ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردی

ایڈیٹوریل  منگل 23 جولائی 2019
ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات اور اس میں قیمتی جانوں کا ضیاع افسوسناک ہے۔ فوٹو: فائل

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات اور اس میں قیمتی جانوں کا ضیاع افسوسناک ہے۔ فوٹو: فائل

صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں گزشتہ روز پولیس چیک پوسٹ پر فائرنگ اور بعدازاں سول اسپتال میں خود کش دھماکے سے 6پولیس اہلکاروں سمیت 9افراد شہید اور 28زخمی ہوگئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)نے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اسے اپنے ایک ساتھی کی ہلاکت کا بدلہ قرار دیا۔

بم ڈسپوزل ذرایع کے مطابق اس دھماکے میں 8سے 10کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان، وزیرداخلہ اعجازشاہ، وزیرخارجہ شاہ محمود‘ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور اپوزیشن رہنماؤں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد اور پرعزم ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کو ہرممکن سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے ۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی دہشت گردی کی واردات اور اس میں قیمتی جانوں کا ضیاع افسوسناک ہے۔ اس واردات کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے اور تمام کڑیوں کو آپس میں ملایا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے یہ حملہ انتہائی منصوبہ بندی سے کیا‘ پہلے انھوں نے پولیس چوکی کو نشانہ بنایا جس میں دو اہلکار شہید ہو گئے جب ان شہداء کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ٹیچنگ اسپتال ڈیرہ اسماعیل خان میں منتقل کیا گیا تو وہاں دیگر پولیس افسران و اہلکاروں کے علاوہ شہید اہلکاروں کے رشتے دار اور دیگر مریض بھی موجود تھے کہ اس دوران اسپتال کے ٹراما سینٹر کے باہر مبینہ خود کش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس سے مزید جانی نقصان ہوا۔ ڈی پی او ڈیرہ اسماعیل خان اور عینی شاہدین کے مطابق دھماکا خود کش حملہ آور لڑکی نے کیا جب کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بیان کے مطابق حملہ آور خاتون نہیں ایک مرد تھا۔

بہرحال اس بات کا پتہ تو تحقیقات کے بعد ہی چلے گا تاہم دہشت گرد اپنی بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے عارضی طور پر خوف و ہراس پھیلانے میں تو کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اب تک تمام تر کارروائیوں کے باوجود وہ ریاستی اداروں کو کمزور کرنے کی اپنی سازشوں میں کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ پرعزم ہیں اور کسی بھی صورت وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے‘ افواج پاکستان اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن ان کے عزم میں کوئی فرق نہیں آیا۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کردیے گئے ہیں اور اب ان کی طاقت میں بہت حد تک کمی آچکی ہے۔قبائلی علاقے ان کے ظلم سے نجات پا چکے ہیں اور وہاں الیکشن ہوچکے ہیں۔

دہشت گردوں نے ملکی سالمیت کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن سیکیورٹی اہلکاروں کے غیرمتزلزل عزم اور جرات نے ان کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا۔ خیبرپختونخوا میں ایک عرصے سے دہشت گردی کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی آ چکی تھی جس سے وہاں کے شہریوں نے سکھ کا سانس لیا‘ اب ایک بار پھر دہشت گردی کی حالیہ واردات اس امرکی غماز ہے کہ وطن دشمن قوتیں ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے نتیجے میں دہشت گردوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا‘ ان کے محفوظ ٹھکانے ختم ہو گئے اور وہ مختلف علاقوں میں روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔

بلوچستان تو ایک عرصے سے دہشت گردوں کا نشانہ بنا ہوا ہے وہاں آئے دن دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی واردات رونما ہوتی رہتی ہے۔ تمام تر کوششوں اور قربانیوں کے باوجود دہشت گردوں کی باقیات کا وجود اس امر کا عکاس ہے کہ چند غیرملکی قوتیں پاکستان میں اپنی مذموم کارروائیوں کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانا اور ریاستی اداروں کو کمزور کرنا چاہتی ہیں‘ اپنے اس گھناؤنے کھیل میں انھیں چند مقامی قوتوں کی مدد حاصل ہے‘ ان مقامی قوتوں تک پہنچنا آسان امر نہیں کیونکہ یہ بے چہرہ اور بے شناخت قوتیں معاشرے میں رچ بس گئی ہیں۔

دہشت گردوں کو بااثر مقامی سہولت کاروں کی مدد بھی حاصل ہے اس لیے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو جیتنے کے لیے مقامی سہولت کاروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانا پڑے گا۔ یہ تو کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی درندگی کی انتہا ہے اور اسے آہنی ہاتھوں سے دفن کرنے کے علاوہ اور کوئی علاج نہیں لیکن تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود دہشت گردی کا سانپ مکمل طور پر کچلا نہیں جا سکا، اور یہ وقفے وقفے سے سر اٹھاتا رہتا ہے۔

اس لیے اس کا سر مکمل طور پر کچلنے کے لیے علمائے کرام‘ ادبا اور مقامی سطح پر شہریوں کا تعاون ناگزیر ہے۔ دہشت گردوں کے حمایتیوں کو شکست دینے کے لیے نظریاتی محاذ پر بھی متحرک ہونا پڑے گا کیونکہ بعض مذہبی قوتوں کے نظریات بھی دہشت گردوں کی تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ایک طویل اور صبر آزما چومکھی لڑائی ہے جسے اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے کئی محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔