اچھے رشتے کی تلاش، رکاوٹ کون؟

مناظر علی  ہفتہ 3 اگست 2019
ضروری ہے کہ رشتوں کے انتخاب سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ضروری ہے کہ رشتوں کے انتخاب سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس دور میں ویسے تو معاشرے کے بے شمار مسائل ہیں۔ ہر فرد، ہر خاندان، ہر طبقے اور ہر خطے کے باسیوں کے مسائل کی نوعیت اور وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن کنواروں کو رشتہ ازدواج سے منسلک کرنے کا کام ایک مشکل مرحلہ ہے۔ کنوارہ لڑکا ہو یا پھر لڑکی، دونوں کے ہی والدین اور سربراہ اچھے رشتے کی عدم دستیابی سے فکرمند نظر آتے ہیں۔ جب کہا جاتا ہے کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں تو پھر زمین کے مکین اتنے زیادہ پریشان کیوں ہیں؟ اگر یہ فیصلے ہمارے بس میں ہی نہیں تو پھر پریشانی کیسی؟

اہل علم کا ماننا ہے کہ آسمان پر لوح محفوظ میں ہمارا رشتہ بھی لکھا ہوا ہے، جیسا کہ ہماری تقدیر۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے ہی یہ بات ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کیا کیا کرنے والا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کے بس میں کچھ نہیں۔ انسان کو شعور دیا گیا ہے، جسے استعمال کرکے وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرتا ہے۔ اگر یہ فیصلے غلط ہوجائیں اور ان کے نتیجے میں پریشانی ہو تو اس کا ذمے دار کسی صورت بھی قدرت کو نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ معاملہ جو بھی ہو، یہ جوان اولاد کے والدین سے بڑھ کر کوئی محسوس نہیں کرسکتا، خاص طور پر وہ والدین جن کے گھروں میں بیٹیاں اس وجہ سے بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہورہی ہیں کہ مناسب رشتہ نہیں مل رہا۔

کچھ لوگوں کے مسائل ان کے اپنے ہی پیدا کیے ہوتے ہیں اور کچھ میں قصور دوسروں کا کہہ سکتے ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست اس وقت چالیس سال کے قریب ہیں اور ابھی تک شادی کا لڈو اُن کے نصیب میں نہیں ہوسکا۔ حالانکہ میں انہیں سمجھانے کی کئی بار کوشش کرچکا ہوں، ایک دو رشتہ کرانے والوں کی خدمات بھی حاصل کیں، مگر ابتدائی معلومات کے بعد ہی محترم کنوارے صاحب نے کورا انکار کردیا۔ ابھی تک بغیر استری شرٹ پہننا، گھر سے بھوکے آفس جانا اور یہ سوچ کر کہ کون دیکھے گا، شیو نہ کرنا جناب کی عادت ہے۔ موصوف کہتے ہیں کہ ان کے کچھ زیادہ مطالبات نہیں، صرف ایک چھوٹا سا مطالبہ ہے کہ لڑکی ایسی ہوکہ میں بس دیکھتا ہی رہ جاؤں۔ حسن کی دیوی ہو یا پھر چاند کا ٹکڑا۔ جیسا کہ شعرا کسی تصوراتی دنیا میں جاکر صنف نازک کے حسن کی تصویرکشی کرتے ہیں، قریب قریب یہ بھی ایسی ہی لڑکی کی تلاش میں ہیں۔ ہماری خواہش تو ہے کہ کوئی چہرہ انہیں بھا جائے اور وہ اکلاپے سے نکل کر زندگی کا نیا سفر شروع کرسکیں، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ ڈر بھی ہے کہ اگر وہ اس مطالبے میں تھوڑی لچک نہیں دکھائیں گے تو شاید یہ خواہش ناتمام ہی رہے گی۔

لڑکوں کی جانب سے اکثریت کی خواہش لڑکی میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم، اچھا خاندان، مال ودولت والے سسرال، جہاں سے انہیں جہیز میں کم ازکم ایک گاڑی تو مل ہی جائے، اگر پلاٹ یا گھر مل جائے تو بھی اچھی بات ہے، فرنیچر اور کراکری تو ویسے ہی لوگ بیٹیوں کو دے دیتے ہیں۔ بعض اوقات لڑکا یہ خواہش نہ بھی کرے تو اس کے خاندان کو اپنی برادری میں ناک رکھنے کےلیے جہیز میں ’بہت کچھ‘ کی ڈیمانڈ کرنا پڑتی ہے، جو معاشرے کی انتہائی شرمناک سوچ ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں اکثر لڑکیوں کے رشتے میں دیر ہوجاتی ہے۔ یا تو والدین کو ایسے رشتے ملتے نہیں جو ایسی ڈیمانڈ نہیں کرتے یا پھر والدین ایسے خاندانوں کی ڈیمانڈز پوری کرنے کے چکر میں پیسہ جمع کرتے کرتے اپنی بیٹی کو بوڑھی کر بیٹھتے ہیں۔ جس میں ظاہر ہے کہ قصور ڈیمانڈ کرنے والوں کا ہے۔ نہ لڑکی کے والدین ذمے دارہیں اور نہ ہی لڑکی اس میں شریک ’’جرم‘‘ ہوسکتی ہے۔

عورت کو صرف خدمت گار ہی سمجھنے والے ایک طبقے کو ایسی بہو تلاش کرتے کرتے برسوں لگ جاتے ہیں اور اپنے بیٹے کے بال سفید کر بیٹھتے ہیں کہ لڑکی کو گھریلو امور، کچن سنبھالنے اور وہ کام جو ملازمین سے لیے جاتے ہیں، ان تمام میں ماہر ہونا چاہیے۔ لڑکی کھانا کیسا بناتی ہے، کون کون سے کھانے بنانے کی ماہر ہے، چائے کیسی بناتی ہے وغیرہ۔ ایسے طبقے کی اپنی سوچ کے نتیجے میں ان ہی کے بیٹے کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہوجاتے ہیں اور پھر خاندان میں ان کے رشتے دار باتیں شروع کردیتے ہیں کہ اس ’’بوڑھے بابے‘‘ کو اب رشتہ کون دے گا؟ سوچنے کی بات ہے کہ لڑکے کو اس نہج پر پہنچانے والے بھی کوئی اور نہیں، اپنے ہی والدین اور بہن بھائی ہیں۔

بعض اوقات لڑکے کی شادی میں رکاوٹ کا باعث بھی وہ لوگ بن جاتے ہیں جو خود تو شادی شدہ ہوکر اپنی زندگی کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں اور اس نوجوان کو خوبصورت اور امیر لڑکی کا لالچ دے کر انتہائی دیر کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بندہ پوچھے کہ بھئی زندگی کتنے ہزار سال پر مشتمل ہے کہ رشتہ تلاش کرنے میں ہی کئی سال گزار دیں تو فرق نہیں پڑے گا۔ انسان کی آدھی عمر تو پڑھنے لکھنے میں گزر جاتی ہے اور پھر کچھ حصہ نوکری کی تلاش یا کاروبار سیٹ کرنے میں گزر جاتا ہے، پھر قریب الضعیفی اگر سکون کے لمحے ملنے کی امید پیدا ہوتی ہے تو پھر اپنے ہی الٹے سیدھے مشورے دے کر مزید تاخیر کردیتے ہیں۔ ایسے لڑکوں کے پاس بالآخر دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں یا تو یہ سوچ کر صبر کریں کہ جوڑے آسمان پر بنتے ہیں، اب لڑکی بھی کوئی آسماں سے اترے گی یا پھر لو میرج کرکے قسمت آزمائی کرلیں، جس کا نتیجہ یا تو زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی اور یا جھوٹے موٹے وعدے کرکے جس لڑکی کو پیار کے جال میں پھنسایا ہوگا، وہ وعدوں کی تکمیل کی خواہش کرے گی اور انجام علیحدگی کی صورت میں نکلے گا۔

ایک طبقہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہے، ان میں سے کچھ لڑکوں کو اپنی ذہنی سوچ کے مطابق لڑکی تلاش کرتے کرتے شادی میں دیر ہوجاتی ہے۔ یعنی پی ایچ ڈی لڑکے کی کوشش ہوتی ہے کہ لڑکی بھی پی ایچ ڈی ہو، ڈاکٹر کو اپنی شریک حیات بھی ڈاکٹر چاہیے، بزنس مین کو کاروباری سسرال کی تلاش رہتی ہے۔ جاگیردار، زمیندار طبقہ سب سے پہلا سوال یہ کرتا ہے کہ ان کے پاس کتنے ایکڑ زمین ہے۔ اس طبقے کے مطالبات بھی اپنی نوعیت کے ہوتے ہیں، جنہیں پورا کرتے کرتے بعض اوقات لڑکا عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتا ہے کہ جب سسرال میں بارات جاتی ہے تو لڑکی کی سہیلیاں دلہے کو ’دلہا‘ کہنے کے بجائے انکل کہہ دیتی ہیں، جسے سن کر چہرے پر ایک خاص شرمندگی کے آثار فطری ہیں۔

اکثر اوقات رشتہ ہوتے ہوتے چھوٹی چھوٹی باتوں سے رہ جاتا ہے، جس میں لڑکے کی بہنوں، بھابھیوں کا کردار اور ساتھ گئی ہوئی خاندان کی کچھ زیادہ ہی ’’سیانی‘‘ عورتوں کا کردار مرکزی ہوتا ہے۔ ہلکا سا لنگڑا کر چلتی ہے، ایک آنکھ چھوٹی ہے، بال سفید ہیں، سنائی کم دیتا ہے، گلابی اردو بولتی ہے، کھانا بنانے کی تمیز نہیں، چائے میں چینی کم تھی، پتی زیادہ تھی، کھیر سے جلنے کی بو آرہی تھی، مہمانوں کو ویلکم کرنے کا طریقہ نہیں، اس دور میں ہاتھ سے چاول کون کھاتا ہے، چمچ استعمال نہیں کیا، آفس جاتی ہے اور اتنی دیر سے گھر آتی ہے، کلاس فیلو گھر چھوڑنے آیا تھا، کسی لڑکے کا فون آیا۔ ایک انکار کےلیے سو بہانے۔

بیٹی ہونا، یا بیٹی پیدا کرنا کیا اتنا ہی بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا معاشرہ اتنی زیادہ دیتا ہے کہ بیٹی کی آنکھ کھولتے ہی اس کے اچھے نصیب کی فکر والدین کو ہر پل کھاتی رہتی ہے۔

میری نظر میں آج کل لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ذہین ہیں اور وہ تعلیمی میدان میں خود کو لڑکوں سے آگے لاچکی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زیادہ پڑھی لڑکیوں کو ان کی تعلیمی حیثیت کے مطابق لڑکا تلاش کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ لڑکیاں پڑھنا چھوڑ دیں بلکہ حل یہ ہے کہ لڑکوں کی تعلیمی قابلیت میں انیس بیس کا فرق برداشت کرلینا چاہیے، تاکہ بروقت شادی ہوسکے۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو نسبتاً روزگار مل جاتا ہے، جس کی وجہ سے کچھ والدین ان پر مالی انحصار کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ملازمت میں ہم پلہ لڑکوں کے رشتے تلاش کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔

کچھ ایسے والدین بھی لڑکیوں کی شادی میں خود رکاوٹ بن جاتے ہیں، جو اٹھائیس سال تک بھی لڑکیوں کو کم عمر تصور کرتے ہیں اور رشتے کی تلاش تاخیر سے ہوتی ہے۔ جس کے باعث شادی بھی لیٹ ہوجاتی ہے، کیوں کہ دوسری طرف لڑکے کم عمر لڑکیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور زیادہ عمر کو پسند نہیں کرتے۔ ایک وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ جب مائیں اٹھارہ بیس سال عمر ہونے پر رشتے کی تلاش شروع کردیتی تھیں، جو لیٹ ہوتے ہوتے بھی پچیس سال تک فرض سے بری الذمہ ہوجاتی تھیں۔

لڑکوں کے حد سے زیادہ نخرے بھی لڑکیوں کے بروقت رشتوں میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ خواہ مخواہ کی فرمائشوں کے نام پر لڑکی والوں کا استحصال بھی ایک وجہ ہے۔ کچھ لڑکی والوں کی طرف سے بھی ایک عجیب وجہ دیکھنے میں آتی ہے کہ ایسی تمام کامیابیاں پچیس تیس سال عمر کے لڑکے میں تلاش کرکے وقت ضائع کرتے رہتے ہیں، جو انسان کو کہیں پچاس سال تک مشکل سے ملتی ہیں، جیسا کہ اپنا مکان، اپنی گاڑی، تنخواہ کم ازکم ایک لاکھ نہیں تو قریب قریب ہو۔

لڑکی والوں کی طرف سے ایک طبقہ ایسا بھی نظر آئے گا جو اپنی بیٹی تو اپنے رشتے داروں میں خوشی خوشی بیاہ دے گا، مگر جب بات لڑکے کی ہوگی تو پھر خاندان کی کوئی اچھی بھلی لڑکی بھی نہیں بھاتی۔

کچھ نہ کچھ مسائل تو دونوں طرف ہیں، جن کی وجہ سے رشتے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اور اگر انصاف کی بات کی جائے تو لڑکی والوں کے کچھ زیادہ ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور میری نظر میں کچھ باتوں پر سمجھوتہ کرلینا ہی دانشمندی ہے۔

ایک بات تو طے ہے کہ ہر لڑکی کو اس کے خوابوں کا شہزادہ نہیں ملتا، جو حسین و جمیل ہو، شریف النفس ہو اور مال و دولت بھی بے تحاشا ہو۔ نہ ہر لڑکے کو حسن کی دیوی شریک حیات، صورت اور سیرت میں اچھائی کے تمام تقاضوں کے عین مطابق اور امیر ترین سسرال مل سکتا ہے۔ دونوں خاندانوں کی مالی حیثیت، رہن سہن، رسم و رواج، تعلیم و تربیت میں مطابقت دیکھیں، مگر ان میں دونوں طرف سو فیصد مطابقت ضروری نہیں، نہ ایسا ممکن ہے۔ شکل وصورت میں بھی تھوڑی لچک دکھانے کی ضرورت ہے، تبھی بروقت لڑکوں کے رشتے ہوں گے اور لڑکیوں کے والدین بھی اپنے فرائض کو انجام دے سکیں گے۔

اس کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ رشتوں کے انتخاب سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے۔ معاشرے کے بزرگ شہری، اساتذہ، غیر سرکاری تنظیمیں، میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر بلاگز لکھنے والے لکھاری اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں، ورنہ یہ مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔