خون عطیہ کیجئے انسانی جان بچائیے
اگر آپ کے خون سے کسی کی جان بچتی ہے تو جب تک اس انسان کی رگوں میں آپ کا خون دوڑتا رہے گا آپ کو ثواب ملتا رہے گا
14 جون کو بلڈ بینک جاٸیں اور خون کا عطیہ دیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
رگوں میں دوڑتے خون سے انسانی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ یہ احساس شدت سے اس وقت ہوتا ہے جب کسی بیماری یا حادثے کی صورت میں ہمارے کسی پیارے کو اچانک خون کی ضرورت پڑجائے۔ ایسے میں رضاکارانہ خون عطیہ کرنے والے افراد کا کردار کسی فرشتے سے کم نہیں، جو کسی نفع، نقصان اور رشتے کے بغیر اپنا خون دے کر ایک انسانی زندگی کو بچاتے ہیں۔ کسی بیمار کو خون دینا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں عطیہ خون کا عالمی دن ہر سال 14 جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا اصل مقصد عوام میں خون کے عطیہ کرنے کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ یہ دن منانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ خون عطیہ کرنے والوں کا اس دن کے موقع پر شکریہ ادا کیا جائے اور ان کا حوصلہ بڑھایا جائے تاکہ آئندہ بھی وہ یہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام دیں۔
عطیہ کیے گئے خون کی بدولت ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔ زندگی اور موت کی کیفیت میں مبتلا مریضوں کے لیے خون کی منتقلی کے عمل سے جینے کی ایک نئی امید پیدا ہوتی ہے، اور زندگی سے مایوس مریض خون کی منتقلی کے بعد پہلے سے زیادہ صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن ابھی بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں صحت مند اور محفوظ خون کی شدید کمی ہے اور ضرورت کے وقت محفوظ خون کا انتظام کرنا انتہائی مشکل ہے۔
ایک طرف پاکستان زکوٰۃ، عطیات اور خیرات دینے والے ممالک میں سرفہرست ہے، جبکہ دوسری طرف پاکستان ان ممالک میں بھی شامل ہے جہاں باقاعدگی سے رضاکارانہ طور پر مفت خون کا عطیہ دینے کی شرح صرف دس فیصد ہے۔ ضرورت پڑنے پر یا تو خون خریدا جاتا ہے یا رشتے داروں سے لیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال پینتیس لاکھ خون کے عطیات اکٹھے کیے جاتے ہیں، جن میں نوے فیصد رشتے داروں سے اور صرف دس فیصد مفت رضاکاروں سے لیے جاتے ہیں۔ جبکہ ملک کی آبادی کا ستر فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 75 فیصد اسپتالوں میں خون کی منتقلی کے حوالے سے کمیٹیاں موجود نہیں ہیں۔ خون کو اسکریننگ کیے بغیر ہی منتقل کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اے، بی، سی جیسی بیماریوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔
ان حالات میں ملک میں خون کے عطیات کی اہمیت کو اجاگر کرنے، معیاری اور محفوظ خون اکٹھا کرنے، اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق محفوظ کرنے اور ضرورت مندوں کو بروقت خون مہیا کرنے کے حوالے سے کئ ادارے کام کررہے ہیں۔ لیکن آج کل ہمیں ایک اور بات اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم خون کا عطیہ خود دیں۔ یہ امر عجب ہے کہ لوگ چاہتے ہیں ان کے عزیز و اقارب کےلیے کوئی باہر کا شخص آکر خون کا عطیہ دے اور وہ صرف بیمار کی عیادت کریں۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے خاندان سے ڈونر تلاش کریں، ان سے خون کا عطیہ دلوائیں اور خدانخواستہ خون کی ضرورت زیادہ ہے تو پھر مختلف تنظیموں سے خون کے عطیہ کےلیے رابطہ کریں۔
ہماری ستر فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور اگر ہم ان میں خون دینے کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ملک میں ایک بھی موت خون کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہیں ہوگی۔
میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ خون عطیہ کرنے کے فوائد کے حوالے سے یونیورسٹیوں اور کالجز میں ہر سال سیمینار منعقد کروائے۔ ریگولر بلڈ ڈونرز کو یونیورسٹی اور کالجز میں ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے۔ ٹیلی ویژن اور اخبار میں ان کے انٹرویو دکھائے اور چھاپے جائیں۔ دفاتر میں آگہی مہم کے حوالے سے پمفلٹ تقسیم کیے جائیں۔ دفاتر میں ہر چھ ماہ بعد بلڈ ڈونر کے نام سے ورکشاپ منعقد کی جائے۔ ملک کی سیاسی، سماجی اور فلمی دنیا کے لوگوں کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا جائے اور ساتھ ساتھ دینی مدرسوں میں خون عطیہ کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کےلیے تمام فقہوں کے علما اور مشائخ کو اعتماد میں لیا جائے۔
پاکستان میں عطیہ خون کی رضاکارانہ شرح روزبروز کم ہورہی ہے، جس کےلیے ضروری ہے کہ لوگوں کو ہمیشہ یہ آگاہی دلائی جائے کہ خون عطیہ کرنے میں ایک صحت مند شخص کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ لوگوں میں یہ احساس اجاگر کیا جائے کہ خون خریدنا مریض کےلیے کسی فائدے کے بجائے کسی نقصان کا باعث نہ بنے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایک صحتمند بالغ مرد ایک سال میں 4 مرتبہ، جب کہ عورت 3 مرتبہ عطیہ دے سکتی ہے۔ جس کا کوئی نقصان نہیں فائدے بے شمار ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ خون کا عطیہ جسم کےلیے بے حد فائدہ مند بھی ہے؟ ایک تحقیق کے مطابق خون کا عطیہ کرنے سے دوران خون یعنی خون کی رفتار کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، جس کی وجہ سے شریانوں میں خون نہیں جمتا، جو کے مختلف امراض جیسے ہارٹ اٹیک، فالج اور کینسر جیسی بیماریوں کے خطرات میں 80 فیصد تک کمی کردیتا ہے۔
خون عطیہ کرنے سے قبل ہر فرد کا طبی چیک اپ لازمی ہوتا ہے، جس میں جسمانی درجہ حرارت، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور ہیموگلوبین کی سطح کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اسی طرح خون اکھٹا کیے جانے کے بعد خون کے مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ جانا جاسکے کہ وہ خطرناک مرض سے آلودہ تو نہیں۔ جس سے لوگوں کو بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
صحت مند بالغ افراد کے جسم میں پانچ گرام آئرن کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ جن میں سے بیشتر خون کے سرخ خلیات میں ہوتی ہے۔ جب خون عطیہ کیا جاتا ہے تو جسم میں آئرن کی کمی ہوتی ہے، جو کہ عطیہ کیے جانے کے بعد خوراک سے دوبارہ بن جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق آئرن کی سطح میں اس طرح کی تبدیلی صحت کےلیے بہتر ہوتی ہے، کیونکہ اس جز کی بہت زیادہ مقدار خون کی شریانوں کےلیے نقصان دہ ہوتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ کرنے والے افراد میں مختلف امراض سے موت کا خطرہ کم ہوجاتا ہے اور اوسط عمر میں چار سال تک کا اضافہ ہوتا ہے۔
میری اپنے تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ 14 جون کو بلڈ بینک جاٸیں اور خون کا عطیہ دیں۔ کیونکہ آپ کے ایک خون کی بوتل سے 3 انسانی جانیں بچتی ہیں۔ جس نے ایک انسان کی جان بچاٸی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچاٸی۔ اگر آپ کے خون سے کسی ایک انسان کی جان بچتی ہے تو جب تک اس انسان کی رگوں میں آپ کا خون دوڑتا رہے گا آپ کو ثواب ملتا رہے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔