غصہ

آصف مسعود  بدھ 20 فروری 2019
تھوڑی سی مشق سے غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تھوڑی سی مشق سے غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

وہ نہ تو کسی کے حالات میں دلچسپی رکھتا تھا نہ مسائل کا سلجھاؤ کرنا چاہتا تھا۔ بس وہ ہماری الجھنوں کا بوجھ کسی مافوق الفطرت طریقے سے اٹھا لیتا۔ مسئلہ رہتا تھا، لیکن تکلیف باقی نہیں رہتی تھی۔ حل نہیں ملتا تھا لیکن یوں محسوس ہونے لگتا کہ اب مسئلے کے حل کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔

عادل کی وجہ سے اب اس کی ذات کی کچھ اور پرتیں بھی وا ہونے لگیں کہ اب وہ کھانے کے بعد، سونے سے پہلے ہمارے کمرے میں آجاتا، صوفے پر بیٹھتا اور اپنی اس ٹانگ کو آگے پھیلا دیتا جس میں حسیات ختم ہو چکی تھیں۔ میرا بیٹا عادل اس کی اس ٹانگ کے نیچے گدی رکھ دیتا۔ ان محفلوں میں عموماً کوئی بڑا موجود نہ ہوتا۔

غیور خان اور غزل، عشرت خان اور عفت، عادل خان اور میں، اس کی پھیلی ٹانگ کے ارد گرد انگریزی کی ’’یو‘‘ کی شکل میں بیٹھ جاتے۔ فضا میں اشتیاق، حسرت، تحیر پھیل جاتا۔ بظاہر یوں لگتا جیسے عادل خان غیر متوجہ ہے۔ وہ گروہ سے الگ تھلگ بیٹھتا۔ نہ سننا، نہ سوال کرنا۔ بس اسے اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک روز جب عفت چائے انڈیل رہی تھی اور غزل سب میں مٹھائی بانٹنے میں مشغول تھی، عشرت نے سوال کیا، ’’دانش چچا! غصے کو دور کرنے کی کوئی ترکیب بتائیے؟… چھپا ہوا غصہ، اعلانیہ غصہ، نہ ٹلنے والا غصہ…‘‘

دانش بھائی مسکرائے، پھر چائے کی پیالی وصول کی اور بڑی درد مند آواز میں بولے، ’’غصہ دراصل آنا ہی نہیں چاہیے۔ اگر آپ واقعات، حالات، چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنے میں سے گزر جانے دیں جیسے چھلنی میں سے پانی گزرتا ہے، تو بہت جلد ایسی عادت بن جائے گی کہ غصہ کم آنے لگے گا…‘‘ عادل خان نے بغیر سنے یہ چھلنی قبول کی۔

’’لیکن دانش چچا ہمارے اندر تو جب کسی بات پر غصہ چڑھ جائے تو کسی طرح گزرتا ہی نہیں،‘‘ غزل بولی۔

’’مثلاً کسی نے آپ کو کچھ کہہ دیا تو اب اس پر ردعمل فوراً نہیں کرنا۔ بس بات آئے اور گزر جائے۔ مشکل یہی ہے کہ آپ ردعمل کے طور پر یا تو کچھ کرنا چاہیں گے یا جواب دینا چاہیں گے۔ ان دونوں چیزوں سے پرہیز کرنا ہے۔ بات آئے، بری لگے لیکن Let it pass۔‘‘

’’بڑا مشکل ہے لیکن زیادہ نہیں۔ تھوڑی سی مشق سے غصے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ شروع میں آپ صرف برے عمل سے بچیے۔ مثلاً غصے میں پلیٹ نہ توڑیئے۔ کسی کو فون نہ کیجیے۔ تھپڑ نہ ماریئے، ہاتھ نہ اٹھائیے۔‘‘

عفت نے اپنی شہد رنگی آنکھیں حیرت سے کھول کر پوچھا ’’پر وہ کیسے دانش چچا… ناممکن ناممکن…‘‘

’’پہلے پہل صرف ہاتھوں کو قابو کیجیے۔ پھر رفتہ رفتہ زبان کو بندھیج دیجیے۔ اس کے بعد اندر کے خیالات کی باری آئے گی۔ اندر سوچ بھی غصے والی نہ رکھیے۔ جب آپ واقعات، گفتگو، حادثات کو پاس کرنے کی اجازت دیں گے تو زیادہ دیر نہیں گزرے گی اور آپ کی اتنی مشق ہو جائے گی کہ اوّل تو عام باتوں پر غصہ نہیں آئے گا… پھر آہستہ … آہستہ آہستہ خاص باتوں پر بھی انا مجروح نہیں ہوگی۔ اس سے آگے ایک وقت ایسا آئے گا جب غصہ انا کی وجہ سے آئے گا ہی نہیں۔

’’اور جب تک اتنی مشق نہ ہو اور غصہ آ جائے تب… تب کیا کریں دانش چچا…‘‘ عشرت خان نے پوچھا۔

دانش بھائی نے عادل خان کی طرف ذرا سا دیکھا اور بولے، ’’اگر کبھی زبان اور ہاتھ چل جائیں تو پھر آسان طریقہ ہے… دل سے پشیمان ہوں اور دو رکعت نفل نماز کفارہ ادا کیجیے۔ نفس پر یہ سزا بہت گراں گزرتی ہے… جب دن میں کئی بار غصے کے عمل سے نالاں ہوکر نفل پڑھنے پڑیں تو بہت جلد غصہ کم آنے لگے گا۔‘‘

’’پھر تو میں سارا دن نماز ہی پڑھتی رہوں گی…‘‘ عفت بولی۔

’’میں بھی،‘‘ غزل نے کہا۔

’’…اور میں بھی،‘‘ غیور خان نے ٹکڑا لگایا۔

’’اور میں تو پہلے…‘‘ عشرت بولا۔

سب ہنسنے لگے… لیکن عادل خان چپ رہے۔ وہ بغیر سنے آنک رہا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہوگا؟ عجلت، لاپرواہی، غصے کی طنابیں کیسے کھینچنی ہوں گی اور دانش بھائی کی بات کو زندگی میں کیسے سمونا ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

آصف مسعود

آصف مسعود

بلاگر کا تعلق چکوال سے ہے۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں انگریزی کے لیکچرار رہ چکے ہیں۔ پچھلے آٹھ سال سے قطر میں کام کر رہے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں لکھتے ہیں اور شام کو کچھ کمیونٹی سروس بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی بچوں کو اردو اور انگریزی پڑھاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔