سیاسی اخلاقیات

ہمارا حکمران طبقہ ان میچور ہے اسے یہ احساس تک نہیں کہ دشمنوں میں گھری ہوئی حکومت کو ہرقدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے۔


Zaheer Akhter Bedari June 04, 2019
[email protected]

دنیا بھر میں سیاستدان ہیں اور صدیوں سے سیاست کر رہے ہیں لیکن سیاست کے ساتھ شرافت اور تہذیب بھی ہوتی ہے، ہمارا ملک غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیاست میں شائستگی کا نام و نشان نہیں۔ خاص طور پر ہماری محترم اپوزیشن کے رویے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ محترم لوگ شرارت اور شائستگی کے نام سے واقف ہی نہیں۔

ملک کا وزیر اعظم خواہ اس کا تعلق کسی جماعت سے ہو اہل سیاست میں قابل احترام ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری اپوزیشن کا وزیر اعظم کے ساتھ رویہ اس قدر نازیبا ہے کہ یہ حضرات یہ بھی نہیں سوچتے کہ آج کی دنیا ایک گلوبل دنیا ہے یہاں اہل سیاست کی زبان سے نکلے ہوئے وولگر لفظ منٹوں میں ساری دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔

ہمارے اپوزیشن کے تیسرے درجے کے سیاستدان جب وزیر اعظم کو نالائق ، حکم کا غلام کہتے ہیں تو ان گھٹیا ریمارکس پر دنیا ہماری اخلاق باختگی پر حیران رہ جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں مستقبل قریب میں دو جماعتوں نے پانچ پانچ سال حکومت کی کسی اپوزیشن کی طرف سے ان حکمرانوں، صدر اور وزیر اعظم کو ان گھٹیا القاب سے نہیں نوازا گیا جن گھٹیا القابات سے موجودہ وزیر اعظم کو نوازا جا رہا ہے۔ یہ سب ہوا میں نہیں ہو رہا بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا ہے جس کا مقصد عوام میں وزیر اعظم کے امیج کو خراب کرنا ہے اس بدتمیزی کا جواب حکومت کی طرف سے اس گھٹیا پن سے نہیں دیا جا رہا ہے جس کی عوام توقع کر رہے تھے اسے ہم حکمرانوں کی منافقت کہہ سکتے ہیں۔

اپوزیشن میں سنجیدہ اور شریف لوگ موجود ہیں لیکن ان کی خاموشی کی دو وجوہات معلوم ہوتی ہیں۔ ایک بدزبان گروپ طاقتور ہے اور اس کے ڈر سے یہ حضرات خاموش ہیں۔دوسرے ذہنوں میں یہ خیال بھی موجود ہے کہ حکومت کے خلاف جو طوفانی مہم چل رہی ہے اگر اس کے نتیجے میں حکومت گر جاتی ہے تو ان حضرات کو بھی وزارت سفارت کے حصول کا موقع مل جائے گا، عوام کا اپوزیشن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کا احتمال اس لیے ہے کہ حکومت کی طرف سے اس طوفانی پروپیگنڈے کا اسی لیول پر جواب نہ دینا عوام میں غلط فہمیوں کا باعث بن رہا ہے۔ ہم یا کوئی سنجیدہ شخص ہرگز یہ نہیں چاہے گا کہ اپوزیشن جس سطح پر آکر پروپیگنڈا کر رہی ہے، حکومت بھی اسی سطح پر آکر اسی زبان میں جوابی پروپیگنڈا کرے لیکن حکومت اخلاق کے دائرے میں رہ کر بھی بعض اہم سوالوں کا جواب دے سکتی ہے۔

مثلاً آج حکومت کو آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑ رہا ہے، اپوزیشن حکومت کو بھکاری حکومت کہہ رہی ہے۔ حکومت ریکارڈ دیکھ کر بتا سکتی ہے کہ ماضی میں کس حکومت نے آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں سے کتنا قرض لیا تھا اور آج عوام کو جس مہنگائی کا سامنا ہے اس کی وجہ ماضی میں لیے جانے والے کھربوں کے قرض ہیں ۔ نئی حکومت نے 9 ماہ میں نہ کرپشن کا ارتکاب کیا نہ نااہلی کا ارتکاب کیا یہ جو آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی ہے یہ ماضی کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔

اشرافیہ کو خطرہ ہے کہ اگر حکومت کو دو تین سال مل گئے تو وہ اتنے ٹھوس کام کر جائے گی کہ عوام اس کا بھرپور ساتھ دیں گے پھر اشرافیہ کو سیاست سے سنیاس لینا پڑے گا۔ یہی وہ خطرہ ہے جس کے خوف سے اشرافیہ نے حکومت کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اٹھا لیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں بعض مواقعے ایسے آتے ہیں کہ اگر رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو قوم کا مقدر سنور جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

یہ تو ہوئی اشرافیہ کی بات اب ذرا حکومت کی طرف آئیے، ہمارا حکمران طبقہ ان میچور ہے اسے یہ احساس تک نہیں کہ دشمنوں میں گھری ہوئی حکومت کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے لیکن حکومت کا حال یہ ہے کہ اس نے پہلی کابینہ ہی متنازعہ بنائی جس کی وجہ بہت جلد پہلی کابینہ کو تبدیل کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کا کام تھا کہ وہ بہت احتیاط سے خوب چھان پھٹک کر کابینہ کا انتخاب کرتے۔ ہر حکومت میں وزیر خزانہ سب سے اہم وزیر ہوتا ہے لیکن ہمارے لائق وزیر اعظم نے پہلے وزیر خزانہ کو بہت جلد چلتا کر دیا جس کا اثر نہ صرف حکمران جماعت پر پڑا بلکہ عوام میں بھی بد دلی آئی۔

دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ حکمران پارٹی میں جو مضبوط اتحاد ہونا چاہیے تھا اس کا فقدان ہے وزرا کے درمیان چپقلش کا سلسلہ مسلسل جاری ہے جس کا عوام پر منفی اثر پڑنا لازمی ہے۔ عمران خان میں اتنا شعور اتنی پختگی تو ہے کہ وہ اچھے اور برے میں تمیز کرسکتے ہیں۔ ایسی حکومت جس کے چاروں طرف مخالفین تنقید کی تلواریں لیے کھڑے ہوں ایسی حکومت کو ہر اہم مسئلے پر غیر معمولی احتیاط کرنی پڑتی ہے اگر ایسا نہ کیا گیا تو اشرافیائی اپوزیشن بال کی کھال نکال کر رکھ دے گی۔

آج کل ''بڑے بڑے'' قلم کار انتہائی ماہرانہ انداز میں اشرافیہ کی ایسی حمایت کر رہے ہیں کہ اسے دیکھ کر ان کی فنکاری کو ماننا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں بڑے قلم کار بنے ہوئے نہیں ہوتے بنائے جاتے ہیں اور اس قدر ہوشیاری سے بنائے جاتے ہیں کہ خواص میں ان کی مقبولیت ایک لازمی عنصر ہوتی ہے قلم کی حرمت کوئی بچوں کا کھیل نہیں ''سب کچھ'' ٹھکرا کر انسان اس منزل پر پہنچتا ہے لیکن رائج الوقت صحافت میں خاموش پروپیگنڈا اور لابنگ کا بڑا دخل ہے۔ یہ دو حربے ایسے ہیں جن سے خاک کے دیوتا آگ کے دیوتا بن جاتے ہیں اور یہی ہمارے ملک میں ہو رہا ہے۔

مقبول خبریں