کیا حکومتی اصلاحات سے معاشی بحران پر قابو پایا جا سکے گا؟

ارشاد انصاری  بدھ 17 اپريل 2019
حکومتی وزیر خزانہ نے اپنے تئیں حکومتی ذخائر کو مستحکم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ فوٹو: فائل

حکومتی وزیر خزانہ نے اپنے تئیں حکومتی ذخائر کو مستحکم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: کیا حکومتی اصلاحات معاشی بحالی لا پائیں گی یہ وہ سوال ہے جو ملک کے سیاسی و سماجی اور اقتصادی حلقوں میں زیر بحث ہے مگر جو حالات رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں اس میں تجزیہ کاروں کا یقین بڑھتا جا رہا ہے کہ سیاسی ہل چل برپا رہی تو معاشی استحکام کے بجائے مسائل میں مزید اضافہ ہو گا۔

وزیر خزانہ اسد عمر کا دعوی ہے کہ بجٹ سے پہلے پی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ ( آئی ایم ایف) کے ساتھ سات ارب ڈالر کے قرض کا معاہدہ طے پا جائے گا،اس معاہدے کے ساتھ حکومت کو ایک تین سالہ معاشی بحالی کے پروگرام پر بھی اتفاق کرنا ہو گا۔ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لئے آئی ایم ایف کا وفد حکومتی درخواست پر اس ماہ کے آخر تک اسلام آباد پہنچے گا اور مذاکرات میں معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی اس معاہدے کے ساتھ ہی پاکستان ورلڈ بینک سے چھ ارب ڈالر کا قرض لے گا جبکہ اس کے بعد بتدریج ایشیائی ڈویلپمنٹ بینک ( اے ڈی بی) سے بھی قرض لیا جائے گا۔

مجموعی طور پر پی ٹی آئی کی حکومت آئندہ تین برسوں میں بائیس ارب ڈالر کا قرض حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جبکہ  پی ٹی آئی کی حکومت گزشتہ حکومت پر پانچ سالوں میں اٹھائیس ارب ڈالر کا قرض لینے کا الزام لگاتی ہے اور اسی قرض کو تمام معاشی امراض کی وجہ گردانتی رہی لیکن معیشت کے استحکام کے لئے اسحاق ڈار کے ہی سارے فارمولے استعمال کئے جا رہے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسحاق ڈار کی سیاسی روح موجودہ وزیر خزانہ ا سدعمر میں سرائیت کرگئی ہے وہ لب و لہجہ وہی دلائل اسد عمر کی طرف سے پیش کئے جا رہے ہیں جو کبھی ان کے پیش رو وزیر خزانہ اسحاق ڈار پیش کیا کرتے تھے مگر اس وقت معاشی حالات اتنے ابتر نہیں تھے جتنے کہ اب ہیں اور یوں معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت کی ہر تدبیر الٹی ہوتی جا رہی ہے۔

بھارتی انتخابات کے بعد پاکستان میں اسمبلیاں توڑنے اور صدارتی نظام لانے کی افواہیں زور پکڑتی جا رہی ہیں جس پر پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سمیت دیگر جماعتیں بھی اپنا بھرپور ردعمل دے رہی ہیں اور حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں اب چونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور رواں ماہ کے آخر تک آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام فائنل ہونے کی توقع ہے اور ایل او آئی پر دستخط ہو جائیں گے اس سے قبل یوٹیلٹی کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت اسکے اثرات بھی گہرے ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

ابھی موسم گرما اپنے جوبن پر نہیں پہنچا کہ مضافاتی علاقوں میں بجلی کی بندش کی آوازیں اور بجلی کے بلوں میں اضافہ کی چیخیں سنائی دینا شروع ہوگئی ہیں اور ساتھ ہی حکومت کی جانب سے گیس کی قیمتوں میں ستر سے اسی فیصد اضافہ کی صورت مہنگائی کا نیا بم گرانے کی تیاریاں بھی مکمل ہیں اور گمان ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام سے پہلے پہلے یہ مشکل فیصلہ ہوجائیگا اور عوام کو صبر کی تلقین کی جائے گی اور پھر اسی ماہ کے آخر میں پھر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی بھی ابھی سے باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت مہنگائی بڑھا کر اپوزیشن کا کام آسان کر رہی ہے اور پٹرولیم مصنوعات پہلے سے سنچری کراس کر چکی ہیں اور اب مزید اضافہ عوام پر کسی بم سے کم نہیں ہوگا ان سب کے اثرات مہنگائی کی صورت میں سامنے آئیں گے جو حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے مزید بڑھانے کا ذریعہ بنیں گے۔

آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے قرضوں کے حصول کے باوجود رواں برس ملکی ترقی کی شرح تین اعشاریہ چار فیصد رہے گی جبکہ اگلے مالی سال میں قرضوں کی ادائیگی کے بوجھ کی وجہ سے ترقی کی شرح مزید کم ہو کر صرف ڈھائی فیصد رہ جائے گی۔

پی ٹی آئی کے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تعطل اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ عوام کو دوائی کا کڑوا گھونٹ پلا کر، آئندہ سالوں میں کچھ نہ کچھ آسانیاں حاصل کی جائیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت گزشتہ حکومتوں سے سبق حاصل کرنے کے بجائے وہی غلطیاں دہرا رہی ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت دیگر ممالک کی طرح معاشی اصولوں پر نہیں چلتی، اس میں ایک بڑا اثر سیاسی استحکام کا بھی ہوتا ہے لہذا مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکنوکریٹ کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ سیا سی مدبرین کے ذریعے ملک میں پر سکون ماحول کے قیام کے لئے بھی کوششیں کی جائیں۔

وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ ان کی ساری کوششیں تین اہم معاشی مسائل کے حل کی جانب ہیں یعنی بجٹ کا خسارہ، تجاری خسارہ اور بچتوں اور سرمایہ کاری کے منفی رجحان کا خاتمہ۔ان کو یقین ہے کہ اگر ان تینوں مسائل پر قابو پا لیا جائے تو پاکستان کی معیشت مستحکم ہو جائے گی۔

ان کا اعتماد بالکل درست ہے اور حقیقیت بھی یہی ہے کہ اگر بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ کنٹرول کر لیا جائے اور ساتھ ہی سرمایہ کاری کو بڑھاوا دیا جائے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ ستر سال سے تقربیاً تمام حکومتیں ہی اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا کہ اسد عمر سمجھ رہے ہیں اور پاکستانی عوام کو میٹھی گولی دے رہے ہیں۔ اسد عمر کے اس کڑوی گولی نگلنے کے باوجود اندازہ ہے کہ رواں مالی سال میں بجٹ کا خسارہ 6.3 فیصد تک جاپہنچے گا جو کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر تقریباً چار فیصد تھا۔

گزشتہ حکومت نے یہ طریقہ اپنائے رکھا کہ پانچ سالوں میں  روپے کی قدر کو گرنے نہیں دیا جس کی وجہ سے افراط زر کنٹرول میں رہی اور سود کی شرح کم ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا اور معاشی ترقی میں بھی آہستہ آہستہ بہتری آتی رہی۔ بہتر یہ ہوتا کہ موجودہ حکومت بھی اسی پالیسی کو آگے بڑھاتی اور روپے کی قدر کو کنٹرول میں رکھتی۔ قائم مقام حکومت کی تجویز کے مطابق قرضوں کی ادائیگی کے لئے آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ فوری کر لیا جاتا تو بجٹ خسارہ کی یہ صورت حال نہ ہوتی اور حکومت کو فوری طور پر عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ حکومت کی طرف سے نیب کے معاملات میں دخل اندازی کے تاثر نے بھی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچایا۔

حکومتی وزیر خزانہ نے اپنے تئیں حکومتی ذخائر کو مستحکم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں اور اس وقت بھی اسٹیٹ بینک کے مالی ذخائر سترہ ارب ڈالر سے کچھ زائد ہی ہیں جو کہ کافی مناسب ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ ہفتے مارکیٹ میں اچانک ڈالر کی قدر میں اضافہ شروع ہوگیا جس میں مرکزی بینک کو دخل اندازی کرنا پڑی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت اپنے معاشی مسائل پر تو قابو پا سکتی ہے اور آہستہ آہستہ بہتری بھی آ رہی ہے لیکن معاشی استحکام اس وقت تک حاصل نہیں ہو گا جب تک کہ سیاسی ماحول پر سکون نہ ہو۔ حکومت کے لئے بہتر یہ ہے کہ احتساب کا معاملہ نیب اور دیگر اداروں پر چھوڑ دیا جائے اور ساری توجہ مثبت سیاسی اور معاشرتی بہتری کے کاموں پر صرف کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔