7 ارب ذہنوں میں پلنے والی آگ
بڑے بڑے دانشور اور خریدے ہوئے اکنامسٹ یہ کہتے ہیں کہ اب سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کا مقدر ہے۔
دنیا میں معاشی ناانصافی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی ناانصافیوں کے تدارک کے لیے دنیا کے ہر ملک میں ہزاروں عدالتیں کھلی ہوتی ہیں، لیکن دنیا کی سب سے بڑی ناانصافی معاشی عدم مساوات کے خلاف دنیا میں کوئی عدالت موجود نہیں، حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں بھی اس مرض کا کوئی علاج موجود نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس بدترین معاشی نا انصافی کے خلاف دنیا میں انصاف کا کوئی نظام کیوں نہیں؟ اس کا ایک سادہ سا جواب یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس قسم کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک نظام (فراڈ) قائم کیا گیا جس کا نام جمہوریت رکھا گیا۔
عوام کو بتایا گیا کہ اس نظام کو چلانے والے چونکہ عوام کے منتخب نمایندے ہوتے ہیں لہٰذا یہ عوام کے منتخب نمایندے قانون ساز اداروں میں جا کر معاشی ناانصافیوں کا ازالہ کریں گے۔ بہ ظاہر یہ تھیوری بہت درست معلوم ہوتی ہے لیکن اس کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے الیکشن سسٹم کا سب سے بڑا مکروہ پہلو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے الیکشن میں حصہ لینے والے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ یہ بھاری رقم عوام کو انصاف دلانے کے لیے نہیں بلکہ ایک کے اکیس بنانے کے لیے لڑے جاتے ہیں۔
یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں یہ واحد سرمایہ کاری ہے جو بہت کم عرصے میں لکھ پتی کو کروڑ پتی اور کروڑ پتی کو ارب پتی بنا دیتی ہے۔ جن منتخب نمایندوں کے سامنے ایک کے اکیس بنانے کا ٹاسک ہو انھیں بھلا عوام کے مسائل، معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کا خیال کیسے آ سکتا ہے؟ اس حقیقت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جمہوریت انتخابات سب فراڈ ہیں پسماندہ ملکوں ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سیاسی جماعتیں الیکشن کمپین کے لیے سرمایہ داروں سے بھاری فنڈنگ لیتے ہیں اور یہ فنڈنگ اللہ کے نام پر نہیں کی جاتی بلکہ ایک کے اکیس بنانے کے لیے کی جاتی ہے۔
کوئی الیکشن بھاری سرمائے کے بغیر نہیں لڑے جا سکتے اور یہ سرمایہ غریب طبقات، مزدور، کسان نہیں فراہم کرتے بلکہ وہ سرمایہ دار فراہم کرتے ہیں جن کا سرمایہ غریب طبقات کے استحصال سے بنایا جاتا ہے۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سرمایہ دار عوام کو لوٹ کر سرمایہ جمع کرتا ہے اور دوسرے بزنس کی طرح جمہوری بزنس میں سرمایہ لگا کر ایک کے اکیس واپس لیتا ہے۔
جو سیاست دان سرمایہ داروں سے فنڈ لے کر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں وہ دراصل بھاری سود پر قرض لیتے ہیں اور الیکشن جیت کر بڑے بڑے ٹھیکے اربوں روپوں کی مراعات الیکشن لڑنے والوں اور جیتنے والوں کو دیتے ہیں اور کمال یہ ہے کہ سرمایہ دار اتنا ذہین اور باخبر ہوتا ہے کہ اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس سیاسی ریس میں کون سے گھوڑے جیتیں گے۔ سرمایہ کاروں کا اندازہ عموماً درست ہوتا ہے اور جس گدھے پر وہ سرمایہ کاری کرتے ہیں اس سے ایک کے اکیس بنانے میں مدد لیتے ہیں۔
جمہوری نظام کسی للو پنجو کا ایجاد کردہ نہیں ہے بلکہ کروڑوں کے معاوضے پر دنیا کے بہترین دماغوں کا تیار کردہ نظام ہے اور اس قدر کامیاب اور شاطر نظام ہے کہ اس کے رکھوالے اس نظام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے یا والوں کو انتہائی صفائی کے ساتھ راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔
مارکس اور اینجلز دو ایسے دوست تھے جنھوں نے برسوں سرمایہ دارانہ نظام کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار کے اصل محرک ارتکاز زر یعنی دولت کے ارتکاز کا سسٹم نجی ملکیت پر پابندی لگا کر اصل محرک کا خاتمہ کر دیا۔ یہ دنیا کے غریب عوام کے لیے ایک رحمت تھی لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کو اندازہ تھا کہ اس نظام میں اگر ارتکاز زر کو ختم کر دیا جاتا ہے تو وہ اربوں کھربوں روپے سرمایہ داروں کے ہاتھوں سے نکل کر غریب عوام کی غربت دور کرنے کے کام آ سکتے ہیں۔ اس خوف نے انھیں اس قدر بے چین کر دیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے ملک روس کو طرح طرح سے گھیر کر آخر کار اس کو ناکام بنا دیا اور اس ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ دارانہ نظام اور مضبوط و مستحکم ہو گیا عوام پہلے سے زیادہ مشکلات کا شکار ہو گئے اور سرمایہ دار طبقے کی کمائی میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے دانشور اور خریدے ہوئے اکنامسٹ یہ کہتے ہیں کہ اب سرمایہ دارانہ نظام ہی دنیا کا مقدر ہے۔ اس نظریے کی حمایت سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہی نہیں لبرل دانشور، لبرل اکنامسٹ سب کر رہے ہیں کیونکہ ایک عیش عشرت کی زندگی میں اس قدر کشش ہے کہ لوگ اپنا ضمیر، اپنا دین دھرم سب بیچ دیتے ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کو اس قدر مستحکم کر دیا گیا ہے کہ اس کو ختم کرنا آسان نہیں رہا۔لیکن اس نظام کے چہرے نے دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ عوام کے ذہنوں میں اس نظام کے مظالم سے عوام کو اس قدر مشتعل کر دیا ہے کہ 7 ارب انسانوں کے ذہنوں میں اس نامنصفانہ نظام کے خلاف اتنی نفرت بھر دی ہے کہ اگر کوئی مارکس یا کوئی اینجلز آگے آکر 7 ارب انسانوں کے ذہنوں میں پلنے والے بارود کو چنگاری دکھا دے تو یہ نظام بھک سے اڑ جائے گا۔ انقلاب فرانس عوامی غیظ و غضب کا ایک ٹریلر تھا۔ اگر عوام کے ذہنوں میں پلنے والی نفرت کی آگ باہر نکل آئے تو نہ صرف اس نظام کو کھا جائے گی بلکہ اس کے رکھوالے بھی اس آگ میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔