برف باری ، نعمت بھی اور زحمت بھی

شہلا اعجاز  ہفتہ 25 جنوری 2020

2007ء اور 2008ء سے گلوبل وارمنگ جیسی اصطلاح سننے کو ملی تھی ، اس موسمی تبدیلی کا عندیہ سائنس دان تو پہلے ہی دے چکے تھے لیکن حقیقی طور پریہ پاکستان میں اس وقت عروج پر نظر آیا تھا جب 2015ء میں موسم گرما اس قدر شدت اختیارکر گیا کہ جس کے باعث انسانی ہلاکتیں ہوئیں۔ ہوا میں آکسیجن کی کمی انسانوں کے لیے خطرہ بن گئی صرف یہی نہیں بلکہ پانی کی قلت بھی دنیا کے لیے مسئلہ بن کر سر اٹھانے لگی۔

پاکستان میں یہ کمی قحط سالی بن کر اتری ، وہیں پڑوس کے ممالک میں بھی یہ کمی نہایت بد ترین شکل اختیار کرگئی۔ پانی کی روک تھام اور بہاؤ پر انسان جیسے شکروں کی مانند ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ 2016ء کے بعد کے سالوں میں بھی گرمی کی شدت تو تھی لیکن اس میںکمی دیکھنے کو آئی، سردیاں نام کی رہ گئی تھیں،یہاں تک حالیہ برس بھی ایسا ہی لگ رہا تھاکہ سردیاں آئیں گی اور چلی بھی جائیں گی پر ایسا نہ ہوا۔

گلوبل وارمنگ ایک وارننگ تھی زمین پرگرمی بڑھ رہی تھی زندگی کا نظام غیر متوازن ہو رہا تھا ، قطب شمالی اور قطب جنوبی پر برف کے بڑے بڑے پہاڑ جو زمین کے لیے آبی ذخیرے کی مانند تھے اس موسمی تبدیلی کے باعث پگھل رہے تھے ، یہ میٹھے پانی کے ذخیرے پگھلتے ہوئے دریاؤں کے راستے سمندر میں بہتے چلے جا رہے تھے، گویا میٹھا پانی کھارا ہوتا جا رہا تھا ، اس طرح سمندروں میں پانی کا لیول اونچا ہو رہا تھا اور اس طرح پانی ساحلی مقامات کے لیے اس قدر خطرناک ہوا جس نے سونامی جیسے طوفانوں کو جنم دیا۔

سائنس دان پریشان تھے کیونکہ قدرتی طور پر پہاڑوں کی برف دھیرے دھیرے پگھلتے ہوئے چشموں کی صورت میں سال بھر اوپر سے نیچے آتی رہتی ہے ، یوں دریا رواں دواں چلتے رہتے ہیں لیکن موسمی تبدیلی نے دھیرے دھیرے کے عمل کو تیز تر کردیا تھا، یوں سمندری پانی میں میٹھا پانی ملنے کے عمل سے دنیا کا نظام درہم برہم ہونے کا امکان سر پر ہی تھا۔ قیامت آنے والی ہے، لوگ کہہ رہے تھے دن گنے جا چکے ہیں۔

انسان تخلیق کر سکتا ہے، جانچ کر سکتا ہے، مفروضات پیش کر سکتا ہے لیکن وہ یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہو گا کیونکہ یہ کام انسان کا نہیں ہے، جو ہمارے ملک میں گلوبل وارمنگ کے حوالے سے بہت واویلا ہوا ، بھارت میں پاکستان کے پانیوں کو روک دینے کی دھمکیاں دی گئیں، یہاں تک کہ یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ اب بھارت پاکستان کا پانی روک دے گا تو پھرکیا ہو گا؟

سوال سر اٹھا رہے تھے چہ میگوئیاں جاری تھیں تب ہی مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اورکچھ اس طرح سے کہ پورا بھارت پانی پانی ہو گیا۔ بھارت جو پاکستان کے پانی کو روکنے کی شیطانی حرکت پر اتر رہا تھا اپنے حفاظتی دروازوں کو کھولنے پر مجبور ہو گیا کیونکہ پانی اپنا اثر دکھا رہا تھا ، شہر ہو یا گاؤں، سڑکیں تالاب بن گئی تھیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک مخصوص وقت پر جب کہ پانی اتر کر دریاؤں اور جھیلوں، سمندروں میں جا گرتا ہے ایسا نہ ہوا پانی کھڑے کھڑے سڑنے لگا، تعفن پھیلنے لگا ، بھارتی میڈیا شور مچا رہا تھا۔ بی جے پی کی سرکار کے بلند و بانگ دعوے اس گندے بارش کے پانی کی مانند بو پھیلا رہے تھے اور پھر اچانک یہ دہائی دینے کا عمل روک دیا گیا کیونکہ بھارتی سرکار کو گراں گزر رہا تھا۔

بات نکلی تھی گلوبل وارمنگ سے جو 2007ء میں زیادہ سننے کو ملی تھی یہ انسانی بس کی بات نہیں کہ قدرت کی جانب سے آفات یا نعمتوں پر بند باندھ سکے لہٰذا اس کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنا اور آفات پر پناہ مانگنا ہی انسان کے لیے بہترین ہے۔ اس برس ہونے والی برف باری پاکستان کے ان علاقوں کے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوئی ، جہاں برف کے تودے گرنے کے باعث گاؤں دب گئے اور ہلاکتیں ہوئیں، کراچی جیسے شہر میں سردی کا درجہ حرارت اس قدرگرا گویا پانچ ڈگری پر لوگوں کو مری جیسی سردی محسوس ہوئی جب کہ لاہور، اسلام آباد، ملتان اور اندرون سندھ میں یہ صورتحال اور بھی شدید رہی، لیکن دوسری جانب برف باری کی صورت میں میٹھے پانی کی آمد ہمارے ملک میں پانی کی کمی کے مسائل کے لیے نعمت ہے۔

وہ ممالک جہاں سال کے یہ مہینے شدید سردی سے جمے ہوتے ہیں دنیا کے بدلتے موسمی مزاج کے باعث گرمیوں کا شکار ہیں۔ یہ کیوں ہو رہا ہے اس پر بحث کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ یہ امر اب ناگزیر ہے کہ سردی کے قدرتی تحائف کو ہم اپنے ملک کے لیے کسی طرح مفید بنا سکتے ہیں کیونکہ فی الحال تو آٹے کا بحران نظر آ رہا ہے گو ہمارا ملک زرعی ہے لیکن پھر بھی گندم کی اس صورتحال پر تشویش لازمی ہے۔ مسائل کو حل کرنے کے لیے اس کی جڑ پر توجہ دینا اور سمجھنا ضروری ہے۔

موسم کی سردی اب بھی برقرار ہے اور کہا یہ جارہا ہے کہ مارچ کے وسط تک اس کی اونچ نیچ رہے گی ، یہ سرد موسم ہمیں مطلع کر رہا ہے کہ جو کچھ سائنس دانوں نے کہا تھا وہ سب کا سب بالکل سچ نہیں ہو سکتا، مفروضہ انسانی سوچ اور خیالات کے ساتھ مختلف کلیات پر عمل پیرا ہو کر سامنے آتا ہے لیکن حقیقت کا اور سچائی کا میزان صرف ایک ہی ذات کے پاس ہے ، ورنہ 1966ء سے 2010ء تک کے درمیان ہونے والی برفباری نے جس طرح زمین کے خطے پر اپنی تبدیلی کا اشارہ دیا تھا اس کے تحت یورپ سے لے کر ایشیا تک میں سردیاں سکڑتی اور موسم گرما کی طوالت جاری تھی۔ امید تھی کہ آیندہ آنے والے برسوں میں حالات اس قدر شدید رخ اختیارکر جائیں گے کہ خدانخواستہ ممالک پانی کے حصول کے لیے جنگ کریں گے۔

شکر خدا کا ہم قدرتی آفات اور نعمتوں کو سمجھتے ہیں ، ورنہ حال ہی میں آسٹریلیا میں جنگلات میں آگ لگی اور ہزاروں جانور اس کا شکار ہوئے وہیں ماہر شکاریوں نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے دس ہزار کے قریب اونٹوں کو جان سے مار دیا۔ اس طرح کی یہ احمقانہ حرکت وہاں پہلی بار نہیں ہوئی ہے بلکہ پہلے بھی قحط کے باعث مختلف جانوروں کو جان سے مارا جا چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جس ذات نے پیدا کیا ہے اسی کے ذمے روزی روٹی کا حق ہے۔

سچ ہی کہا ہے کسی عقل مند نے کہ دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام۔ تو پھر لمبی لمبی منصوبہ بندی کے بجائے مختصر دورانیے پر توجہ دی جائے اور پانی کی کمی اور غذائی قلت جیسے بڑے مسائل کو ختم کرنے کے لیے شروعات کی جائیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک مالی بیج بوتا ہے یہ سوچے بنا کہ اس کا پھل اسے کھانا نصیب بھی ہو گا یا نہیں لیکن اس پھل کو جتنی بھی نسلیں کھا کر خدا کا شکر ادا کریں گی مالی کو اس کا اجر پہنچتا رہے گا، یہ قدرت کی خوبصورتی کا ایک سنہرا نظام ہے خدا ہم سب کو اس سے مستفید کرے۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔