وہاں پر شکرکرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا

شاہد سردار  اتوار 24 نومبر 2019

مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم ہند اور پاکستان کے حوالے سے اپنے بیشتر مضامین اور ایک کتاب میں بعض حیرت انگیز پیش گوئیاں کی تھیں جو تقریباً صحیح ثابت ہوئی ہیں۔ مثلاً مالی طور پر ہم پریشان حال رہیں گے، ہم کئی ممالک اور غیر ملکی اداروں کے مقروض رہیں گے، پڑوسی ممالک سے ہمارے تعلقات خراب رہیں گے۔ ہم اندرونی خلفشار کا شکار رہیں گے۔ ہماری سول حکومتیں ناکام ہوتی رہیں گی اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کھچاؤ اور دونوں حصے ٹوٹنے تک کی باتیں شامل ہیں۔

دراصل ریاست ماں کے بجائے پرائی بن جائے تو اپنے لیے محبت نہیں بلکہ نفرت پیدا کرتی ہے۔ یہی وہ نفرت تھی جس نے بالآخر 1971 میں پاکستان کو دولخت کیا۔ افسوس کہ ہماری ریاست اپنی غلطیوں سے آج برسوں بعد بھی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں اور آج بھی لوگوں کو زبردستی غدار اور باغی بنانے پر تلی بیٹھی ہے۔ سامنے کی ملکی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظام کی خرابی نے معاشرے اور ملک دونوں کا ناقابل تلافی نقصان کیا ہے۔

ہمارا معاشرہ کبھی بھی مثالی معاشرہ نہ بن سکا ، اس معاشرے میں قانون قاعدے، نظم و ضبط اور اخلاقیات کا عنصر آٹے میں نمک سے بھی کم مقدار میں رہا۔ ہمارا معاشرہ قدرت کے اصولوں کے خلاف چل پڑا جس میں بددیانتی، بے ایمانی، جھوٹ کا راج ہے۔ کھانے پینے اور سونے جاگنے کے اوقات قدرت کے دیے ہوئے طریقہ کار کے خلاف ہیں، ہمارا معاشرہ راتوں کو جاگتا اور دن کو سوتا ہے۔

کرپشن، لوٹ مار، اقربا پروری کا دور دورہ ہے اور انھی چیزوں نے یا اس نظام نے ہمارے ملک کو حد درجہ پیچھے کردیا ہے ہمارا ملک کبھی ایشیا میں سب سے آگے تھا لیکن آج یہ ملک ایشیائی ملکوں میں بہت پیچھے ہے۔ دکھ یہ نہیں کہ ہم کیسی زندگی گزار رہے ہیں صدمہ یہ ہے کہ ہماری اگلی نسلیں برباد ہو رہی ہیں اور کسی کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہے۔ ملک جنت ارضی بننے کے بجائے مسائلستان بنتا جا رہا ہے جہاں نظام کی ایک ’’کِل‘‘ بھی سیدھی نہیں رہی۔

ایک انگریز نے پاکستان آکر اردو سیکھی اور جب واپس گیا تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے کیا بولنا سیکھا؟ اس نے کہا ’’ لائٹ چلی گئی، لائٹ آگئی، لائٹ جانے والی ہے، لائٹ آنے والی ہے، لائٹ ڈِم آ رہی ہے، لائٹ تیز آ رہی ہے، لائٹ ابھی تو آئی تھی، لو پھر چلی گئی۔‘‘ جی ہاں یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے کہ جو ممالک ہمارے بعد آزاد ہوئے وہاں بجلی سے ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں اور ہمارے ہاں لالٹینیں اور ایمرجنسی لائٹیں جل رہی ہیں۔

وطن عزیز میں ہر نعمت ہر وسائل ہونے کے باوجود یہ ایک بے وسیلہ ملک ہے جس کا گزر غیر ملکی قرضوں پر ہوتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کے ہر ذخیرے ہر خزانے کو لوٹ لیا اور عوام کو مرنے اور سسکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے، آسمان سے زیادہ اونچی کرپشن، مہنگائی اور عوام کی غالب اکثریت کی بدحالی کیا۔ اسی کے لیے اسی وجہ سے اس ملک کے بزرگوں، وطن پرستوں اور ہمارے آبا و اجداد نے جان، مال اور عزتوں کی قربانی دی تھی؟ واقعی:

شہیدان وفا کے حوصلے تھے داد کے قابل

وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا

کے مصداق وہ جینے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اور حکمرانوں کے الللے تللے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

حضرت علیؓ نے بطور حاکم کوفہ میں داخل ہوتے وقت فرمایا تھا کہ ’’اے لوگو! میں اپنے جسم پر جو لباس پہن کر اور جس سواری پر سوار ہوکر تمہارے شہر میں داخل ہوا ہوں اگر واپس جاتے ہوئے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چیز ہو تو جان لینا کہ میں نے تمہارے حق میں خیانت کی ہے۔‘‘ جن لوگوں کو کرپشن اور آمدن سے زیادہ اثاثوں کی سمجھ نہ آئے۔ وہ ان سطور کو بار بار پڑھیں۔ ایسے لوگوں کی آسانی کے لیے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا یہ واقعہ بھی بہت کام آسکتا ہے۔

حضرت عمرؓ کا بیٹا روزگار کی تلاش میں عراق گیا۔ ایک سال کے بعد مال سے لدے اونٹوں کے ساتھ واپس آیا تو حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’بیٹا! اتنا مال کہاں سے ملا؟ بیٹے نے جواب دیا کہ ’’تجارت کی ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’ تجارت کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟‘‘ بیٹے نے جواب دیا ، چچا نے قرض دیا (چچا کوفے کے گورنر تھے) حضرت عمرؓ نے کوفے کے گورنر کو مدینے طلب کیا اور کہا کیا بیت المال میں اتنی دولت آگئی ہے کہ ہر شہری کو قرضہ دے سکتے ہو؟ گورنر نے کہا نہیں ایسا تو نہیں۔

حضرت عمرؓ نے پوچھا ’’پھر تم نے میرے بیٹے کو قرض کیوں دیا؟ اس لیے کہ وہ میرا بیٹا ہے؟ لہٰذا میں تمہیں معزول کرتا ہوں کیونکہ تم امانت داری کے اہل نہیں ہو۔‘‘ حضرت عمرؓ نے بیٹے کو حکم دیا کہ ’’سارا مال بیت المال میں جمع کرا دو، اس پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ یہ واقعہ خاص طور پر ہمارے سابق حکمرانوں اور انصاف کے علم برداروں کے لیے ایک سبق ہے اور جو ارباب اختیار اس وقت اختیار اور اقتدار کا مزہ لوٹنے میں مصروف ہیں ان کے لیے بھی عبرت کا نمونہ ہے۔

ہمارے ملک میں سیاست ، حکومت ، اختیار ، گالی اورکرپشن کے دوسرے نام بن کر رہ گئے ہیں جس نے نہ صرف جمہوریت کی بنیادیں کمزور کر دیں بلکہ عوام کو بھی اسی نظام سے بد ظن کردیا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ طاقتور صرف وہاں کمزور ہوتا ہے جہاں قانون کی حکمرانی ہو ورنہ طاقتور طاقتور ہی رہتا ہے۔ طاقتور کے لیے قانون مکڑی کا جالا ہی رہتا ہے۔ اگر ہم اپنا ملک ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ یہ فلاں کا باپ ہے فلاں کا بیٹا ہے اور فلاں کا بھائی ہے یا فلاں کا سالا ہے۔ ہمیں سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ہوگا لیکن ایسا کچھ نہ ماضی میں ہوا ہے نہ حال میں اور نہ آنے والے وقتوں میں ایسا کچھ ممکن دکھائی دیتا ہے۔

ہمارے نئے حکمران کے پہلے ایک سال میں سرکاری اداروں کے اوقات 44 سے بڑھ کر 191 ارب روپے ہوگئے۔ پہلے یہ ادارے 52 ارب کے منافع میں چل رہے تھے۔ معیشت اور معاشرتی وینٹی لیٹر پر آگئی ہے اور یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں معاشرے سماجی اور اخلاقی تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں، جرائم بڑھنے لگتے ہیں، روزگار ٹھپ ہونے لگتے ہیں اور بے یقینی معاشرے کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ معیشت اور خاص طور پر مہنگائی کو روکنے اور غربت کو دور کرنے کے موثر اقدامات وقت کی فوری ضرورت ہے، لیکن یہ سب ہمارے منتخب وزیر اعظم کے بس سے باہر کی چیزیں ہوگئی ہیں۔

تاریخ پاکستان کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہمارا یہ اندازہ ہے کہ اب پاکستان کے ہر وزیر اعظم کا مقدر جیل ہوگیا ہے۔ چاہے وہ چند ماہ ہی وزیر اعظم رہا ہو یا تین بار منتخب ہو کر وزارت عظمیٰ پر فائز ہوا ہو۔ دوسری طرف کا احوال یہ ہے کہ جیل ہو یا قانون کا کوئی بھی سرکردہ ادارہ کرپشن کے الزام میں گرفتار سپریم لوگوں کے لیے وی آئی پی ڈے کیئر سینٹر، ڈاکٹر، نرسیں، مشقتی، ایمبولینس (24 گھنٹوں کے لیے) یہ سہولتیں تو ہمارے 95 فیصد عوام کے بھی کبھی نصیب میں نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک کی 90 جیلوں میں صرف نواز شریف اور آصف زرداری ہی انسان ہیں باقی سبھی جانور قید ہیں؟ آخر ان کی اتنی آؤ بھگت کیوں (جب کہ ان کی کارگزاری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں) آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے علاوہ باقیوں کو کھانسی کا شربت اور سر درد کی ایک گولی کے لیے جیلوں میں ہفتہ ہفتہ تڑپنا پڑتا ہے؟ واقعی سیاست ہی کیا ہمارے ہاں ریاست کے سینے میں بھی دل نہیں ہوتا، بس دماغ ہوتا ہے اور دماغ بھی ایسا جسے معقولیت سے کوئی سروکار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔