این آر او کیسا جادو
بیماری نے سیاسی شرفا کو سب سے زیادہ متاثر کیا
عمران خان نے 6 مہینے میں ایسا کوئی کام نہیں کیا، جسے تحریک انصاف فخر کے ساتھ عوام میں پیش کرے، عوام تحریک انصاف کی اس مایوس کن کارکردگی کو غور سے دیکھ رہے ہیں لیکن وہ نہ اس کارکردگی سے مایوسی کا اظہارکر رہے ہیں نہ اس کارکردگی کے خلاف سڑکوں پر آ رہے ہیں۔
حالانکہ ''ایماندار'' اپوزیشن کی جانب سے بہت کوشش کی گئی کہ عوام سڑکوں پر آئیں لیکن خدا جانے ان سرپھروں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ کیا اس کی وجہ وہ 10 سالہ جمہوری کارکردگی ہے جس کا ڈنکا ساری دنیا میں بج رہا ہے؟ عمران خان نے جب اقتدار سنبھالا ملک کھربوں روپوں کے اندرونی اور بیرونی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے رفاہ عامہ کے اداروں سے قرض لیا۔ یہ قرض مجموعی طور پر اتنا لمبا چوڑا اور اونچا ہے جتنی لمبی چوڑی اور اونچی ہماری جمہوریت ہے۔ سابق قرض کا پورا نقشہ عوام کی آنکھوں میں اور حال کے قرضوں کا حال یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں میں یہ قرضے جیب (بینک) میں چلے جاتے تھے، اب صورتحال یہ ہے کہ عباسی صاحب کی ایل این جی ادھار لی جا رہی ہے۔ ایل این جی ادھار لینا بڑی بات ہے لیکن ہمارے عوام اس کا دفاع اس طرح کرتے ہیں کہ چوری کرنے سے ادھار لینا بہتر ہے۔
عوام نے اس ملک کا 1947 سے 2018 کا دور دیکھا ہے الامان الحفیظ۔ عام زبان میں عام لوگ کہتے ہیں کہ ''متحدہ ہندوستان'' سے پہلے مغل امپائرکا جو دور تھا اور جب ہم فخر سے مسلمانوں کا ایک ہزار سالہ دور کہتے ہیں اب سلجھے ہوئے لوگ کہتے ہیں ہم ہزار سالہ زریں دور تک تو نہ آسکے لیکن نئے مغل امپائر کو اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور سیاست کے پالنے میں شہزادوں کو اقتدار کے لیے مچلتے دیکھ رہے ہیں۔
کہ ٹی وی پر چند سابق لیگی وزراء کے جھرمٹ میں نواز شریف کو آتے دیکھا ماشا اللہ چہرے پر وہی تازگی تھی۔ چند منٹ کے وقفے سے چھوٹے میاں کی سواری بھی برآمد ہوئی وہی رعب و دبدبہ جو دور اقتدار میں تھا۔ ہمارا خیال ہے انسان کو اگر مستقبل کا حال معلوم ہو تو وہ بہت ساری ناقابل بیان مشکلات سے بچ سکتا ہے ہمارے سائنسدانوں نے مصنوعی انسان بنا لیے لیکن ابھی تک مستقبل بینی جیسی چھوٹی سی تحقیقی میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ ہر انسان کے دماغ میں پیش بینی یا مستقبل بینی کی ایک بڑی طاقت ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ دولت کی بے انتہا خواہش ہو تو باریک بینی ''بہ یک بینی دو گوش'' بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ '' ہوس '' ہے وہ بھی اتنی لمبی چوڑی کہ اربوں روپے بھی اس میں سما نہیں سکتے اس بیماری نے سیاسی شرفا کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔
صرف چند ماہ پیشتر ان آقاؤں کے آگے پیچھے مشتاقان دید کا ایک ہجوم لگا رہتا تھا۔ خواتین کی دلی خواہش ہوتی تھی کہ وہ ایک بار سر کی نظر میں آجائیں فائدہ ہو یا نہیں دیدار کی برکت سے بھی بہت کام ہوتے ہیں۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خواتین کو ہماری ان آن ہماری شان نے جیلوں تک پہنچادیا۔ ایک زمانہ تھا جب خواتین کا جیل جانا قابل فخر بات ہوتی تھی لیکن وہ جیل کے مسافر اربوں روپوں کی کرپشن کے الزام میں نہیں پکڑے جاتے تھے وہ نالائق حکومتوں اور نالائق قیادتوں کے خلاف ہڑتالیں کرکے احتجاج کرکے اور گدی چھوڑ دو کے نعرے لگا کر جیلوں میں جاتے تھے۔
وہ بناسپتی قیادت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے لیکن اب سیاست میں اہل سیاست نے قدم قدم پر حکمرانوں سے کمپرومائز کا ایک ماڈرن فارمولا نکالا ہے جس کا نام نامی اسم گرامی NRO رکھا گیا ہے ان تین لفظوں میں پتا نہیں کیسا جادو ہے کہ سزائے موت کے قیدی نہ صرف پلک جھپکتے میں چھوٹ جاتے ہیں بلکہ قصر سلطانی کے گنبد پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں لیکن اتنا اندازہ بہرحال دیوانے بھی کر رہے ہیں کہ اس بار NRO کی برکت سے فائدہ اٹھانے کے چانس کم ہیں لیکن دنیا کے باخبر لوگ کہتے ہیں کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس امکان نے ہمارے سیاستدانوں کے سارے اندازوں سارے منصوبوں کو ملیا میٹ کردیا ہے اکہتر سال کا عرصہ بہت عرصہ ہوتا ہے اس عرصے میں دنیا کے بہت سارے ملک پسماندگی کے حصار سے نکل کر ترقی کے دور میں داخل ہوگئے ہیں۔ لیکن ہماری ترقی کا عالم یہ ہے کہ ترقی تو گئی دال لینے یہاں صورت حال یہ ہے کہ پاکستان کے سر پر قرض کے پہاڑ کھڑے ہوئے ہیں اور بے چارے عوام ''صم بکم'' کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ جغرافیہ یا ریاضی کا کوئی بہت بڑا سوال نہیں ہے کہ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں۔ آج پاکستان کا جو حشر ہوا ہے اس کا اندازہ ان حقائق سے لگایا جاسکتا ہے کہ لٹیروں کے پاس جو کھربوں روپے رکھنے کی جگہ نہیں رہی تو انھوں نے حاتم کی قبر پر لات مارتے ہوئے اربوں روپے ایسے غریب طبقات کے اکاؤنٹس میں ڈال دیے جنھوں نے کبھی اتنی بڑی رقوم کو دیکھا نہ سنا۔ ان حالات کو دیکھ کر ہمیں اندھیر نگری چوپٹ راج یاد آرہا ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ میں کبھی اتنی بڑی کرپشن عرف لوٹ سیل لگی ہے؟ جو عمائدین بہتی گنگا میں نہا رہے تھے اب اسی گنگا میں ڈوبنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔
صورت حال کو سنبھالنے کی جتنی کوششیں کی جا رہی ہیں وہ اور الجھتی چلی جا رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں ہاتھ ڈالتے ہیں وہاں ایک اور زیادہ بڑا کھڈا نکل آتا ہے بعض سابق ڈھیٹ وزرا جو حال حال تک احتساب کا اور حکمرانوں کا مذاق اڑاتے تھے اب ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں لیکن خوفزدہ مصنوعی ہنسی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ''سب ٹھیک ہے''۔ لیکن لگتا ہے سب ٹھیک نہیں بلکہ شاید کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ میں اس مسئلے کو ایک اور حوالے سے دیکھتا ہوں۔ میں کہتا ہوں ایک بھی کرپٹ بندہ کرپٹ نہیں کرپٹ پورا سرمایہ دارانہ نظام ہے اور کاغذ قلم ہے تو نکال کر لکھ لو جب تک یہ نظام قائم ہے انسان کرپٹ ہی رہے گا۔
ہمارے حکمران طبقے کی تاریخ لوٹ مار کا عالم دنیا نے دیکھا دولت چوری کی دولت جب گھروں بینکوں اور لاکروں میں نہیں سمانے لگی تو ان غریبوں کے اکاؤنٹس میں اربوں روپے ڈالنے لگے جنھوں نے پانچ ہزار کا نوٹ نہیں دیکھا۔ آج یہ ہوس ذلت بے شرمی بن کر جگمگا رہی ہے احتساب ہو رہا ہے لیکن دل جلوں کا کہنا ہے کہ اگر احتساب اس قدر نرم رہا تو پگھل جائے گا۔
عمران خان ایسے میدان میں کھڑے ہیں جہاں ہر طرف غنیم دانت پیستے کھڑا ہے لیکن پاکستان کے دوست ممالک جس قدر ہمدردی سے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں شاید اس سے پاکستان اس تاریخی کرائسس سے باہر نکل آئے لیکن پورے پاکستان میں کرپشن کا منہ سختی سے بند نہ کیا گیا تو یہ بھی دوبارہ اس تیزی سے ابھرے گی کہ پھر اس کا منہ بند کرنا شاید ممکن نہیں رہے گا۔