ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 13 نومبر 2013

اگر صرف اعلانات اور تقریروں سے ملک اور قوم کی قسمت بدل سکتی ہوتی تو آج پاکستان دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال، ترقی یافتہ، جمہوری، روشن خیال اور اعتدال پسند ملک ہوتا۔ کیونکہ ہمارے حکمران پچھلے 6 ماہ سے کمال کے اعلانات اور منصوبے قوم کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ اگر ان پر عمل ہو چکا ہوتا تو آج ملک اور قوم کا نصیب بدل چکا ہوتا، روزگار کا سیلاب ملک کی گلی گلی میں بہہ رہا ہوتا، ملک سے انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہوتا، آمریت، مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی، دہشت گردی، بدمعاشی، دھاندلی، غربت اور بھوک معاشرے میں موجود ہونے کے بجائے ہمیں صرف کتابوں میں دیکھنے کو ملتے۔ لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر حکمرانوں کو دعائیں دے رہے ہوتے اور ان کی لمبی عمر کے لیے خدا کے سامنے دعا گو ہوتے، اور دوسرے ملکوں میں لوگوں کی غربت، بدامنی، دہشت گردی، بیروزگاری اور بھوک دیکھ کر آنسووں سے رو رہے ہوتے۔

اصل میں ہمارے حکمرانوں نے بہت چاہا کہ وہ اپنی تقریروں اور اعلانات کے ذریعے ملک اور قوم کے نصیب بدل دیں اور ملک میں انقلاب لے آئیں لیکن اگر تقریروں اور اعلانات سے ہماری قوم کے نصیب نہیں بدلے تو یہ ہماری قوم کی بدنصیبی ہے۔ اصل میں ان کے نصیب ہی برے ہیں، ورنہ ہمارے حکمرانوں کی نیت بری نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے تو ملک اور قوم کے مسائل حل کرنے کے لیے صرف مرکز میں تقریباً 40 وزرا، وزرائے مملکت اور مختلف اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے چیئرمین بنائے لیکن اگر وہ ملک اور قوم کے مسئلے حل کرنے کے بجائے آپس میں ہی دست و گریباں ہو رہے ہیں تو آخر پھر ہمارے حکمران کیا کریں؟ اپنی ناکامی کو تسلیم کرنا بڑے حوصلے، جرأت اور ہمت کا کام ہے اور ایسا کام ایک جمہوری ملک میں ہی ہو سکتا ہے۔ جب کہ ہمارے ملک کی تاریخ سانحات اور حادثات سے بھری ہوئی ہے، آج تک کسی نے بھی کسی سانحے، حادثے اور اپنی ناکامی کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ ہمارے ملک میں سانحے اور حادثے کے بعد کمیشن تو بنتے رہے اور ٹوٹتے رہے، آج تک قوم ذمے داروں سے بے خبر ہے اور کبھی بھی اصل ذمے داروں کو سزا نہیں ملی۔ ظاہر ہے ذمے دار ہمیشہ طاقتور ہوتے ہیں  اور ہمارے ملک میں طاقتوروں کو کبھی سزا نہیں ملتی ہے۔

پاکستان میں 1947 سے عذابوں کے جو روز طوفان آ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے جو کروڑوں لوگ برباد ہو رہے ہیں اس کی ذمے داری آخر کون تسلیم کرے گا۔ آخر ان کروڑوں لوگوں کی بربادی اور تباہی کے ذمے دار کون لوگ ہیں۔ آخر کب انھیں سزا ملے گی؟ دوسری جانب ملک اور قوم کے نصیب بدلنے کا دعوی کرنے والوں کا تماشا روز قوم بڑے مزے سے دیکھ رہی ہے جو ملک اور قوم کے مسائل حل کرنے کے بجائے انھیں جمع کر رہے ہیں۔ وہ ملک اور قوم سے بے نیاز صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے روز نت نئے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ ان کی صرف ایک ہی سو چ ہے کہ کس طرح اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جائے، ملک اور قوم بر باد ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں۔ آج کل ملک میں مختلف جماعتوں اور لوگوں کی مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی لہر آئی ہوئی ہے۔ ایسی ہی دوڑ قوم جنرل صدر ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف کے زمانو ں میں بھی دیکھ چکی ہے۔ قوم کو یہ بھی یاد ہے کہ جب جنرل ایوب اور جنرل ضیاالحق، پرویز مشرف کی حکومتیں ختم ہوئیں تو حکمران مسلم لیگ میں شامل ہونے والے جس تیز ی سے شامل ہوئے تھے حکومتوں کے خاتمے کے بعد اسی تیزی کے ساتھ مسلم لیگ سے نکلے بھی تھے۔ اصل میں ان لوگوں کا کام صرف حکمران جماعت میں شامل ہو کر اقتدار کے مزے لوٹنا اور برے وقت میں بھاگ جانا ہی رہ گیا ہے۔ قوم ایسے چہروں سے اچھی طرح سے واقف ہے۔

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے۔

گوئٹے نے کہا تھا، سیاست انسان کی آسمانی سرگرمی ہے جس سے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں اور تقدیریں وابستہ ہوتی ہیں، اگر کسی قوم کو پرکھنا ہے تو اس قوم کے سیاست دانوں کے کردار کو پرکھو۔ جب کہ ہنری ڈیوڈ تھوریو کہتا ہے، بہترین حکومت وہ ہوتی ہے جو خدمت کرے، حکومت نہ کرے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومت صرف حکومت کر رہی ہے۔ ہر قوم کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں، اجالے کا راستہ اور تاریکی کا راستہ۔ دو امکانی تقدیریں ہوتی ہیں اجالے کی تقدیر اور تاریکی کی تقدیر۔ قابل رحم ہے وہ قوم جس کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے، جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی ہو اور صرف اس وقت سنبھلے اور ابھرنے کی کوشش کرے جب اس کا سر تن سے جدا کرنے کے لیے تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہو۔ ہمارا سر بھی تلوار اور لکڑی کے درمیان رکھا جا چکا ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ ہم نہ سنبھلنے کی کو شش کر رہے ہیں اور نہ ہی ابھرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ کاہلی کی انتہا ہو گئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوم کو اس عذاب سے کون نکالے گا، ظاہر ہے یہ کام حکومت ہی نے کرنا ہے، اگر یہ حکومت نے کرنا ہے تو پھر اتنی دیر کیوں؟ اتنی نااہلی کیوں؟ اور اگر حکومت نے دیر کر دی تو پھر نئے لوگ آئیں گے، جو دلیر ہوں گے، سمجھ دار ہوں گے، ایماندار ہوں گے، جو حکومت نہیں بلکہ خدمت کریں گے، جو صرف اعلانات اور تقریروں سے ملک اور قوم کی قسمت بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔