مداخلت کا راستہ

جس پارٹی کے کارکنوں میں زیادہ جرأت ہوتی ہے یا منظم ہوتے ہیں وہ ووٹنگ کی شرح ازخود بلند کردیتے ہیں


Anis Baqar August 30, 2012
[email protected]

ان دنوں پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے، بے سبب نہیں۔ بھتہ خوری، چور بازاری، فرقہ واریت، نسل کشی، رہزنی، ڈاکہ، اغوا برائے تاوان، نسلی اور فرقہ وارانہ فساد، ایئرفورس کے ہیڈ کوارٹروں پر حملے، پاک افغان سرحد پر جھڑپیں، کرپشن ان سب کا صرف ایک مقصد ہے کہ پاکستان کو خدانخواستہ دنیا کے نقشے سے مٹادیا جائے۔ گو کہ ظاہر میں یہ سب الگ الگ واردات ہیں مگر یہ ایک زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں۔ اگر آپ کو یاد ہے تو پہلے مارشل ٹیٹو کے دیس یوگوسلاویہ میں نسلی اور مذہبی فسادات، پھر بوسنیا اور سربیا کے واقعات اور بعد ازاں نیٹو کا حرکت میں آنا نت نئے ممالک کا وجود میں آنا ایک حقیقت تھی۔ یونی پولر یک قطبی طاقت کا توازن دنیا کو اپنے نظریات اور اپنی ہی قسم کی جمہوریت سے آشنا کرنا ہے اور یہی کچھ عین ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے۔

اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو دنیا کے مختلف حصّوں میں نئے ممالک ابھرتے رہیں گے۔ افریقی ممالک میں یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔ جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کا نعرہ، انسانی حقوق کی آواز ایک دل پسند آواز ہے۔ اس کے جادو میں گرفتار ہو کر نئی قومیں اپنے لیے خود ایک جال تیار کرلیتی ہیں، پھر اسی قید میں ان کے دن گزرتے ہیں مگر پاکستان کی صورتِ حال نہایت تشویش ناک ہے۔ گلگت جانے کا زمینی راستہ چلاس ہو کر جاتا ہے، درمیان میں جو راستے آتے ہیں، ان میں ان لوگوں کی آبادی ہے جو مخالف فرقوں کے لوگوں کو وہاں سے گزرنے نہیں دیتے۔

پاکستان کی آزادی کو 65 برس کے قریب ہوگئے مگر یہ سب پہلے کیوں نہیں ہوتا تھا۔ اس واقعے پر مسٹر بانکی مون جو اقوام متحدہ کے سربراہ ہیں، اس قدر سخت نوٹس لیا جس سے ہمارے ملک کی اقوامِ عالم میں رسوائی ہوئی، بقول ان کے ایک مسلم ملک میں مسلمان ایک دوسرے کی شناخت کرکے قتل کررہے ہیں، جس سے ان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ کوئٹہ کے قرب و جوار اس کے قریبی علاقے مستونگ میں بھی اسی قسم کے واقعات ہوئے ہیں جس پر ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین نے سب سے پہلے بیان دے کر اس مسئلے کے سکوت کو توڑا اور اپنی پارٹی کے سیکولر رجحانات کو عام لوگوں تک پہنچایا۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں تو صرف ایک یا دو مسئلوں کو لے کر مداخلت ہوئی، شام میں مسلمانوں کے دو مختلف عقاید کے درمیان جنگ ایک بڑی خونریزی کا پیش خیمہ ہے۔ اس سے پوری ملتِ اسلامیہ متاثر ہوگی، کیونکہ یہ فرقہ واریت کا فساد لبنان سے بحرین اور یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

آپ غور کریں کہ اگر آپ کے ہمسائے کے گھر میں گھر کے لوگ آپس میں ہر روز گتھم گتھا ہوں، روز شور و غل اور ہاتھا پائی ہو اور پڑوسیوں کی نیند حرام ہو، آپس میں قتل و غارت کی نوبت آجائے تو پھر اس گھر پر پڑوسیوں کی مداخلت یقینی ہوجاتی ہے۔ یہی حال بڑے پیمانے پر ممالک کا بھی ہوتا ہے۔ اب بڑی قوتیں ملک پر قبضہ نہیں کرتیں نہ وائسرائے ہوتے ہیں جو انگلستان میں بیٹھ کر حکومت کرتے تھے۔ اب یہ کام اسی ملک کی بااثر لابی سے لیا جاتا ہے، اس کے لیے خطیر رقم تقسیم ہوتی ہے۔ غور فرمائیں جن ممالک میں بھی اب تک غیر ملکی مداخلت ہوئی وہاں انسانی حقوق کا مسئلہ اوّل رہا ہے،

مثلاً لیبیا کے مرد آہن معمر قذافی گو کہ ان پر نہ کوئی کرپشن کا کیس تھا اور نہ ہی ملک کو پستی میں دھکیلنے کا محض جمہوریت کا بینڈ وہاں نہیں بج رہا تھا بلکہ شخصی حکومت تھی اور انھوں نے اپنے فرزند کو اپنے بعد کا حاکم مقرر کردیا تھا مگر آپ یہ دیکھیے کہ جمہوری ممالک کا احوال کہ وہاں جمہوریت میں وراثت چل رہی ہے اور چند خاندانوں کے بھائی بھتیجے حکمران ہیں جب کہ جمہوریت کے علمبردار ممالک اپنے ملک میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دیتے، کیونکہ اس طرح عوام میں مایوسی پیدا ہوتی ہے اور عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہماری شرکت ہو یا نہ ہو یہ لوگ ہی گھوم پھر کر حکمران رہیں گے۔ ایسے ملکوں میں ووٹنگ کی شرح 30 فیصد کے لگ بھگ ہوتی ہے، لہٰذا اگر کسی بھی ملک میں ووٹنگ کی شرح 45 فیصد سے کم ہو تو اس کو اصل مینڈیٹ قرار دینا جمہوریت کی نفی ہے۔

مایوس قوموں میں ایسا ہی ہوتا ہے، لہٰذا 15-20 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے آتے ہیں اور جس پارٹی کے کارکنوں میں زیادہ جرأت ہوتی ہے یا منظم ہوتے ہیں وہ ووٹنگ کی شرح ازخود بلند کردیتے ہیں۔ چھوٹے شہروں، گائوں گوٹھ میں ایسا ہی ہوتا ہے، لہٰذا حقیقی جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک نہیں پہنچتے، لہٰذا موروثی جمہوریت اور آمریت ایک دوسرے کے برادرِ نسبتی ہیں اور ہمارا ملک اس مرض سے بھی دوچار ہے۔ غیر ممالک میں جو مداخلت ہوئی، وہاں تو ایک یا دو مسئلے تھے مگر ہمارے ملک میں تو مسائل کا انبار لگ گیا ہے۔

یہاں انسانی حقوق سے لے کر سیاسی اور فوجی نوعیت کے چیلنجز ہیں۔ ابھی کامرہ ایئربیس پر حملہ جس کی ذمے داری طالبان نے قبول کی، نہایت حسّاس معاملہ ہے، کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے، حملہ آوروں کو یہ نہیں ثابت کرنا تھا کہ وہ ایئربیس کو تباہ کردیں گے اور اس پر قبضہ کرلیں گے، ان کو محض یہ ثابت کرنا تھا کہ تمام اہداف ان کی دسترس میں ہیں، ہم ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح وہ بڑی حد تک اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوگئے اور دنیا پر یہ تاثر چھوڑ دیا کہ تمام حسّاس مقامات غیر محفوظ ہیں۔ اس طرح دنیا نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے بھی غیر محفوظ ہیں۔ اس قسم کے اگر مزید چند واقعات ہوتے ہیں تو پھر ایسے ممالک جو ہمارے دشمن ہیں، اگر انھوں نے یہ مشن اپنے ہاتھ میں لے لیا تو پھر عالمی پیمانے پر ایک نیا محاذ کھل جائے گا۔

افسوس کا مقام ہے کہ جو کام ملک کے سیاست دانوں کو ازخود کرنا تھا، وہ عدلیہ اور فوجی ادارے انجام دے رہے ہیں اور کابینہ کا کام محض کمیٹی تشکیل دینا رہ گیا ہے اور ہر کمیٹی تمام سفارشات کو سرد خانے میں ڈال دیتی ہے۔ ناقص اور غیر واضح خارجہ پالیسی کی مثال یہ ہے کہ 6 ماہ تک نیٹو کی سپلائی بند رہی، پھر غیر مشروط طور پر کھولی گئی، مگر عام آدمی کو یہ معلوم نہ ہوا کہ کن کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوا اور ڈرون حملے حسبِ روایت اسی طرز پر ہورہے ہیں، ذرّہ برابر فرق نہ پڑا۔ اگر ڈرون حملے درست ہیں تو پھر حکمرانوں کو کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ یہ ملکی مفاد میں ہیں مگر ہر چیز کو واضح ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح عوام اور حکومت کے درمیان فاصلہ پیدا ہوتا ہے، مگر یہ سب کچھ جو ہورہا ہے، کس کے اشارے پر اور کیوں کر ہورہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، کسی حکومت کے خلاف سازش نہیں بلکہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس خطرے کا سامنا صرف ہمت، فراست اور قانون کی حکمرانی سے ممکن ہے، ورنہ دشمنوں نے جو روڈمیپ تیار کیا ہے، اس پر وہ عمل کرتے رہیں گے۔ موجودہ صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے، اس کے لیے اگر ریفرنڈم کرانا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔

میرے دشمنوں میں کچھ دوست بھی نہ شامل ہوں
اس لیے نہیں پوچھے سازشوں کے پس منظر

(خاور احمد)

مقبول خبریں