عید کا تحفہ

تحفوں کے لین دین سے محبت بڑھتی ہے۔


Muhammad Waqas August 24, 2012
میرے بیٹے! اﷲ نے تمہیں دو سوٹ دیے ہیں تو تمہیں چاہیے کہ ایک سوٹ اپنے دوست کو دے دو۔ اس سے نہ صرف اﷲ راضی ہوگا بلکہ تمہیں سچی خوشی بھی ملے گی۔ فوٹو: فائل

ولید اور اَنس ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ پڑھنے میں دونوں ہی اچھے تھے۔ کبھی ولید کلاس میں اوّل آتا تو کبھی اَنس، پہلے دو انعام ان ہی کے ہوتے۔ دونوں کی دوستی بھی پورے اسکول میں مشہور تھی۔

ولید کے پاپا کا اپنا کاروبار تھا۔ وہ امیر تو نہیں تھے لیکن غریب بھی نہیں تھے۔ بس اتنا کما لیتے کہ ضروریات زندگی آسانی سے پوری ہوجاتیں۔ جب کہ انس کے پاپا فوت ہوچکے تھے۔ اُس کی ماما گھر میں سلائی کڑھائی کا کام کرتیں جس سے ان کی گزربسر ہورہی تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ اَنس پڑھ لکھ کے بڑا آدمی بنے، اسی لیے انہوں نے اَنس کو اچھے اسکول میں داخل کرایا۔ وہ اَنس کی پڑھائی کے بارے میں بہت محتاط تھیں۔ خود فاقے کرلیتیں لیکن اس کی پڑھائی میں کوئی تعطل نہ آنے دیتیں۔

اَنس کی ماما نے رمضان سے پہلے ہی پیسے جمع کرنے شروع کردیے تاکہ عید پر اَنس کو نیا سوٹ دلا سکیں۔ لیکن رمضان میں ہونے والی ہوش ربا منہگائی میں ان کے سارے پیسے دو وقت کی روٹی پر ہی خرچ ہوگئے۔ جیسے جیسے عید قریب آتی گئی، بازاروں میں گہما گہمی بڑھ گئی۔ ولید بھی اپنے پاپا کے ساتھ جا کے دو نئے سوٹ خرید لایا اور اَنس کو دِکھانے اس کے گھر گیا۔ ابھی وہ دروازے پر دستک دینے ہی لگا تھا کہ اندر سے آنے والی آواز نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ روک دیا۔ اَنس کہہ رہا تھا؛ ''ماما! یہ کپڑے میں کئی بار پہن چکا ہوں۔ اب عید پر بھی کیا یہی پرانا سوٹ پہنوں گا؟''

''بیٹا! تم تو جانتے ہو، میری دن رات کی محنت تمہاری پڑھائی اور دو وقت کی روٹی میں صَرف ہوجاتی ہے۔ جو تھوڑے بہت پیسے جمع کیے تھے وہ بھی اس منہ زور منہگائی کی نذر ہوگئے۔ ایسے میں تمہیں نیا سوٹ کہاں سے لاکے دوں؟ تمہارے پاپا زندہ ہوتے تو ضرور تمہیں نیا سوٹ دلا دیتے۔'' یہ کہتے ہوئے اَنس کی ماما رونے لگیں۔

ولید جو باہر کھڑا ساری باتیں سن رہا تھا، خاموشی سے واپس لوٹ گیا۔

وہ بوجھل قدموں سے گھر میں داخل ہوا تو پاپا نے پوچھا، ولید! کیا بات ہے، اس قدر پریشان کیوں ہو؟ ولید نے ساری بات بتادی۔ وہ بولے، اس سے پہلے کہ میں تم سے کچھ کہوں، ایک واقعہ سنو۔ ''ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نماز عید کے لیے مسجد تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک بچے کو دیکھا جو پھٹے پرانے کپڑے پہنے رورہا تھا۔ آپ ﷺ نے اس سے رونے کی وجہ دریافت کی تو وہ بولا، آج عید کا دن ہے۔

سارے بچے نئے کپڑے پہن کے نماز کے لیے جارہے ہیں لیکن میں یتیم ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ آپ ﷺ اس بچے کو اپنے گھر لے آئے۔ اور اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا، اسے نہلائو اور نئے کپڑے پہنائو۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کیا اور مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ یتیموں سے بڑی محبت کرتے اور غریبوں کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ انہوں ﷺ نے ہمیں بھی اسی بات کی تاکید فرمائی ہے۔ میرے بیٹے! اﷲ نے تمہیں دو سوٹ دیے ہیں تو تمہیں چاہیے کہ ایک سوٹ اپنے دوست کو دے دو۔ اس سے نہ صرف اﷲ راضی ہوگا بلکہ تمہیں سچی خوشی بھی ملے گی۔''

پاپا نے بات ختم کی تو ولید بولا، آپ تو جانتے ہیں کہ ولید کتنا خوددار ہے۔ وہ کبھی مجھ سے کوئی چیز نہیں لیتا۔ پاپا بولے، بیٹا! خوددار ہونا تو بڑی اچھی بات ہے۔ لیکن تم اسے خیرات تھوڑی دے رہے ہو بلکہ یہ تو تحفہ ہے۔ عید کا تحفہ جو ایک دوست کا دوسرے دوست کے لیے ہے، اس سے اَنس کی خودداری پر بھی حرف نہیں آئے گا اور تمہاری دوستی بھی مزید مضبوط ہوگی۔ کیوںکہ تحفوں کے لین دین سے محبت بڑھتی ہے۔

تھوڑی ہی دیر میں ولید ''عید کا تحفہ'' لیے اَنس کے گھر کی طرف جارہا تھا۔

مقبول خبریں