تعلیم وتربیت کے اعلیٰ معیار کا طلسم پاش پاش؛ ایلیٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کا مہا فراڈ

سید عاصم محمود  اتوار 30 جون 2019
دنیا کی اکلوتی سپر پاور میں  امرا دولت کے بل پہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقوں سے اپنے بچوں کو نامی گرامی درس گاہوں میں داخل کرانے لگے…انکشاف انگیز داستان

دنیا کی اکلوتی سپر پاور میں  امرا دولت کے بل پہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریقوں سے اپنے بچوں کو نامی گرامی درس گاہوں میں داخل کرانے لگے…انکشاف انگیز داستان

’’پیسہ بعض چیزیں خرید سکتا ہے۔ مگرچھوٹی چھوٹی باتیں ہی انسان کی زندگی کو پُرلطف اور خوشگوار بناتی ہیں۔‘‘
( سباسٹین ویٹل‘ ورلڈ چمپئن فار مولا ون ریس)

٭٭

چھپن سالہ فلیسٹی ہوفمین جانی پہچانی امریکی اداکارہ ہے۔ 2006ء میں فلم ’’ٹرانز امریکا‘‘ (Transamerica) میں بہترین اداکاری کا مظاہرہ کرنے پر آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی ۔ تاہم اسے بین الاقوامی شہرت ٹی وی ڈرامہ سریز ’’Desperate Housewives  ‘‘سے ملی جو 2004ء تا2012ء جاری رہی۔ فلیسٹی نے 1997ء میں اداکار ولیم ہوفمین میکے سے شادی کی تھی۔ وہ دو بیٹیوں کی ماں ہے۔

اواخر 2016ء میں فلیسٹی کی بڑی بیٹی صوفیہ نے SATامتحان دیا تاکہ اسے اپنے وطن کی کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ مل سکے۔ مگر امتحان میں صوفیہ کے اچھے نمبر نہیں آئے۔ یوں وہ کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے محروم رہی۔ جبکہ فلیسٹی ہوفمین کی شدید خواہش تھی کہ اس کی بیٹی ’’آئیوی لیگ‘‘ (Ivy League)میں شامل کسی یونیورسٹی ہی میں تعلیم پائے۔ (امریکا میں سات ایلیٹ یونیورسٹیوں یعنی براؤن ‘ کولمبیا‘ کورنیل‘ ہارورڈ‘ پنسلوانیا‘ پرنسٹن ‘ ئیل اور ڈراٹماؤتھ کالج کا مجموعہ آئیوی لیگ کہلاتا ہے۔یہ امریکا ہی نہیں دنیا بھر میں بہترین یونیورسٹیاں تسلیم کی جاتی ہیں)اگلے سال دسمبر 2017ء میں صوفیہ نے دوبارہ  SATامتحان دیا۔ اس بار صوفیہ کے کل 1600میں سے 1420 نمبر آئے۔ یہ پہلے امتحان کے مقابلے میں 400 نمبر زیادہ تھے۔ یوں اب صوفیہ اب امریکا کی کسی ایلیٹ یونیورسٹی مثلاً کولمبیا یا کورنیل میں داخلہ لینے کی اہل ہو گئی۔ ظاہر ہے، نتیجہ دیکھ کر صوفیہ اور اس کے والدین بہت خوش ہوئے ہوں گے۔ صوفیہ اور اس کے امی ابا نے نے بڑے فخر اور مسرت  سے نتیجہ رشتے داروں اور دوستوں کو دکھایا ہو گا۔

یہ ساری خوشی مگر مارچ 2019ء کے دوسرے ہفتے خاک میں مل گئی۔ 12مارچ کو امریکی تحقیقاتی ایجنسی ،ایف بی آئی کے اہل کاروں اور سرکاری وکلا  نے انکشاف کیا کہ دسمبر 2017ء میں صوفیہ فلیسٹی کے ممتحن(طالبہ کی نگرانی کرنے والے)نے بعد ازاں اس کے غلط جواب درست کر دئیے تھے۔اس غیر قانونی عمل کے باعث صوفیہ چار سو نمبر زیادہ لینے میں کامیاب رہی۔فراڈ  اور دھوکے بازی کا یہ سارا حیرت انگیز ڈراما سوچا سمجھا تھا۔دراصل جب SATامتحان میں صوفیہ کے نمبر کم آئے‘ تو اس کی ماں کو شدید دھچکا لگا۔ اسے محسوس ہوا کہ اب صوفیہ کسی ایلیٹ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکتی۔ مگر یہ بات فلیسٹی کو گوارا نہ تھی… وہ اپنا ’’اسٹیٹس سمبل‘‘ ہر صورت بلند تر رکھنا چاہتی تھی۔ فلیٹی کو دوست احباب سے یہ سننا ہرگز پسند نہ تھا کہ افسوس‘ اس کی بیٹی کسی آئیوی لیگ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکی۔ معاشرے میں اپنا اسٹیٹس سمبل برقرار رکھنے کی خاطر ہی فلیسٹی نے پھر غیر قانونی اور غیر اخلاقی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

اوائل 2018میں اسے ایک دوست نے بتایا کہ ولیم رک سنگر نامی آدمی اس کی بیٹی کے SATاسکور میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ یہ آدمی ’’دی ایج کالج اینڈ کیرئر نیٹ ورک‘‘ (The Edge College & Career Network) نامی کمپنی چلا رہا تھا۔ دوست کے مشورے پر فلیسٹی نے ولیم سنگر سے رابطہ کر لیا۔ولیم دھوکے باز‘ چالاک‘ شاطر اور کرپٹ آدمی تھا۔ لچھے دار گفتگو کرنے کے فن سے واقف تھا ۔ باتوں باتوں میں دوسرے کو سبز باغ دکھا کر اپنے جال میں پھانس لیتا۔ سادہ لوح مرد وزن اس کی باتوں پر اعتبار کر لیتے اور یوں ولیم کے پھندے میں پھنس جاتے۔

یہ فراڈی آدمی دراصل ایک بشری انسانی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا تھا… یہ کہ بعض اوقات انسان مال و دولت حاصل کرنے کے لیے غلط کام انجام دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ڈالروں کی خیرہ کن چمک بہت سے انسانوں کو کرپشن کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔ اسی چمک سے مدد لے کر ولیم سنگر نے نہایت عیاری و چالاکی سے اپنا کرپٹ نظام کھڑا کر لیا اور سالانہ خوب کمائی کرنے لگا۔دولت کمانے کا ایک شیطانی طریقہ اس کے ہاتھ لگ گیا۔

ولیم سنگر کا طریق واردات یہ تھا کہ وہ امیر والدین سے بھاری رقم لیتا تھا تاکہ ان کے بچوں کو امتحان میں اچھے نمبر دلوا سکے یا پھر مطلوبہ یونیورسٹی میں ان کا داخلہ ہو جائے۔کامیابی حاصل کرنے کی خاطر ولیم نے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جن کی بدولت اسے کامیابیاں بھی ملیں۔ انہی کامیابیوں نے ولیم سنگر کو امریکا ہی نہیں بیرون ممالک بھی ایسے دولت مند والدین کا منظور نظر بنا دیا جو ’’ہر قیمت پر‘‘ اپنے بچوں کا داخلہ کسی ایلیٹ امریکی یونیورسٹی میں کرانا چاہتے تھے۔ یوں وہ اپنے حلقہ احباب میں اپنا اسٹیٹس سمبل بلند کرنے کے متمنی تھے۔ ان امرا کی یہی ازحد تمنا ولیم سنگر کے لیے خوب کمائی کرنے کا ذریعہ بن گئی۔

2011ء میں ولیم سنگر نے اپنی کمپنی کی بنیاد رکھی اور اپنے ’’کام‘‘ کا آغاز کر دیا۔ وہ SATاور ACT امتحانات سے منسلک اساتذہ اور انتظامیہ کے افسروں سے تعلقات بڑھانے لگا۔ اسی دوران آئیوی لیگ میں شامل یونیورسٹیوں کی سپورٹس ٹیموں کے کوچوں سے بھی وہ د وستی کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے انہیں قیمتی تحائف دیئے اور یوں اپنے قریب لے آیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے فراڈی نظام کی بنیاد رکھ سکے۔ انسان کے لالچ اور حد سے بڑھی تمناؤں کے باعث یہ کرپٹ نظام پھلنے پھولنے لگا اور چھ سال تک امریکی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا رہا۔

ولیم سنگر نے فلیسٹی کو بتایا تھا کہ SAT امتحان کے بعد صوفیہ کا ممتحن اس کے غلط جوابات درست کردے گا۔ یوں وہ اتنے نمبر ضرو حاصل کرلیتی کہ کسی آئیوی لیگ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکے۔  ہوفمین جوڑے نے ولیم سنگر کا یہ منصوبہ منظور کرلیا۔ بدلے میں انہوں نے ولیم کو پندرہ ہزار ڈالر ادا کیے۔اس فراڈیئے نے ’’کی ورلڈ وائڈ فاؤنڈیشن‘‘(Key Worldwide Foundation) کے نام سے ایک سماجی تنظیم بنارکھی تھی۔ بظاہر یہ تنظیم غریب و نادار طلبہ کی مالی امداد کرتی تھی تاکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات برداشت کرسکیں۔ مگر یہ ایک پردہ اور دھوکے کی ٹٹی تھی۔ ولیم سنگر نے یہ سماجی تنظیم اس لیے بنائی تھی تاکہ کرپشن سے حاصل کردہ رقم کو پوشیدہ رکھا جاسکے۔ والدین جب اس کا کوئی منصوبہ قبول کرلیتے، تو وہ مطلوبہ رقم کی فاؤنڈیشن کو چندہ دے کر ادا کرتے تھے۔ چونکہ امریکی قانون کی رو سے چندے کی رقم ٹیکس نیٹ میں نہیں آتی لہٰذا وہ حکومتی ریڈار میں نہ آپاتی۔اس چال سے ولیم نے کروڑوں ڈالر جمع کر لیے۔

فلیسٹی نے بھی پندرہ ہزار ڈالر فاؤنڈیشن ہی کو ادا کیے۔ ولیم سنگر پھر ایسے ممتحن کا بندوبست کرنے لگا جو SAT امتحان میں فلیسٹی کی بیٹی کے غلط جوابات درست کرسکے۔ اوائل میں صوفیہ کا سینٹر ہالی وڈ شہر میں ایسی جگہ پڑا جس کے ممتحن نے ولیم سنگر کے ساتھ ’’تعاون‘‘ کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا صوفیہ نے دوبارہ امتحان کے لیے درخواست دی۔ اس بار ولیم سنگر نے نئے سینٹر کے ممتحن کو چند ہزار ڈالر دے کر اپنے چنگل میں پھانس لیا۔ چناں چہ صوفیہ امتحان دے چکی، تو ممتحن نے اس کے سبھی غلط جوابات درست کردیئے۔ یوں وہ 1420 نمبر لینے میں کامیاب رہی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ فلیسٹی ہوفمین اپنی دوسری بیٹی کو بھی SAT امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس کرانا چاہتی تھی۔ چناں چہ وہ ایک ریکارڈ شدہ گفتگو میں ولیم سنگر سے کہتی ہے کہ میری چھوٹی بیٹی کے لیے بھی کسی اچھے ممتحن کا بندوبست کرو۔ ولیم اسے بتاتا ہے کہ بہتر ہے، یہ منصوبہ ترک کردیا جائے کیونکہ فلیسٹی کی چھوٹی کھلنڈری بیٹی نے بھی 1400 سے زیادہ نمبر لیے تو لوگوں کو شک ہوسکتا تھا کہ وہ فراڈ سے کام لے رہی ہے۔ غور و فکر کے بعد فلیسٹی نے یہ منصوبہ ترک کردیا۔

جب مکروفریب پر مبنی ولیم سنگر کے دھندے کا پردہ چاک ہوا تو اس کے علاوہ فلیسٹی بھی گرفتار ہوگئی۔ اسے ڈھائی لاکھ ڈالر زرضمانت جمع کرنے پر رہائی ملی۔ 13 مئی کو فلیسٹی نے عدالت میں فراڈ سے امتحان میں اپنی بیٹی کو کامیاب کرانے کا جرم تسلیم کرلیا۔ اس نے آنکھوں میں آنسو لیے عدالت کو بتایا ’’میں اپنے جرم کا اقرار کرتی ہوں۔ مجھے اپنے کیے پر شدید شرمندگی ہے۔ یہ سوچ کر بھی بہت شرمندہ ہوں کہ میری وجہ سے بیٹی، خاندان، دوستوں اور معاشرے کو تکلیف پہنچی۔ میں ان سے معافی مانگتی ہوں۔ میں ان طلبہ سے بھی معذرت کی طلبگار ہوں جو امتحان میں کامیاب ہونے کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں اور ان والدین سے بھی جو اپنے بچوں کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بے انتہا قربانیاں دیتے ہیں۔ اور وہ بھی کامل دیانت داری سے۔‘‘یہ کریڈٹ بہرحال فلیسٹی ہفمین کوملنا چاہیے کہ اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا۔ اداکارہ نے اپنے گناہ کو درست ثابت کرنے کی خاطر تاویلیں نہیں گھڑیں اور نہ ہی الٹے سیدھے دلائل سامنے لائی۔ عدالت 13 ستمبر 2019ء کو اسے سزا سنائے گی۔ خیال ہے کہ امریکی اداکارہ کو چار سے دس ماہ تک کے لیے جیل جانا پڑے گا۔

معیار کا طلسم پاش پاش

جب ایک بچہ دنیا میں قدم رکھے، تو اس کے والدین کی فطرتاًیہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ خوب پڑھ لکھ کر نام کمائے۔ اپنا اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کرے۔ پاکستان میں صاحب حیثیت والدین کوشش کرتے ہیں کہ ان کا بچہ اعلیٰ تعلیم پانے امریکا یا برطانیہ کی کسی یونیورسٹی کا رخ کرے۔ یوں اس کی زندگی سنور جائے گی۔ ان کی سوچ ایسی غلط بھی نہیں کہ آج دنیا کی 25 بہترین یونیورسٹیوں میں سے بیشتر امریکا یا برطانیہ میں واقع ہیں۔پاکستان اور دیگر ممالک میں یہ خیال عام ہے کہ امریکی و برطانوی یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم بہت بلند ہے اور یہ کہ وہاں صرف اہل، محنتی، ذہین اور قابل طلبہ و طالبات ہی کو داخلہ مل پاتا ہے۔ لیکن امریکا میں سامنے آنے والے حالیہ اسیکنڈل نے کم از کم امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم و تربیت کے اعلیٰ و ارفع معیار کا طلسم پاش پاش کردیا۔ اسیکنڈل سے یہ لرزہ خیز حقیقت آشکار ہوئی کہ نامی گرامی یونیورسٹیوں میں  انتظامیہ کے افسر، اساتذہ، کوچ وغیرہ بھاری رشوت لے کر بعض اوقات نالائق، غبی اور نااہل طلبہ و طالبات کو بھی داخلہ دے دیتے ہیں۔

امریکہ کی بیشتر یونیورسٹیاں کئی سو سال پرانی ہیں۔ اس دوران ان کے گرد تقدس کا ہالہ پیدا ہوگیا۔ یہ سمجھا جانے لگا کہ جس لڑکے لڑکی کو وہاں داخلہ مل گیا، اس کی تو زندگی سنور گئی۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت اسے کامل انسان بنا دیتی ہے۔ لیکن  اسیکنڈل کے باعث یہ ہالہ بھی خاک میں مل گیا۔ اس سے واضح ہوا کہ آج امریکا کی اعلیٰ و عام یونیورسٹیوں میں جو لاکھوں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں، ضروری نہیں کہ وہ سبھی محنتی، ذہین، فطین اور قابل ہوں۔ یہ عین ممکن ہے کہ ہزارہا لڑکے لڑکیوں کو امیر والدین نے دولت کے بل بوتے پر داخلہ کرایا ہو۔ مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں سرخرو ہوجائیں اور یہ ڈینگیں مار سکیں کہ ان کا بچہ تو فلاں نامی گرامی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔

اہل پاکستان کو احساس ہونا چاہیے کہ اب امریکا اور برطانیہ کی یونیورسٹیاں اعتماد کے قابل نہیں رہیں۔ خود سوچئے کہ جن یونیورسٹیوں میں روپے کی طاقت سے ایک ناکام طالب علم کو بھی داخلہ مل جائے، تو وہاں اعلیٰ معیار تعلیم رائج ہونے کا دعویٰ محض ڈھکوسلا اور لاف زنی ہے۔ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم بلند کرنے کے ٹھوس اقدامات کرے۔ اس طرح پاکستانی طلبہ و طالبات کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے اور پڑھائی کے لیے خوار نہیں ہونا پڑے گا۔

امریکا کے مشہور روزنامے، نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تمام ایلیٹ امریکی یونیورسٹیوں میں اب داخلے کا نظام مال و دولت کی بنیاد رکھتا ہے۔ مادہ پرستی ان یونیورسٹیوں پر اس حد تک چھاچکی کہ جو امریکی انہیں بھاری چندہ دے، وہ کسی بھی وقت اپنی اولاد کو داخلہ دلوا سکتا ہے۔ بہترین سمجھی جانے والی یہ یونیورسٹیاں اب غریب طلبہ و طالبات کی پہنچ سے باہر ہوچکیں چاہے وہ کتنے ہی قابل اور ذہین فطین ہوں!ایلیٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کے اسیکنڈل نے عالمی سطح پر امریکا کے مقام کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ بیرون ممالک یہی سمجھا جاتا ہے کہ امریکی اصول اور اخلاقیات پر بھی عمل کرنے والے انسان ہیں۔ لیکن اسیکنڈل نے آشکارا کردیا کہ امریکی معاشرے کا مقتدر طبقہ اپنے مفادات کی خاطر قانون و اخلاق کو پیروں تلے روندنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ اس اسیکنڈل سے ان امریکی یونیورسٹیوں کا عالمی وقار اور ڈگریوں کی وقعت بھی کم ہوگئی جنہیں اعلیٰ معیاری تعلیم کی حامل درس گاہیں سمجھا جاتا تھا۔اسی بات کو مدنظر رکھ کر امریکی میڈیا نے اسکینڈل کو  نمایاں کرنے سے گریز کیا۔یہ پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں جنم لیتا تو مغربی میڈیا اسے خوب اچھالتا اور عالم اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا۔

کوچ فراڈیا بن گیا

لگتا ہے کہ ولیم سنگر ہالی وڈ میں معروف شخصیت تھا کیونکہ اس نے ایک اور مشہور اداکارہ، لوری لوگلین(Lori Loughlin) کو اپنے جال میں پھانس لیا۔ لوری کو ٹی وی ڈرامہ سیریز ’’فل ہاؤس‘‘(Full House) سے بین الاقوامی شہرت ملی۔ اس کا شوہر، موسیمو گنالوی مشہور فیشن ڈیزائنر ہے۔ ان کی دو جڑواں بیٹیاں ہیں، ازبیلا اور اولویا۔ لوری اپنی بیٹیوں کو یونیورسٹی آف ساوتھرن کیلی فورنیا میں داخل کرانا چاہتی تھی، اسی لیے ولیم سنگر کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ولیم سنگر نے امیر جوڑے کو بتایا کہ سپورٹس کی بنیاد پر ان کی بیٹیوں کا ایلیٹ یونیورسٹی میں داخلہ ہوسکتا ہے مگر مال بہت خرچ ہوگا۔ لوری اور موسیمو نے ہامی بھرلی۔ چناں چہ ولیم سنگر نے یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا میں سینئر ایسوسی ایٹ ایتھلیٹک ڈائرکٹر، ڈونا ہینی سے رابطہ کرلیا۔

امریکا میں ہر یونیورسٹی مختلف کھیلوں کی ٹیمیں رکھتی ہے۔ شعبہ کھیل سے منسلک ڈائریکٹر، کوچ اور دیگر عملہ مل کر ہر ٹیم کے کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ڈونا ہینی نے ولیم سنگر کو بتایا کہ دونوں لڑکیاں یونیورسٹی کی کشتی رانی ٹیم کا حصہ بن سکتی ہیں۔ وہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کو ازبیلا اور اولویا کے نام بھجوا دیتی۔ ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کی سفارش پھر تسلیم کرلی جاتی۔ ڈونا نے یہ سفارش کرنے کے لیے ایک لاکھ ڈالر طلب کیے۔ لوری نے یہ رقم اسے بھجوادی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ازبیلا اور اولویا ابھی تک کشتی میں نہیں بیٹھی تھیں، کشتی رانی کرنا تو دور کی بات ہے۔ لیکن ولیم سنگر نے داخلے سے متعلق ہر قسم کی جعلی دستاویز بناکر انہیں تجربے کار اور ماہر کشتی راں بنا دیا۔ اس نے دونوں لڑکیوں کو کشتی رانوں کا لباس پہنا کر مختلف کشتیوں کے ساتھ ان کی تصاویر اتروائیں۔ مقابلوں میں حصہ لینے کے جعلی سرٹیفکیٹ بھی تیار کیے۔ غرض فراڈ و دھوکہ دہی کا ہر وہ کام کیا جس کے ذریعے دونوں لڑکیاں کشتی راں ٹیم میں شامل ہوکر یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلیفورنیا میں داخل ہوجائیں۔

ولیم سنگر کی بھاگ دوڑ رنگ لائی اور لوری کی بچیوں کو مطلوبہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ یوں لوری کے من کی مراد پوری ہوگئی۔ اب وہ اپنے حلقے میں سر اٹھا کر چل سکتی تھی۔ اپنی تمنا پوری کرنے کی خوشی میں اس نے ولیم سنگر کو چار لاکھ ڈالر کی خطیر رقم اد کر دی۔ لوری اور اس کے شوہر کو اندازہ نہیں تھا کہ انہوں نے ایک انتہائی غلط کام کیا ہے اور جلد وہ مکافات عمل کا ایسا عبرت ناک نشانہ بنیں گے کہ ان کے سر شرم سے جھک جائیں گے۔ 13 مارچ کو امریکی تحقیقاتی ادارے، ایف بی آئی نے فراڈ کرنے پر انہیں گرفتار کرلیا۔ عدالت میں دس دس لاکھ ڈالر کے مچلکے جمع کرانے پر انہیں رہائی ملی مگر وہ امریکا سے باہر نہیں جاسکتے۔ لوری اور موسیمو نے جرم کا اقرار نہیں کیا۔ گویا ان پر مقدمہ چلے گا۔ اگر وہ مجرم ثابت ہوئے تو انہیں دو سے بیس سال کے مابین سزائے قید ہوسکتی ہے۔ وجہ یہ کہ ایف بی آر نے ان پر منی لانڈرنگ کا چارج بھی ٹھونک دیا۔

دولت کا ہتھیار

امریکی تحقیقاتی ایجنسیاں بارہ مارچ کو یہ اسکینڈل سامنے لائی تھیں۔ تب سے 50 افراد ملزم قرار دیئے جاچکے اور ان پر مقدمے چلیں گے۔ ان میں سے 33  والدین ہیں اور بقیہ یونیورسٹیوں کے کوچ، عہدے دار اور SAT و ACT کے ممتحن و اساتذہ وغیرہ۔ تاہم اسکینڈل کے مرکزی کردار ولیم سنگر کا دعویٰ ہے کہ 2011ء سے وہ ایک ہزار سے زائد والدین کے بچوںکو فراڈ و دھوکا دہی کے ذریعے امریکا کی مختلف یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوا چکا۔یہ والدین امریکا ہی نہیں بیرون ممالک مثلاً چین سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔

امریکی یونیورسٹیوں میں بذریعہ فراڈ داخلے کا یہ اسیکنڈل نہایت خوفناک اور بھیانک ہے۔ یہ آشکار کرتا ہے کہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں اعلیٰ تعلیم (ہائیر ایجوکیشن) کا نظام لالچ و ہوس سے لتھڑا ہے۔ اس نظام میں اب پیسہ، اثرورسوخ، جھوٹی شان و شوکت، نفع وغیرہ اہمیت رکھتے ہیں۔ محنت، لیاقت، ذہانت اور علم و دانش کی خوبیاں پس پشت چلی گئی ہیں۔یہ ہمیں بتاتا ہے کہ آج امریکا میں جس شہری کے پاس پیسہ ہے، وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر نالائق اور نااہل بچوں کو بھی اعلیٰ ترین یونیورسٹی میں داخلہ دلوا سکتا ہے۔ گویا امریکی دولت مند اعلیٰ تعلیمی نظام میں میرٹ اور دیانت داری کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔ یہی نہیں، اگر کوئی غیر ملکی لاکھوں ڈالر دینے پر تیار ہوجائے، تو امریکی یونیورسٹیاں اس کے بچوں کو بھی داخلہ دے دیتی ہیں۔

اس اسکینڈل نے ایلیٹ امریکی یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم بھی مشکوک اور مشتبہ بنادیا۔ جب کوئی بھی پیسے والا دھوکے بازی سے ان یونیورسٹیوں میں اپنے بچے داخل کراسکتا ہے، تو پھر ان کا معیار تعلیم اعلیٰ کہاں رہا؟ اسکینڈل تو یہی آشکارا کرتا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کو میرٹ نہیں ڈالر یا تعلقات کی بنیاد پر داخلہ ملتا ہے۔یہ نہایت افسوس ناک اور تکلیف دہ صورتحال ہے۔ ایک طرف وہ طلبہ و طالبات ہیں جو سارا سال محنت سے پڑھتے اور راتوں کو جاگ کر تیاری کرتے ہیں تاکہ امتحانات میں اچھے نمبر لے سکیں۔ دوسری سمت امرا کی اولادیں ہیں جن کے غلط جوابات خود ممتحن درست کردیتے ہیں۔ وہ پھر داخلہ لینے میں باآسانی کامیاب رہتے ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیاں سیٹیں پُر ہو جانے کی وجہ سے ان بچوں کو دھتکار دیتی ہیں جو سارا سال محنت کرتے ہیں تاکہ کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ والدین اپنی تمناؤں کا گلا گھونٹ کر بچوں کی مدد کرتے ہیں کہ وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام پاسکیں۔ لیکن حالیہ اسکینڈل افشا کرتا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں میں نظام داخلہ محنتی بچوں اور ان کے والدین سے زیادتی کررہا ہے۔ درحقیقت یہ نظام ان پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

یہی وجہ ہے، امریکا کے طلبہ و طالبات اور والدین سکینڈل میں ملوث یونیورسٹیوں کے خلاف مقدمے کھڑے کررہے ہیں۔جنیفر لیزی اوک لینڈ کی رہائشی ہے۔ اس نے کیلی فورنیا کی ہائی کورٹ میں ولیم سنگر، ملوث تمام والدین اور یورنیورسٹیوں پر مقدمہ قائم کرتے ہوئے ان سے بطور ہرجانہ ’’پانچ سو ارب ڈالر‘‘ طلب کیے ہیں۔ جنیفر کاجوشوا نامی بیٹا ہے۔ اس نے 2017ء میں ہائی سکول پاس کیا، تو بہت اچھے نمبر لیے۔ مگر بھرپور سعی کے باوجود اسے کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ نہیں مل سکا۔ ماں بیٹا یہی سمجھے کہ مقابلہ بہت سخت تھا، اس لیے انہیں ناکامی ہوئی۔

اب جنیفر اور جوشوا کو معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹیوں میں داخلے کا طریق کار منصفانہ اور میرٹ پر مبنی نہیں تھا۔ دولت مند والدین انتظامیہ کے افسروں کی ملی بھگت سے اپنے بچوں کو انہی یونیورسٹیوں میں داخل کرنے میں کامیاب رہے جنہوں نے جوشوا کو داخلہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ گویا تمام ملزمان نے اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ طاقت یا پیسے والے ہیں، اس لیے انہیں جھوٹ بولنے، دھوکہ دینے، فراڈ کرنے اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کا حق حاصل ہوگیا۔اسی طرح سٹانفورڈ یونیورسٹی کی دو طالبات، اریکا اور کائلہ نے ایڈمیشن اسیکنڈل میں ملوث یونیورسٹیوں کو ہائی کورٹ میں گھسیٹ لیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ فراڈ، بے پروائی اور دھوکہ دہی میں ملوث ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اسیکنڈل کی وجہ سے ان کی ڈگریوں کا مقام و مرتبہ کم ہوچکا۔

دس کروڑ روپے کا خرچ

ایف بی آر کو یونیورسٹیوں کے داخلے میں وسیع پیمانے پر فراڈ کی سن گن اپریل 2018ء میں ملی۔ تب امریکی تحقیقاتی ایجنسی لاس اینجلس کے ایک کاروباری، موری ٹوبن سے سٹاک مارکیٹ میں فراڈ کرنے پر پوچھ گچھ کررہی تھی۔ موری ٹوبن نے ایف بی آر والوں کا اعتماد حاصل کرنے کی خاطر انہیں اطلاع دی کہ ئیل(Yale) یونیورسٹی میں خواتین فٹ بال ٹیم کے کوچ، رڈلف رڈی میرلیڈتھ نے اس سے لاکھوں ڈالر کی  رشوت لی ہے۔ موری ٹوبن اپنی چھوٹی بہن کو ئیل میں داخل کرنا چاہتا تھا۔رڈلف میرلیڈتھ کا کہنا تھا کہ وہ موری ٹوبن کی بیٹی کو ’’بہترین فٹ بالر‘‘ قرار دے کر یونیورسٹی ٹیم میں شامل کروا لے گا… حالانکہ لڑکی نے ساری زندگی فٹ بال نہیں کھیلا تھا۔ رڈلف کا کہا درست ثابت ہوا اور لڑکی ئیل یونیورسٹی کی فٹ بال ٹیم کا حصہ بن گئی۔موری ٹوبن پھر رڈلف کو اقساط میں رشوت کی رقم ادا کرنے لگا۔ جب ایف بی آئی کی ٹیم اس تک پہنچی، وہ ڈھائی لاکھ ڈالر رڈلف کو ادا کرچکا تھا۔

اس وقت تک رشوت کی قطعی رقم طے نہیں ہوئی تھی۔ ایف بی آئی کی ہدایت پر موری ٹوبن خفیہ کیمرا پہن کر 12 اپریل 2018ء کو رڈلف میرلیڈتھ سے ملا۔ اسی ملاقات میں رڈلف نے اپنے گاہک کو بتایا کہ ولیم سنگر نے ساڑھے چار لاکھ ڈالر کی فائنل رقم بتائی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایف بی آئی نے ولیم سنگر کا نام سنا۔ وہ پھر اس کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے لگی۔ جلد ہی انہیں ولیم سنگر کے فراڈی نظام کے متعلق خاطر خواہ معلومات حاصل ہوگئیں۔بیشتر مجرموں کی طرح ولیم سنگر بھی بزدل ثابت ہوا۔ اس نے فوراً اپنا جرم تسلیم کرلیا۔ وہ پھر ایف بی آئی کو ان والدین کے متعلق بنانے لگا جن کی اولادوں کو اس نے غیر قانونی انداز سے یونیورسٹیوں میں داخل کرایا تھا۔ ان والدین میں مشہور کاروباری، صنعت کار، اداکار وغیرہ شامل تھے۔ ایف بی آئی گیارہ ماہ تک کیس کی تحقیقات کرتی رہی پھر ملزمان کے خلاف عدالت میں مقدمات دائر کردیئے گئے۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ 2017ء میں چین میں ایک بڑی ادویہ ساز کمپنی کے کھرب پتی مالک، زاؤ تاؤ نے سٹانفورڈ یونیورسٹی میں اپنی بیٹی، یوسی کا داخلہ کرانے کی خاطر ساڑھے چھ لاکھ ڈالر (دس کروڑ روپے) خرچ کیے تھے۔ یہ اس سیکنڈل کی سب سے بڑی رقم ہے۔ولیم سنگر نے زاؤ تاؤ کو بتایا تھا کہ اگر وہ سٹانفورڈ یونیورسٹی میں کشتی رانی ٹیم کو پانچ لاکھ عطیہ کردے، تو اس کی بیٹی ٹیم میں شامل ہوسکتی ہے۔ چناں چہ چینی والد نے مطلوبہ رقم عطیہ کردی۔ نیز ولیم سنگر کو بھی ڈیڑھ لاکھ ڈالر ادا کیے۔ یہ ولیم کی خدمات کا صلہ تھا۔ دلچسپ بات یہ  کہ جب یوسی زاؤ کا سٹانفورڈ یونیورٹی میں داخلہ ہوگیا، تو اس نے یوٹیوب میں اپنی ایک ویڈیو جاری کردی۔ اس میں وہ بڑے فخر و خوشی سے کہتی نظر آتی ہے:

’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دولت مند ہونے کے ناتے سٹانفورڈ میں میرا داخلہ ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میری سخت محنت کا نتیجہ ہے۔‘‘

لیکن بعدازاں افشا ہوا کہ دنیا کی ایک ایلیٹ یونیورسٹی میں داخلہ اس کے باپ کی دولت کا چمتکار تھا ورنہ اس میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ سٹانفورڈ جیسی درس گاہ میں داخلہ لے پاتی۔غرض پوری دنیا میں دولت مند طبقے کی خودغرضی اور معاشرے میں اسٹیٹس سمبل قائم رکھنے کی ہوس نے امریکا ہی نہیں برطانیہ،کینیڈا،آسٹریلیا وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں بھی داخلے کے نظام پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔لوگ اب سوچنے لگے ہیں کہ کیا ان ملکوں کی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بھی زرکثیر لے کر کند ذہن اور نالائق طلبہ و طالبات کو داخلہ دے دیتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق امیر طبقات سے ہوتا ہے؟ممکن ہے ،بعض غبی طلبہ رقم دے کر ڈگریاں بھی حاصل کر لیتے ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔