ملالہ کا پیغام

ناصر الدین محمود  جمعـء 19 جولائی 2013

12 جولائی کو پوری دنیا میں یوم ملالہ منایا گیا۔ 12 جولائی دراصل بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کا یوم پیدائش ہے۔ اس روز ملالہ 16 برس کی ہوگئیں اور اسی مناسبت سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے 500 انتہائی ذہین طلبا و طالبات کے ایک اجلاس سے انھوں نے خطاب بھی کیا، جو کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔

ملالہ یوسف زئی اب صرف ایک پاکستانی بچی یا طالبہ ہی نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی شخصیت بن چکی ہیں۔ انھوں نے بہت ہی جرأت، ہمت اور بہادری کے ساتھ حصول علم و فروغ کے ضمن میں پاکستانی بچیوں اور خواتین میں تعلیم کے فروغ کے پرچم کو سربلند کیا اور اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں ایک انتہائی خوفناک نوعیت کے قاتلانہ حملے کا سامنا بھی کیا لیکن ملالہ نے ہمت ہارنے کے بجائے پہلے سے زیادہ بڑھ کر عزم اور استقلال کا مظاہرہ کیا۔ اس قابل فخر پاکستانی طالبہ نے ساری دنیا کو یہ باور کروا دیا کہ خواتین میں علم و آگہی، شعور اور بیداری سے نہ تو پاکستانی قوم یا معاشرہ خوف زدہ ہے اور نہ ہی مذہب اسلام، بلکہ یہ شرمناک تصور صرف چند افرادکے اپنے ذہن کی اختراع ہے جو دلیل کے بجائے بندوق کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے مخصوص نظریات پوری قوم پر مسلط کردینا چاہتے ہیں۔

ملالہ نے اپنے اس تاریخی خطاب میں بجا طور پر علم کو دنیا کا طاقتور ترین ہتھیار قرار دیا۔ علم سے اس کی سچی لگن نے اسے ساری دنیا میں ایک ممتاز مقام عطا کردیا ہے۔اب وہ ایک استعارہ کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ علم ہی کی بدولت یہ ممکن ہوسکا کہ محض 16 برس کی بچی کہ جس نے قبائلی معاشرے میں آنکھ ضرور کھولی لیکن اس نے اپنے اجداد کی روایت کے برخلاف انتقام لینے کے بجائے اپنے دشمنوں کو معاف کرکے ان کے گھرانوں اور ان کی نسل کی بچیوں میں بھی علم کی روشنی پھیلانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان جس خطے میں بنا وہ علاقہ تو صوفیائے کرام اور اولیا اﷲ کی سرزمین تھا۔ جن کی تعلیمات میں صرف اور صرف پیار، محبت ، درگزر اورانسان دوستی کادرس ملتا ہے۔ صدیوں کے اس تشخص کو گزشتہ دو آمریتوں نے یکسر تبدیل کردیا، سخت گیر غیر لچکدار رویہ دراصل غیر جمہوری طرز عمل کا پیش خیمہ تھا۔ جس کی بنا پر آج پاکستانیوں کو دنیا بھر میں صلح پسند نہیں بلکہ انتہا پسند تصور کیا جاتا ہے۔ جنرل ضیا الحق اور بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کے دور کی آمریتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے جو گرہیں اپنے ہاتھوں سے لگالی تھیں وہ آج دانتوں سے بھی نہیں کھل پا رہیں۔

مٹھی بھر عناصر کے ہاتھوں پورا معاشرہ یرغمال ہے۔ ایسے میں جرأت اظہار معدوم ضرور ہورہا ہے لیکن ختم قطعی نہیں ہوا۔ اب بھی ملالہ جیسی بچیاں ہمارے معاشرے میں موجود ہیںجو جرأت اور بہادری کے ساتھ جہالت اور انتہا پسندی کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ لیکن اس کٹھن منزل کے حصول کے لیے پوری قوم کو یکجاہونا ہوگا۔ کتاب اور قلم سے اپنے رشتہ کو پھر سے جوڑنا ہوگا۔ حکمرانوں کو تعلیم اور فروغ علم کو اپنی پہلی ترجیح بنانا ہوگا۔ اس کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے تعلیم کے شعبے میں بجٹ کی خطیر رقم مختص کرنا ہوگی۔ ان سب کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رواج پا جانے والی انتہا پسندانہ فکر سے دائمی نجات کے لیے انتہا پسندعناصر کی بیخ کنی کرنا ہوگی اور حقیقی جمہوری روایات کو پروان چڑھانا ہوگا۔

ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے متفقہ قومی سیکیورٹی پالیسی کو مرتب کرنے کے لیے 12 جولائی 2013 کو پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے اجلاس کے انعقاد کی کوشش کی گئی لیکن پارلیمنٹ میں موجود ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ’’تحریک انصاف‘‘ کے سربراہ اپنے ایک نجی دورے پر بیرون ملک چلے گئے جس کی وجہ سے قومی سطح کی انتہا ئی اہمیت کی حامل کل جماعتی کانفرنس اپنے مقررہ وقت پر منعقد نہ ہوسکی۔ اس صورتحال کے تناظر میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے یہ تک کہہ دیا کہ تحریک انصاف کے سربراہ کی بیرون ملک روانگی سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ قومی اہمیت کے معاملات میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔

ساتھ ہی انھوں نے حکومت پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک فرد کی وجہ سے قومی اہمیت کی حامل کانفرنس کا التوا ایک افسوسناک امرہے۔ تاہم، حکومت اس بہت ہی حساس موضوع پر پوری قوم کے اتفاق رائے کی خواہشمند ہے تاکہ ایک مربوط پالیسی کے تحت دہشت گرد عناصر کے ساتھ معاملات کا آغاز کیا جاسکے۔ اس کے لیے نہ صرف تمام سیاسی جماعتوںکا اتفاق رائے بلکہ عسکری قیادت کا بھی بھرپور اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔اس مرحلے پر ہمیں ان عوامل کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ آخر حالات اس حد تک کس طرح خراب ہوئے اور ان عناصر کو اس قدر قوت کس طرح حاصل ہوگئی کہ انھوں نے چند سال قبل سوات میں کنٹرول حاصل کرلیا اور حکومت کی رٹ مکمل طور پر ختم ہوگئی؟ اگرچہ اب سوات میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم لہرایا جاچکا ہے اور حکومت کی رٹ قائم ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی پورے ملک میں انتہا پسندوں کے موثر اثرات موجود ہیں۔ وہ جب جہاں چاہتے ہیں اپنی کارروائی پوری آزادی کے ساتھ کرتے ہیں اور ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ایک سبق خود امریکا اور مغرب کے لیے بھی موجود ہے کہ جس دہشت گردی کی وجہ سے آج مغربی دنیا پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ناروا سلوک اختیارکیے ہوئے ہے اس میں پاکستانیوں کا خود کتنا دخل ہے۔ جب کہ ان عالمی طاقتوں کا کیا کردار رہا ہے۔ ایک عام پاکستانی تو اس وقت سے زیر عتاب ہے جب روس، افغانستان میں داخل ہوا اور امریکا نے اپنے مفاد میں روس کے خلاف ہمیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور ہم نے امریکا کا آلہ کار بن کر سوویت یونین کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔

ہماری معاشرت اور معیشت اس ہی روز سے تنزلی کا شکار ہے۔ جمہوریت کا جنازہ تو اس روز نکلا جب امریکا نے اپنے مفاد میں پاکستان میں آمریت کو تسلیم کیا اور حکومت کی مالی امداد کا آغاز ہوا۔ جب پاکستان میں جمہوریت کا نام لینے والوں کو قید و بند میں رکھا گیا، ان پر کوڑے برسائے گئے اور حد تو یہ ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ یہ سارے شرمناک کام ہوتے رہے اور جمہوریت کا دم بھرنے والا امریکا پاکستان میں جمہوریت کا قتل عام کرنے والوں کی اندھی حمایت کرتا رہا۔

اب وقت ہے کہ صرف پاکستانی قوم ہی نہیں بلکہ مغرب اور خود امریکا بھی اپنی ماضی کی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے۔ مستقبل میں خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں جمہوریت سے اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اعلان اور یہ عہد کیا جائے کہ پاکستان میں کسی صورت غیر جمہوری طرز عمل کی حمایت نہیں کی جائے گی کیونکہ جمہوریت کے تسلسل میں ہی ملک و قوم کے مفادات کا تحفظ پوشیدہ ہے اور جمہوریت کے ذریعہ ہی عالمی امن کی ضمانت فراہم کی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں پائیدارامن کا قیام اب بھی محض ایک خواب ہی رہے گا۔ 12 جولائی 2013 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے عالمی شہرت یافتہ ہونہار پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کے خطاب کا حاصل بھی یہی ہے کہ پاکستان کو ایک مہذب جمہوری ملک بنانے کی جدوجہد میں اقوام عالم پاکستانی عوام کا ساتھ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔