زندہ ہے حسن ناصر…
پاکستانی سیاست دانوں کی اکثریت نے عوامی مسائل سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے صرف ذاتی مفادات کی سیاست کی ہے
جو لوگ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ذرا گہری نظر رکھتے ہیں وہ لوگ اس حقیقت سے انکار نہیں کریں گے کہ پاکستانی سیاست میں مشکل ترین امر یہ ہے کہ اس میں نظریات کی سیاست کی جائے کیونکہ پاکستانی سیاست دانوں کی اکثریت نے عوامی مسائل سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے صرف ذاتی مفادات کی سیاست کی ہے، ان سیاستدانوں نے کسی نہ کسی طرح آمریت پسند جنرلوں کا مکمل ساتھ دیا ہے اور ذاتی مفادات حاصل کیے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں ہے کہ ان آمریت پسند فوجی آمروں نے جب بھی وطن عزیز میں آمریت قائم کی ان سب نے سامراجی، ایجنڈے پر کام کیا ہے چاہے ایوب خان ہو یا یحییٰ خان، ضیا الحق ہو یا پرویز مشرف، لیکن ان تمام حالات کے باوجود چند سرفروش ایسے بھی ہیں جنھوں نے تمام تر ظلم و جبر کے باوجود سیاست میں نظریات کو مدنظر رکھا ہے، جن میں ایک نام حسن ناصر کا بھی ہے۔
حسن ناصر 1928 میں حیدر آباد دکن کے ایک تعلیم یافتہ و روشن خیال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ حسن ناصر نواب محسن الملک کے پڑ نواسے تھے۔ حسن ناصر کے والد کا نام علمبردار حسین تھا جب کہ والدہ کا نام زہرا خاتون تھا۔ حسن ناصر نے حیدرآباد دکن کے گرائمر اسکول سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا اور علی گڑھ کالج سے F.A کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے کرنے کے بعد حسن ناصر واپس حیدرآباد آ گئے اور نظام کالج حیدرآباد دکن میں داخل ہوگئے، جہاں حسن ناصر حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے سرگرم کارکن بن گئے جب کہ مارچ 1946 میں وہ یہاں آزاد ہند فوج کے رہنماؤں کی رہائی کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں بھی پیش پیش تھے۔ 1946 میں ہی جمہوریت سوشلزم، آزادی اور کسانوں کی زمین کے لیے چلائی جانے والی تلنگانہ کسان تحریک پورے جنوبی ہندوستان میں انقلابی شدت کے ساتھ ابھری۔ یہ سال سارے ہندوستان کے لیے آزادی جدوجہد کا ایک کٹھن ترین دور تھا جب کہ 31 جولائی 1947 کو وہاں حسن ناصر نے برصغیر کی قومی آزادی و خودمختاری کا مطالبہ کرنے والے 25 ہزار طالب علموں کے ایک عظیم الشان مظاہرے کی قیادت کی۔ اگر اس دور کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ مظاہرہ اپنی مثال آپ تھا۔ 1948میں حسن ناصر حیدرآباد دکن سے کراچی آ گئے۔
کراچی حسن ناصر کی منزل نہ تھی کیونکہ حسن ناصر کو تعلیم کے حصول کے لیے لندن جانا تھا۔ لیکن کراچی میں قیام کے دوران حسن ناصر کو پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک سے دل چسپی پیدا ہو گئی چنانچہ حسن ناصر کمیونسٹ پارٹی کے دفتر آنے جانے لگا اور پارٹی کے سرگرم کارکنوں سے ملنے جلنے کا سلسلہ شروع کر دیا اور کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری سید سجاد ظہیر اور دیگر پارٹی رہنماؤں کے مشورے سے لندن جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور پارٹی امور نمٹانے میں سرگرم ہو گئے۔ 1948 کے آخر اور 1949کے شروع میں کراچی پورٹ ٹرسٹ ٹراموے کے مزدوروں کی کامیاب ہڑتال کے سلسلے میں کراچی کے تمام اہم مزدور رہنما گرفتار کر لیے گئے تو پارٹی کی تنظیم و قیادت نوجوان حسن ناصر نے سنبھال لی اور روپوشی اختیار کرتے ہوئے تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھیں، بعدازاں حسن ناصر سندھ صوبائی کمیٹی سیکریٹری اور پارٹی کے سینٹرل سیکریٹریٹ کے ممبر بن گئے۔ 1951 میں اس وقت کی حکومت نے امریکی سامراج کی خوشنودی کی خاطر کمیونسٹوں کی گرفتاریوں کے لیے سخت ترین احکامات جاری کر دیے۔ حسن ناصر کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے درجنوں کارکن گرفتار کر لیے گئے اور بدنام زمانہ عقوبت خانہ، شاہی قلعہ لاہور، میں ان کو پابند سلاسل کر دیا گیا، جہاں ان لوگوں نے ایک برس تک حکومتی جبر و تشدد برداشت کیا لیکن اپنے ترقی پسند عزائم پر قائم رہے۔
1952 میں شاہی قلعہ لاہور سے آزادی ملی تو دوبارہ پارٹی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے لیکن 1954 میں کمیونسٹ پارٹی کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ یعنی کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عاید کر دی گئی اور سید سجاد ظہیر کو ملک بدر کر دیا گیا، حسن ناصر کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور کراچی جیل میں سرکاری مہمان بنا دیا گیا۔ 1955 میں قید کے دوران ہی کمشنر کراچی مسٹر نقوی نے حسن ناصر کے لیے ایک برس کے لیے ملک بدری کے احکامات جاری کر دیے، اس طرح حسن ناصر ہندوستان جانے پر مجبور ہو گئے مگر جاتے وقت حسن ناصر اپنا پاکستانی شہریت کا سرٹیفکیٹ اس غرض سے اپنے ساتھ لے گئے کہ ملک بدری کی مدت ختم ہونے پر پاکستان واپس آ جائیں گے۔ ہندوستان میں ایک برس جلاوطنی کی زندگی گزار کر حسن ناصر واپس پاکستان آ گئے اور زیر زمین کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں لگ گئے۔
1957 میں پارٹی کے مشورے سے حسن ناصر کو پاکستان نیشنل عوامی پارٹی کا آفس سیکریٹری بنا دیا گیا۔ لیکن 1958 میں جب ایوبی مارشل لا کا ملک کے طول و عرض میں نفاذ عمل میں آیا تو حسن ناصر کو ایک بار پھر روپوشی اختیار کرنا پڑی لیکن خفیہ حکومتی ایجنسیاں مسلسل حسن ناصر کا تعاقب کرتی رہیں اور آخر کار 6 اگست 1960 کو کراچی سے حسن ناصر کو گرفتار کر لیا گیا اور ایک بار پھر لاہور کے شاہی قلعہ میں محبوس کر دیا گیا۔ لاہور کے شاہی قلعے میں جو انسانیت سوز سلوک حسن ناصر کے ساتھ روا رکھا گیا اس کے تصور ہی سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بے شک 3 ماہ اور 7 یوم تک اس تشدد کو برداشت کرنا صرف حسن ناصر ہی کا خاصا تھا۔ ایوبی آمر کے اہلکاروں نے حسن ناصر پر ظلم کا ہر حربہ آزمایا لیکن حسن ناصر کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔
13 نومبر 1960کو عزم و ہمت کا پیکر حسن ناصر شہید ہو گیا۔ لیکن کیا حسن ناصر مر گیا؟ یہ تصور کرنا بھی غلط ہو گا کیونکہ حسن ناصر شہید ہوا تھا اور شہید مرتا نہیں۔ شہید اگرچہ دنیا والوں کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے لیکن لوگوں کے ذہن و قلوب میں جا بستا ہے، وہ حسن ناصر جس کو آج سے 53 برس قبل سامراجی قوتوں نے موت کی نیند سلا دیا اور حسن ناصر کی موت کو خودکشی قرار دیا تھا۔ حالانکہ چھ فٹ 2 انچ قد رکھنے والا شخص 6 فٹ بلند چھت والی کوٹھڑی میں لٹک کر کیسے خودکشی کر سکتا ہے۔ اس مفروضے کو احمق ترین انسان بھی تسلیم نہیں کرے گا لیکن ایوبی اہلکاروں نے یہ ہی ڈراما رچایا تھا کہ حسن ناصر نے اس کوٹھڑی جس میں وہ قید تھا اس کی چھت سے لٹک کر خودکشی کر لی ہے۔ وہ حسن ناصر آج ہر انقلابی کے دل میں زندہ ہے بلکہ ہر اس پاکستانی کے دل میں حسن ناصر زندہ ہے جو پاکستان میں تبدیلی کا خواہش مند ہے جس کی خواہش ہے کہ پاکستان سے جہالت کے اندھیرے دور ہوں، جس کی خواہش ہے پاکستان سے غربت کا خاتمہ ہو، عدم مساوات کا خاتمہ ہو، وسائل کی تقسیم میں سب پاکستانیوں کا بلا تفریق مذہب و عقیدہ حق تسلیم کیا جائے۔ مزدور اور ہاری کو اس کی محنت کا پورا پورا معاوضہ ملے۔ حسن ناصر ان سب کے دلوں میں زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک حسن ناصر کی انسان دوست انقلابی سوچ زندہ ہے اور یہ سوچ سدا زندہ رہے گی کیونکہ حسن ناصر کی سوچ رکھنے والے کبھی تھکے نہیں، کبھی رکے نہیں اور کبھی جھکے نہیں۔ آج 13 نومبر 2013 کو حسن ناصر کی 53 ویں برسی پر ہم حسن ناصر کو دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔