اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن ان کی حدود ہوتی ہیں، بدقسمتی سے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں طاقت اور بداخلاقی کا استعمال بارہا ہوتا رہا جس کی وجہ ہم ہمارے قانونی اداروں کو معیاری قانون ساز ادارے نہ بناسکے۔ ہمارے سابق صدر نے فرمایا ہے اسلام آباد میں گونگے بہرے اور اندھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک نوجوان رکن فرماتے ہیں کہ ہم جان دینے والے ہیں بھاگنے والے نہیں۔ کٹھ پتلی وزیر اعظم ہوش میں آئیں۔

ادھر حکومت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں زرداری، بلاول، مراد علی شاہ سمیت تمام ملزمان کو ای سی ایل میں ڈال دیا ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں اکابرین پر ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ڈالر کے اسمگلر اپنے دن گننا شروع کردیں ، ملک میں سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہو رہی ہے۔

پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب لوگ ہوتے ہیں اور جمہوری ملکوں میں منتخب لوگوں کی بڑی عزت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے قانون ساز ادارے سیاست کے اکھاڑے بن گئے ہیں۔ حکمران جماعت کے معزز ارکان اور حزب اختلاف کے درمیان جو تقریری مقابلے ہوتے ہیں ، بدقسمتی سے ان میں اخلاقی اور تہذیبی روایات کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔ ترقی یافتہ ملکوں کے قانون ساز اداروں میں بھی اراکین کے درمیان اختلافی پہلوؤں پر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ لڑائیاں عموماً اخلاقی حدود کے اندر ہوتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں کی پارلیمنٹ میں اخلاقی ضابطوں کا خیال رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان ملکوں کے قانون ساز اداروں کا دنیا بھر میں احترام کیا جاتا ہے ۔ ترقی یافتہ دنیا کے قانون ساز ادارے دو ڈھائی سو سال سے قانون سازی کا نہایت اہم کام انجام دے رہے ہیں۔

اس حوالے سے ان میں میچورٹی آنا ایک فطری بات ہے لیکن ہمارے ملک کو وجود میں آئے ہوئے بھی تقریباً پون صدی ہو رہی ہے پونا صدی کا عرصہ کافی طویل ہوتا ہے اور اس عرصے میں قانون ساز اداروں میں میچورٹی کے ساتھ ساتھ اخلاقی ضابطوں کو مضبوط ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اس کے برخلاف قانون ساز اداروں کو مچھلی بازار بنادیا گیا ہے۔ ہمارے قانون ساز اداروں میں دیہی علاقوں سے آنے والوں کی تعداد بھی کافی ہے اور عام خیال یہ ہے کہ دیہی علاقوں سے آنے والے پارلیمانی روایات سے نابلد ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہری علاقوں کے منتخب امیدوار پارلیمانی روایات کو زیادہ مسمار کرتے نظر آتے ہیں۔

مقبول خبریں