لیاقت علی خان ۔۔۔ملت کا قائد، ملت کا محسن

سہیل احمد صدیقی  بدھ 16 اکتوبر 2019
قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ فوٹو: فائل

قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ فوٹو: فائل

چودہ اگست 1947ء کو پاکستان نامی اسلامی ریاست معرض وجود میں آئی تو اگلے دن قائدملت خان لیاقت علی خان نے ملک کے اولین وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جب کہ وہ بہ یک وقت ملک کے اولین وزیرخارجہ نیز وزیربرائے تعلقات دولت مشترکہ (پندرہ اگست 1947ء تا ستائیس دسمبر1947ء) ، وزیردفاع (پندرہ اگست 1947ء تاسولہ اکتوبر 1951ء) ، وزیربرائے امورکشمیر (اکتیس اکتوبر 1949تا 13اپریل 1950ء) اور وزیر برائے ریاستی وسرحدی امور(بارہ ستمبر1948ء تا سولہ اکتوبر 1951ء)کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ سر ظفراللہ خان کو بعدازاں (ستائیس دسمبر1947ء) باقاعدہ وزیرخارجہ مقرر کیا گیا تھا، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ تھے۔ (حوالے کے لیے ڈاکٹرصفدرمحمود کی کتاب ملاحظہ فرمائیں: پاکستان ڈیوائیڈڈ)۔

قائداعظم کی وفات کے بعد لیاقت علی خان نے نوزائدہ ملک کے جملہ مسائل کے حل کے لیے شبانہ روز اَن تھک محنت کی۔ سترہ جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستانی وفد کے قائد، وزیرخارجہ سر ظفراللہ خان نے مسئلہ کشمیر پر تقریر کی اور اگلے روز وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا: ’’جب تک ایک بھی پاکستانی زندہ ہے، کوئی دُنیوی طاقت، پاکستان کو نقصان نہیں پہنچاسکتی۔‘‘

اسلام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے، قائد ملت نے چار اپریل 1948ء کو ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کا دستور، قرآن کریم اور شریعت کی بنیاد پر بنایا جائے گا۔ سات مارچ 1949 ء کو انہوں نے قرارداد مقاصد، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں پیش کی، جس کے ذریعے پاکستان کے مجوزہ آئین کے راہ نما اصول فراہم کیے گئے تھے۔

یہ قرارداد بارہ مارچ1949 ء کو منظور ہوئی، مگر ایک طویل مدت تک آئین پاکستان کی اصل دستاویز کا اساسی حصہ نہیں رہی۔ یہ کام سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد حکومت میں، اُن کے ایماء پر ہوا تو اُن کے سیاسی و ذاتی مخالفین نے تب سے یہ پراپیگنڈا شروع کیا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کا کوئی تصور، اُن سے پہلے موجود نہ تھا۔بائیس اپریل 1949 ء کو لندن میں دولت مشترکہ سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا تو پاکستان کے وفد نے اس میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں شرکت کی۔ اسی سال دس مئی کو وہ مصر کے دورے پر تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے بارہ مئی کو ریڈیو قاہرہ کے ذریعے مصری عوام سے خطاب کیا ، جب کہ سولہ مئی کو وہ ایران تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں اُن کے مصر کے دورے کے نتیجے میں بائیس مئی1949 ء کو پاک مصر تجارتی معاہدہ طے پایا تھا۔

9جون 1949 ء کو سوویت یونین (سابق) نے وزیراعظم پاکستان محترم لیاقت علی خان کو دورے کی دعوت دی، مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بناء پر وہاں تشریف نہ لے جاسکے۔ اس بارے میں بہت ابہام اور اختلاف پایا جاتا ہے کہ قائدملت اس دورے پر کیوں تشریف نہ لے جاسکے۔

بعض اہل قلم نے یہاں تک لکھا ہے کہ انہیں فقط زبانی دعوت ملی اور باضابطہ دعوت، دونوں حکومتوں کی مشاورت سے تاریخ طے پانے کے مرحلے میں تھی کہ سات نومبر 1949ء کو امریکا نے انہیں سرکاری دورے کی دعوت دی اور یوں وہ امریکا تشریف لے گئے۔

قیام پاکستان کے وقت، اس نئی مملکت کو ہندوستان سے اپنی سرکاری رقم کے حصول میں مشکلات، دریائی پانی کی تقسیم پر اختلاف اور کشمیر سمیت بعض علاقوں کے الحاق پر محاذ آرائی جیسی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قائد ملت ہر مسئلے کے حل کے لیے ہمہ وقت ، ہمہ تن کوشاں رہے۔ پچیس اگست1949 ء کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ’’قوت کے بل بوتے پر کوئی طاقت کشمیر کو ہم سے نہیں چھین سکتی۔‘‘ اُدھر مشرقی و مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ قائد ملت 2اپریل 1949 ء کو ہندوستان تشریف لے گئے، جہاں انہوں نے 8اپریل 1950ء کو دہلی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو سے معاہدہ کیا جو ’’لیاقت۔ نہروپیکٹ‘‘ کہلایا۔

یہاں ایک بار پھر قائد ملت لیاقت علی خان کی ملک و ملت کے لیے مساعی اور بے خوف قیادت نیز دوراندیشی کا ذکر ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ جب ریڈکلف ایوارڈ میں یہ طے کیا گیا کہ کشمیر کو ملانے والی واحد شاہراہ کی بنیاد پر، انتہائی اہم ضلع گورداس پور کو ہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب میں شامل کردیا جائے تو لیاقت علی خان نے لارڈ اِسمے (Lord Ismay) کو خبردار کیا تھا کہ مسلمان ایسے سیاسی فیصلے کو قول و قرار کی سنگین خلاف ورزی سمجھیں گے اور اس سے پاکستان اور برطانیہ کے آئندہ (استوار ہونے والے ) دوستانہ تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں۔

29اپریل 1950ء کو امریکا جاتے ہوئے لیاقت علی خان نے لندن میں مختصر قیام کیا، جہاں سے وہ یکم مئی کو امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین(Trueman)کے خصوصی طیارے INDEPENDENCE کے ذریعے امریکا تشریف لے گئے۔ چار مئی 1950ء کو انہوں نے امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان سے خطاب کیا۔ ان کے دورے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انہوں نے وائس آف امریکا کے ذریعے امریکی عوام سے بھی خطاب کیا۔ 30مئی 1950ء کو شہید ملت کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے، جب کہ بیس جولائی 1950ء کو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بھارت کا دورہ کیا۔

9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان، پاکستان مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ ستائیس دسمبر 1950ء کو انہیں سندھ یونی ورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ آف لا کی اعزازی سند عطا کی گئی۔ سات جنوری 1951ء کو وہ ایک بار پھر لندن تشریف لے گئے، اس مرتبہ ان کے دورے کا مقصد دولت مشترکہ کی سربراہ کانفرنس میں شرکت تھا۔ 9 مارچ 1951ء کو انہوں نے راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں اپنا بیان جاری کیا۔

سولہ اکتوبر 1951ء کو کمپنی باغ، راول پنڈی میں جلسہ عام کا آغاز ہوا تو بلدیہ کمیٹی کے سربراہ شیخ مسعود صادق نے سپاس نامہ پیش کیا۔ قائد ملت نے خطاب کا آغاز ہی کیا تھا کہ کرائے کے قاتل سَید (Sayd) اکبر نے اُن پر گولیاں برسادیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم راہ نما اور اولین وزیراعظم، لیاقت علی خان اس حملے کی تاب نہ لاسکے اور اس دعا کے ساتھ دنیائے فانی سے کوچ فرماگئے:’’خدا پاکستان کی حفاظت کرے!‘‘ آج پاکستان کی بقاء اور استحکام کے لیے شہید ملت کی جیسی لیاقت اور بے لوث قیادت، نیز قربانی کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔