آسٹریلیا کا نظام پاکستان میں رائج نہ کریں، پروفیسر اعجاز فاروقی

 اتوار 21 جولائی 2019
ہمیں اپنی آبادی اور کرکٹ کے شوق سے ایڈوانٹیج لینا چاہیے، سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ۔ فوٹو : فائل

ہمیں اپنی آبادی اور کرکٹ کے شوق سے ایڈوانٹیج لینا چاہیے، سابق رکن پی سی بی گورننگ بورڈ۔ فوٹو : فائل

آسٹریلیا کا نظام پاکستان میں رائج کرنا ہماری کرکٹ کے ساتھ ناانصافی ہوگی، دونوں ممالک کا موازنہ ممکن نہیں۔

آسٹریلیا کی آبادی 2 سے ڈھائی کروڑ جبکہ ہماری22 کروڑ ہے، ہمارے یہاں کرکٹ کا ٹیلنٹ اور شوق بہت زیادہ ہے، غریب ہوں یا امیر سب اس کھیل میں یکساں دلچسپی لیتے ہیں، دیگر تمام کھیلوں کو اگر ملائیں تو وہ جتنا ہوتے ہیں اس سے 10 گنا زیادہ کرکٹ کا انعقاد ہوتا ہے، دوسری جانب آسٹریلیا کو دیکھیں تو وہاں 20 کھیلوں کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے اور ان میں کرکٹ بھی شامل ہے، یوں دونوں ممالک میں اس کھیل کی اہمیت کا موازنہ کرنا درست نہیں۔

ہمیں اپنی آبادی اور کرکٹ کے شوق سے ایڈوانٹیج لینا چاہیے، ماضی میں ایک سسٹم چل رہا تھا جس میں ڈپارٹمنٹس کی پیٹرنز ٹرافی اور ریجنز کیلئے قائد اعظم ٹرافی کا انعقاد ہوتا، ہمیں اس کو دوبارہ لاگو کرنا چاہیے، ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو بْرا کہنے والے یہ یاد رکھیں کہ ہم نے1992میں عمران خان کی زیرقیادت ورلڈ کپ اسی دور میں جیتا،1999میں فائنل تک پہنچے،2009میں یونس خان کی کپتانی میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹائٹل حاصل کیا۔

ماضی میں ٹیم کو انڈر19چیمپئن بنوانے والے سرفراز احمد نے 2017میں بطور قائد چیمپئنز ٹرافی بھی پاکستان کے نام کی، ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم ماضی میں کرکٹ کی بڑی قوت ہوا کرتی تھی، ابتدائی دونوں ورلڈکپ اسی نے جیتے، مگر ان کا ڈومیسٹک سسٹم خراب تھا جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ کرکٹ زوال پذیر ہوتی گئی، اب ان کا حال یہ ہے کہ اس ورلڈکپ میں صرف ایک فتح حاصل ہوئی۔ بنگلہ دیش کا سسٹم آہستہ آہستہ مضبوط ہونے لگا جس کے اثرات ٹیم کی کارکردگی میں بھی نظر آ رہے ہیں۔

ہمیں بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسروں کی اندھی تقلید سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، اگر نئے سسٹم میں مسائل ہوئے تو واپس آنا بہت مشکل کام ہوگا، ڈپارٹمنٹس سے کرکٹ ٹیمیں بنانے کی درخواست بورڈ کے سابق سربراہ عبدالحفیظ کاردار نے کی تھی، وہ کرکٹ کی خدمت کیلئے آگے آئے اور پلیئرز کو ملازمتیں دیں، اس سرپرستی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہزار سے زیادہ کھلاڑی ڈپارٹمنس کا حصہ بنے، کوئی نوجوان کرکٹر روزگارکی تلاش میں مارا مارا نہیں پھرتا،موجودہ سسٹم کے تحت ریجنز میں انڈر16، انڈر19 کرکٹ اور دیگر ایونٹس ہوتے ہیں، ان میں اچھا پرفارم کرنے والے کسی کھلاڑی کا کھیل چھپ نہیں پاتا۔

اسے ڈپارٹمنٹس میں ملازمت مل جاتی ہے، یوں وہ روزگارکی فکر میں پڑے بغیراپنے کھیل پر توجہ دیتا ہے، یوں ملک کو نیا ٹیلنٹ حاصل ہوتا اور وہ مستقبل میں قومی ٹیم کی بھی خدمت کرتا، مگر اب شاید ایسا نہ ہو پائے،ہماری بدقسمتی ہے کہ 10 سال سے کوئی ٹیم مکمل سیریز کھیلنے کیلئے یہاں نہیں آئی، ہر کھلاڑی کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے ملک میں ہم وطنوں کے سامنے اچھا کھیل پیش کرے،یہ اس کے لیے ذہنی سکون کا باعث بھی بنتا ہے، مگر افسوس کئی برسوں سے وہ اس خوشی سے محروم ہیں، یو اے ای میں کھیلنے میں اپنے ملک جیسا لطف نہیں آتا، اب اگر ڈپارٹمنس بھی بند جائیں گے تو کھلاڑیوں کی پذیرائی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی۔

آخر میں کچھ ورلڈکپ کی بات بھی کر لیتے ہیں، ٹیم کے سیمی فائنل میں نہ پہنچنے کی بڑی وجہ فیلڈنگ ہے، صرف جنوبی افریقہ سے میچ میں 8کیچز چھوڑے گئے مجھے تو حیرت ہے اس کے باوجود ہم وہ میچ جیت گئے،پورے ایونٹ میں فیلڈنگ اور جسمانی فٹنس پر سوالیہ نشان لگے نظر آئے،مجموعی طور پر17 کیچز چھوڑے گئے، معلوم نہیں کوچ کیا کر رہے تھے، انھوں نے اس خامی کو سنجیدگی سے نہ لیا۔

مجھے یاد ہے کہ چیمپئنز ٹرافی سے پہلے ایبٹ آباد میں قومی ٹیم کا کیمپ لگا، جہاں تربیت حاصل کر کے کھلاڑی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی مکمل فٹ ہو گئے، پلیئرز نے ڈائیوز لگائیں، اس کا نتیجہ ٹائٹل فتح کی صورت میں سامنے آیا، ورلڈکپ سے پہلے بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا،انگلینڈ جانے سے پہلے کیمپ لگاتے تاکہ فٹنس کے مسائل ختم ہوتے،ٹیم میں ٹیلنٹ موجود ہے صرف فٹنس کو اہمیت دینا ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔