عوامی مسائل اور نظام کی تبدیلی

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 21 فروری 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ پہلے عوام کے اہم اور ضروری مسائل حل کریں گے، اس کے بعد نظام بدلنے کی کوشش کریں گے، وزیر اعظم اپنے ارادوں میں بلاشبہ مخلص نظر آتے ہیں لیکن ان کی اسٹرٹیجی وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظر نہیں آتی۔

عوام کے مسائل کا انبار اس لیے جمع ہوگیا ہے کہ جس نظام میں ہم زندہ ہیں وہ نظام عوام کے مسائل حل نہیں کرتا بلکہ عوام کے مسائل جمع کرتا ہے اور مسائل کا انبار لگا دیتا ہے۔ مثلاً مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا ہے اور یہ عوام کی زندگی کو متاثرکرتا ہے ۔ مہنگائی تقریباً ہر دور میں رہی ہے اور ہر حکومت نے مہنگائی ختم کرنے کے وعدے بھی کیے اورکوشش بھی کی لیکن مہنگائی نہ کم ہوئی نہ ختم ہوئی، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام منافعے کی بنیاد پرکھڑا ہوا ہے اور منافع ہی مہنگائی میں اضافہ کرتا ہے، اگر نظام کی تبدیلی کے بغیر مہنگائی ختم کرنے کی کوشش کریں گے تو مہنگائی کبھی ختم نہیں ہوگی۔

صرف پاکستان ہی میں نہیں جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام ہے مہنگائی نہ صرف موجود ہے بلکہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے ،دوسری سرمایہ دارانہ نظام کی بڑی برائی رشوت یعنی کرپشن  ہے۔

رشوت ہماری زندگی سے جڑی ہوئی ہے اور رشوت کو ختم کرنے کی جتنی کوششیں کی جاتی ہیں رشوت ختم تو نہیں ہوتی بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ رشوت اس قدر عام ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا جب رشوت نچلے طبقات سے نکل کر اونچے طبقات میں جاتی ہے تو اپنا نام بدل کرکرپشن رکھ لیتی ہے اورکرپشن کے پھیلاؤ کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں کرپشن کا ریلا آیا ہوا ہے ۔ اربوں کھربوں کی کرپشن داستانیں سارے ملک میں گونج رہی ہیں اور اس کے خلاف احتساب کے نام سے جوکارروائی ہو رہی ہے وہ بھی رشوت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ اس نظام میں رشوت زندگی کا ایک لازمی حصہ بن جاتی ہے۔

رشوت اور کرپشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جب غریب طبقات میں رائج رہتی ہے تو رشوت کہلاتی ہے اور اس کا دائرہ ہزاروں بعض صورتوں میں لاکھوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ رشوت غریب طبقات میں انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے لی جاتی ہے جب کہ اعلیٰ طبقات میں ہوس اس کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔ کرپشن کا دائرہ اربوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے آج کل ہمارے سابق حکمرانوں کے خلاف احتساب کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس میں پکڑے جانے والے اعلیٰ عہدیدار ہیں اور ان کی کرپشن کا حال یہ ہے کہ اربوں سے کم میں نظر ہی نہیں آتی۔

اشرافیہ کی کرپشن کو اشرافیہ کی ضرورتیں مہمیزکرتی ہیں ، مثلاً ایک اشرافیائی خاندان میں گھر کا ہر فرد ایک نئی کروڑوں کی مالیت کی گاڑی رکھنا چاہتا ہے۔ جب کروڑوں کی قیمت کی گاڑیاں اشرافیائی خاندان کی ضرورت بن جاتی ہیں تو پھر کرپشن کا دائرہ فطری طور پر اربوں تک پھیل جاتا ہے ایک اشرافیائی خاندان کے پاس شہر کی پوش بستی میں ایک شاندار رہائش گاہ موجود ہے لیکن وہ ملک کے ہر شہر میں ایک لگژری بنگلہ چاہتا ہے تو یہ ایک فطری بات ہے کہ اسے اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے یوں ایک اشرافیائی فیملی اربوں کی کرپشن کا ارتکاب کرتی ہے۔ خواہشوں اور ضرورتوں کا پھیلاؤ کرپشن کا پھیلاؤ بن جاتا ہے۔ اب تو ہماری اشرافیہ کی دولت ملکی بینکوں میں نہیں سما رہی ہے اب اس کی رسائی دنیا کے مختلف ملکوں تک ہو رہی ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے، عوام دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں ہیں اور دو فیصد اشرافیائی اربوں کی کرپشن میں ملوث ہیں کیا عمران خان پہلے ان مسائل کو حل کرکے نظام بدلنے کی طرف جائیں گے؟ آپ اگر اشرافیہ کو قابو کرنا چاہتے ہیں تو آپ مچھلی کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ گیلی لکڑی (مچھلی) آپ کے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح اشرافیہ احتساب کے ہاتھوں سے پھسل جاتی ہے۔

وزیراعظم بڑی نیک نیتی سے کہہ رہے ہیں کہ وہ پہلے عوام کے مسائل حل کرکے پھر نظام کی تبدیلی کی طرف آئیں گے۔ عوام کے مسائل کا براہ راست تعلق نظام سے ہوتا ہے ۔کیا نظام کی تبدیلی کے بغیر عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر تحریک انصاف کے دانشوروں کو پوری یکسوئی سے غورکرنا چاہیے۔

عوام کے ویسے تو ہزاروں مسائل ہیں لیکن ہم صرف چند اہم مسائل کا ذکر کریں گے۔ مثلاً تعلیم، علاج۔ ہمارے  وزیر اعظم یکساں تعلیم نافذ کرنا چاہتے ہیں ہم جس طبقاتی نظام میں رہ رہے ہیں۔ اس میں اشرافیہ زندگی کے ہر شعبے پر اس طرح حاوی ہے کہ وہ کوشش کرے گی کہ اس نے مدتوں سے اپنے طبقاتی مفاد میں جو سیٹ اپ بنایا ہے اسے کوئی نہ چھیڑے۔ مثلاً تعلیم ہی کو لے لیں۔ کیا اشرافیہ آسانی سے طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے یکساں نظام تعلیم لانے دے گی؟

دنیا میں جتنی برائیاں ہیں وہ سب سرمایہ دارانہ نظام، جاگیردارانہ نظام کی لائی ہوئی ہیں ۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا جال ہے جو ساری دنیا کو گھیرے ہوئے ہے، اس نظام کو ختم کرنے کے لیے روس اور سوشلسٹ ملکوں نے بے انتہا کوششیں کیں لیکن اس کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ روسی بلاک اپنی ساری کوششوں کے باوجود اس کو اس کی جگہ سے ہلا نہ سکا بلکہ سرمایہ داروں کی سازشوں سے خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر رہ گیا۔ اس کے متعارفین نے اس تعمیر انسانی فطرت کو سامنے رکھ کر کی ہے۔ انسان اس عفریت کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔

ہماری دیہی آبادی کا 60 فیصد حصہ جاگیردارانہ نظام میں بندھا ہوا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتا رہا ہے اگر وزیر اعظم عمران خان اس کمزور نظام کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھائیں تو انھیں کامیابی مل سکتی ہے۔ اس نظام کے خاتمے کے لیے کئی بار زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن  جاگیردار طبقے نے انھیں ناکام بنادیا اگر وزیر اعظم عمران خان ملک میں سخت ایسی زرعی اصلاحات نافذ کریں کہ اس کے خلاف وڈیرہ شاہی سازشیں نہ کرسکے تو بلاشبہ جاگیردارانہ نظام جو اب سندھ اور جنوبی پنجاب میں رہ گیا ہے ختم ہوجائے گا یوں سرمایہ دارانہ نظام کمزور ہوگا کیونکہ جاگیردارانہ نظام ،سرمایہ دارانہ نظام کا رکھوالا بنا ہوا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔