یومِ سیاہ اور یومِ تشکرساتھ ساتھ

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 26 جولائی 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ابھی تو ہماری سیاسی و سماجی فضائیں جناب عمران خان کے دَورئہ امریکا کی خبروں سے گونج رہی ہیں۔ ویسے تو ہمارے ہر وزیر اعظم اور صدر کا دَورئہ امریکا ہمیشہ کامیاب ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ یوں خانصاحب کا دَورہ بھی کامیاب ہی رہا ہے۔

اس کامیاب دَورے سے وطنِ عزیز کے حصے میں اصل کامیابیاں کب آئیں گی اور یہ کامیابیاں کتنی اور کس نوعیت کی ہوں گی، یہ نتائج ہنوز پردئہ غیب میں ہیں ۔ان مبینہ کامیابیوں کے عوض ہمارے تبدیلی والے حکمرانوں کو کون کون سے امریکی مطالبات پورا کرنا ہوں گے، ابھی یہ بھی پردئہ اخفا میں ہے ۔

مسرت کی بات بہر حال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کو واشنگٹن میں گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔ وائیٹ ہاؤس میں خانصاحب کو صدرِ امریکا نے جس اسلوب میں جی آئیاں نُوں کہا، اُن کے ساتھ بیٹھ کر خوش دلی سے مشترکہ پریس کانفرنس کی ، اپنے سرکاری گھر میں کھانا پیش کیا، انھیں چند امریکی ارکانِ کانگریس سے خطاب کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا، ان مظاہر سے ہمارے دل باغ باغ ہیں ۔جناب عمران خان نے ممتاز امریکی ( اور نیم سرکاری ) تھنک ٹینک ( USIP)میں بیٹھ کر متعدد اور متنوع موضوعات پر مشتمل مشکل سوالات کے جس سہل انداز میں جوابات دیے ہیں ، ان کی بازگشت ہمارے میڈیا میں سنائی دے رہی ہے ۔ بجا طور پر اُمیدیں وابستہ کی گئی ہیں کہ پاک، امریکا تعلقات میں مطلوبہ حد تک بہتری آئے گی ۔

وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ امریکا گئے سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی پنٹاگان میں(انگریزی محاورے کے مطابق) کھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہا گیا ہے ۔ جنرل صاحب کو 21توپوں کی سلامی دی گئی۔ امریکی جرنیل نے اُن کا ذاتی حیثیت میں استقبال کیا۔ اجتماعی طور پر یہ دَورہ خوش کن اور دلفریب ہے ۔ جناب عمران خان کے جرأتمندانہ بیان کی تحسین کی جارہی ہے کہ انھوں نے امریکیوں کے منہ پر کہا ہے کہ مجھے امریکی ایڈ کی نہیں ، امریکی دوستی کی ضرورت ہے۔ اچھی بات ہے لیکن ’’امریکی دوستی‘‘ کا مفہوم کیا ہے، اسے بیان نہیں کیا جارہا ۔ ہمارے ایک سابق صدر ، فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان، نے بھی خالص امریکی دوستی کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

اس وفور میں ایک کتاب بھی لکھی ڈالی :Friends, Not Masters ۔صدر ایوب خان نے لکھا کہ ہمیں امریکیوں سے اُس امدادکی ضرورت نہیں ہے جس کی پرواز میں کوتاہی آتی ہو ۔ پھر ہُوا کیا، یہ سب تاریخ ہے ۔ یہ وہی صدر ایوب ہیں جنھوں نے سب سے پہلے پاکستان کو آئی ایم ایف کی بھٹّی میں جھونکا تھا۔مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح متنبہ کرتی رہ گئیں لیکن کسی نے سُنا ہی نہیں ۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک کتاب(In The Line of Fire) لکھ کر امریکیوں سے خالص دوستی کی تمنا کی تھی لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا، وہ بھی تاریخ ہے۔اب جناب عمران خان نے بھی امریکی ایڈکے بجائے خالص امریکی دوستی حاصل کرنے کی خواہش کی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے !

جناب عمران خان مبینہ کامیاب امریکی دَورے سے واپس وطنِ عزیز پہنچے ہیں تو25جولائی2018کے انتخابات کی یاد میں اپوزیشن کو ’’یومِ سیاہ‘‘ مناتے دیکھ رہے ہیں۔ اُن کی غیر موجودگی میں اپوزیشن کے ایک دھڑے (نون لیگ) کی لیڈر مریم نواز شریف نے فیصل آباد میں اپنے تئیں کامیاب احتجاجی جلسہ کیا۔ مریم نواز کو مگر مزاحمتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اب حضرت مولانا فضل الرحمن بھی اپنی رہبر کمیٹیوں میں 25جولائی کی یاد میں ’’یومِ سیاہ‘‘ مناتے دکھائی دیے ہیں۔ انھوں نے ’’یوم سیاہ‘‘ منانے کے لیے پشاور شہر کو اپنی جولانگاہ بنایا۔

مولانا موصوف کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کو رنج ہے کہ پچھلے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات میں اُن سے ’’انصاف‘‘ نہیں ہُوا تھا اور ’’نہ ہی ان میں شفافیت ‘‘ تھی۔ متحدہ اپوزیشن کو یہ کہنے اور احتجاجی یوم منانے کا پورا آئینی حق ہے ۔اپوزیشن میں مگر ذہنی ارتکاز پیدا ہورہا ہے نہ صحیح معنوں میں اتحادی روح نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی واضح ہدف ۔ جناب عمران خان نے واشنگٹن کے ’’ کیپٹل ایرینا اسٹیڈیم‘‘ میں پاکستان نژاد امریکیوں کے زبردست اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا فضل الرحمن پر جو پھبتی کسی ہے، یہ مولانا صاحب کو مزید ناراض کر گئی ہے ۔

یوں مولانا صاحب کی زیر قیادت متحدہ اپوزیشن نے ایک خاص جذبے سے ’’یوم ِ سیاہ‘‘ منایا ہے۔ مولانا صاحب کو 25 جولائی 2018کی اپنی انتخابی شکست اذیت دے رہی ہے اور نون لیگ و پیپلز پارٹی کو اپنے اپنے لیڈروں کی گرفتاریاں زچ کررہی ہیں ۔ اپوزیشن محسوس کررہی ہے کہ حکومتی گرفت روز بروز تنگ سے تنگ تر  ہورہی ہے ۔ شائد اِسی کارن بلاول بھٹو زرداری صاحب کا لہجہ بھی نرم پڑ رہا ہے ؛ چنانچہ گزشتہ روز موصوف نے کہا ’’: ہم عالمی سطح پر( عمران خان کی ) حکومت کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہیں ۔ ‘‘او ریہ بھی کہ ’’عمران خان کے روئیے کے باوجود ہمیں وسیع تر قومی مفاد کو مدِ نظر رکھنا ہوگا۔‘‘

پیپلز پارٹی کے ایک اور لیڈر، سینیٹر مولا بخش چانڈیو، نے بھی کہا ہے: ’’وزیر اعظم عمران خان کے دَورئہ امریکا پر تنقید درست نہیں ہے۔‘‘ ان بیانات میں آزمائشوںکے بوجھ تلے دبی اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے لیے نرمی اور مفاہمت کا عنصر دیکھا جا سکتاہے۔ پھر کہاں کا (حکومت کے خلاف) متحدہ اپوزیشن کا یوم ِ سیاہ؟ تو کیا محترمہ مریم نواز شریف دن بدن تنہا ہو رہی ہیں؟

اپوزیشن نے اگر مقدور بھر ’’یومِ سیاہ‘‘ منایا ہے تو مقتدر پی ٹی آئی نے’’یومِ تشکر‘‘ منایا ہے ۔ پی ٹی آئی کو شکرانے کے نوافل ادا کرنے بھی چاہئیں کہ ٹھیک ایک سال قبل 25جولائی کا یہی وہ یومِ مسعود تھا جس روز عمران خان اور اُن کی پارٹی کے سر پر فتح اور اقتدار کا تاج سجایا گیا تھا۔ عوام نے ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ محبت سے پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈالے ۔

سوال مگر یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے محبت اور عشق کرنے والے عوام کو کیا ملا؟ کوئی ریلیف ، کوئی آسانی؟ ممکن ہو تو پی ٹی آئی والے کسی روز ’’یومِ تفکر‘‘ بھی منائیں ۔ عوام کی فکر کا دن !! یہ کہنا بھی مگر ضروری ہے کہ تمام معاشی تنگیوں اور مالی قیامتوں کے باوجود اپوزیشن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ 25جولائی 2018 کے عام انتخابات ’’ڈھونگ‘‘ اور ’’دھاندلی‘‘قرار دیے جائیں ۔

ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ پچھلی چند دہائیوں کے دوران جب بھی پاکستان میں انتخابات ہُوئے، سب پر رگنگ کی تہمت لگی۔ پچھلے سال کے انتخابات بھی( اپوزیشن اور ہارنے والوں کی طرف سے) اس دشنام اور الزام سے نہ بچ سکے ۔حالانکہ’’ کامن ویلتھ آبزرور گروپ‘‘ نے ان انتخابات کو شفاف قرار دیا تھا۔ پاکستان کے دو معتبر اور غیر سرکاری اداروں ( فافن اور پلڈاٹ) نے بھی ان انتخابات میں کسی منظم دھاندلی کے بروئے کار آنے کی نفی کی تھی ۔ حتیٰ کہ بھارت کے سابق چیف الیکشن کمشنر، شہاب الدین یعقوب، نے بھی ’’کامن ویلتھ آبزرور گروپ‘‘ کے رکن کی حیثیت میں پاکستان آکر ان انتخابات  کا جائزہ لیا تھا اور انھوں نے بھی کسی بھی قسم کی دھاندلی کیے جانے کی تردید کی تھی۔

ان سب حقائق کے باوصف متحدہ اپوزیشن کا یومِ سیاہ منانا عجب ہے۔ اور اب وہ 25جولائی کے انتخابات کے خلاف کوئی قرطاسِ ابیض جاری کرکے اپنے متعینہ مقاصد حاصل کرنے کے ارادے رکھتی ہے تو یہ شوق بھی پورا کر لینا چاہیے ۔مگر حکومت اور اپوزیشن یاد رکھے کہ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔ حکومت بھی کامیاب امریکی دَورے پر جشن ضرور منائے لیکن مسائل کی صلیب پر لٹکے عوام کو بھی یاد رکھے !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔