گلاب کی پنکھڑیوں کا حشر نشر

سعد اللہ جان برق  پير 22 اپريل 2019
barq@email.com

[email protected]

اس دن اتفاق بلکہ ’’سوئے اتفاق‘‘ ایک پاپی گانا بلکہ ’’سونگ‘‘ سننا پڑا۔ پاپی سنگنگ میں جو پاپ کی دنیا ہوتی ہے وہ ویسے بھی ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن اس گانے، سوری، سونگ یا آئٹم میں تو میر تقی میرؔ بچارے کا جو حشر نشر بلکہ عزت دری کی گئی تھی وہ  وہ مت ہی پوچھیے۔ میر ؔصاحب کا  ایک مصرعہ۔ ’’پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے‘‘ کو لے کر دوسرے مصرعے ’’ساری مستی شراب کی سی ہے‘‘ کے ساتھ ٹکڑا ٹکڑا دونوں کا جو بھرکس نکالا گیا تھا وہ الگ۔ لیکن گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں کو لے کر ہونٹوں اور گلاب کی پنکھڑیوں کی جو مٹی پلید کی گئی تھی وہ کلاشن کوف کے پورے راونڈ سے ’’داد‘‘ دینے کی قابل تھی۔ بچارے گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کے ساتھ ’’پاپی شاعری‘‘ جوڑ کر ایسا لگا جیسے سرعام ہونٹوں کو ریپ کیا جا رہا ہے۔

اچھا ہوا میرؔ صاحب بروقت دنیا سے سدھار گئے ہیں ورنہ اگر یہ پاپی سونگ سن لیتے اور اپنی تشبیہہ کی یہ درگت سنتے تو وہ ویسے بھی نہایت ہی تنک مزاج تھے، اپنے ہی دانتوں سے اپنے ہی ہونٹوں اور زبان کو چبا چبا کر لہولہان کر دیتے کہ کم بختو یہ مصرعہ تم نے نکالا ہی کیوں تھا۔ میرتقی میرؔ کی شاعری کی یہ ریپنگ دیکھ کر ہمیں بہت پہلے کا کسی کا لکھا ہوا جملہ یاد آیا۔ نام یاد نہیں ہے لیکن ان صاحب نے جو ہماری طرح سخن فہم بھی تھے اور غالبؔ کے طرف دار بھی، پہلے اس نے غالبؔ کو گانے والوں اور گانے والیوں کا تذکرہ کر کے یہ تفصیل بتائی کہ کے ایل سہگل سے فریدہ خانم اور اقبال بانو جیسی ماہر فن غزل سراؤں نے غالبؔ کی غزلیں گا کر نہ صرف غالبؔ شناسی کا حق ادا کر دیا تھا بلکہ خود بھی ان کی غزلوں سے شہرت دوام پائی ہے۔ اور پھر آخر میں یہ جملہ کہ ہماری دعا ہے کہ پاپیوں کی بری نظر غالبؔ پر نہ پڑے۔ اور یہ پڑھتے ہوئے ہمیں اس وقت بھی جھرجھری آئی اور میر تقی میرؔ کا یہ حشر نشر دیکھ کر نہ صرف جھرجھری آئی بلکہ جسم کے سارے رونگٹے بھی کھڑے ہو گئے اور سرتا پیر ایک سنسنی سی لہرانے لگی۔

اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو؟ اور یہ خطرہ اس لیے قریب نظر آیا کہ پاپی سنگر کسی شاعری یا عزت و حرمت تو ایک طرف ایسا کچھ بھی نہیں چھوڑتے جس سے ان کی دکان چلے۔ اب تک عشق و محبت اور حسن و لطافت سے لے کر وہ انسانیت کی ہر پاک چیز کو اپنے پاپوں کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ایسا کوئی پاک پوتر جذبہ احساس یا چیز ان سے نہیں بچ پائی ہے جیسے پاپ بنایا جا سکتا ہے۔ عام شاعری تو ایک طرف حمد و ثنا اور نعت و منقبت تک کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ بلکہ ری میکنگ کی نئی ایجاد سے تمام گانوں غزلوں اور گائیکی کا ریپ کر چکے ہیں۔ اور اگر ایک مرتبہ پھر خدا نہ کرے خدا نہ کرے اگر اپنے مرشد بھی پاپ کی زد میں آ گئے تو ان بچارے کا تو ککھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ ایک پاپی سنگنگ اور میوزک کے  مبصر نے ایک روز ہم سے پوچھا کہ آخر یہ پاپی آرام سے گاتے کیوں نہیں اور ہر گانے اور بجانے والا اتنا ’’ہلتا‘‘ کیوں ہے۔ بلکہ اگر صرف ہلتے تب بھی کوئی بات ہوتی لیکن یہ ایسے ہلتے ہیں کہ ہلنا بھی پاپ لگنے لگتا ہے۔

ایک پاپی گٹار بجاتا ہے تو گٹار کو لے کر چھ اطراف جو ہلنے کا مظاہرہ کرتا ہے  ایسا تو کسی بندر یا لنگور سے بھی نہیں ہو گا۔ پھر اچانک خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے بولا، غالباً یہ اس لیے کہ ان کو پتہ چل گیا ہو گا کہ ان کے پیشرو بقول ڈارون کون تھے۔ اور یہ اب اپنے ’’ ان‘‘ کو اسی طرح خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

پھر تھوڑا سا رکے اور سوچنے کے بعد اچانک قہقہہ مارتے ہوئے بولا ،اس دن میں نے ایک پاپی کو کھڑے ہو کر گٹار بجاتے ہوئے دیکھا، وہ اس طرح سے دہرا ہو کر پیچھے کی طرف خود کو کمان بنا کر اور اپنے پیٹ پر گٹار رکھ کر ہل رہا تھا جسے گٹار کو نہیں خود کو بجا رہا ہو۔ کمال کا ہنر ہے۔ آگے اور پیچھے اور اوپر نیچے ہونے میں اتنی مشاقی جیسے کسی نے ان کا سوئچ بجلی سے جوڑ دیا ہو۔ ہم نے اسے شانت کرنے کے لیے کہا، چھوڑ ، بزرگوں نے کہا ہے جس چیز پر بس نہ چلے ان کے بارے میں سوچا ہی نہ جائے۔ لیکن کم بخت نے پھر ہماری دکھتی رگ پر انگلی نہیں بلکہ پورا پنجہ رکھ کر کہا،ہاں ہمیں کیا لیکن سوچتا ہوں کہ اگر انھوں نے غالبؔ کو نشانہ بنا لیا تو۔ اور ہمارے دل و دماغ میں پھر وہی جھرجھریاں اور سنسنیاں دوڑنے لگیں، واقعی اگر ایسا ہوا تو؟ ہمیں یوں مبتلائے آزار کر کے اسے شاید احساس ہو گیا کہ شاید یہ دھیرا سا جھٹکا بہت زور سے لگا ہے۔ چنانچہ تسلی دیتے ہوئے بولا، فکر مت کرو، قیامت کو بھی تو ایک دن آنا ہی ہے اور ہمیں مرشد ہی کا فرمودہ یاد آیا کہ

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور؟

آنے والی قیامت سے توجہ ہٹاکر ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں اور گویا مرہم پٹی کے لیے ہم نے مرشد کے کلام کو گانے والوں اور گانے والیوں کا تذکرہ شروع کر دیا۔ وہ بولا، غالبؔ کی وہ والی غزل، مدت ہوئی یار کو مہماں کیے ہوئے،  اسے بہت سوں نے گایا ہے یہاں تک کہ گلزار نے اس کے ایک شعر کو لے کر کیاکیا مناظر تخلیق کیے ہیں۔ لیکن اسی غزل کو فریدہ خانم نے جیسا گایا۔ اور ’’کیے ہوئے‘‘ کو کھینچتے ہوئے وہ کن دنیاوں میں چلی جاتی ہے اس کا جواب نہیں۔

پھر ہماری طبیعت بحال ہوتے دیکھ کر وہ دھیرے سے مسکراتا ہوا بولا، بس ایک بات میری سمجھ میں نہیں کہ جوشؔؔ ملیح آبادی نے رقص کو اعضاء کی شاعری کہا ہے اور کوئی کلاسیکل رقص دیکھ کر اس کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے۔

اس پر ہم نے اسے بنگالی رقاصہ پاربتی کا ایک ریکارڈ شدہ رقص موبائل پر دکھایا جو ہم نے بھوپال میں ریکارڈ کیا۔ دیکھ کر بولا ،ہاں یہ اعضاء کی ایسی شاعری ہے اور ایسی زبان میں ہے جسے ہر زبان والے سمجھ بھی لیتے ہیں لیکن میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جو ڈانس یہ پاپی کرتے ہیں یہ کیا ہے؟

ہم نے کہا پیروڈی۔ اگر وہ اعضاء شاعری کر سکتے ہیں تو پیروڈی بھی کر سکتے ہیں، اس میں حیرانی کی کیا بات ہے۔ اور پیروڈی والے اصل شاعر سے زیادہ داد بھی پاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔