سیاست اور مذہب جدا جدا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 20 نومبر 2013

جون ایلیا کہتے ہیں کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دستر خوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کر رہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے 1894ء میں اپنے خطبہ بعنوان ’’علما کے فرائض‘‘ میں ہندوستان کے مولویوں کو یہ تلقین کی کہ وہ سیاست سے الگ رہ کر محض مذہبی مسائل میں نہ الجھے رہیں بلکہ وہ متحد ہو کر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور ندوۃ العلماء کو سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے خواہش مند علماکی تنظیم کا مرکز بنائیں۔ مولانا شبلی نعمانی کا خیال تھا ’’اس وقت ندوۃ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اوقاف کے لاکھوں روپے جو متولیوں کے ہاتھ سے نہایت بیدردی سے برباد ہو رہے ہیں ندوۃ کے ہاتھ میں دے دیے جائیں اور گورنمنٹ نہایت خو شی سے اس دعویٰ کو قبول کر لے۔ جس طرح زمانہ قدیم میں عدالت میں فقہی مسائل کے لیے قاضی و فقیہہ مقرر کیے جاتے تھے وہ قاعدہ از سر نو قائم کیا جائے ندوۃ کو اس وقت یہ قوت حاصل ہو گی کہ تمام جماعت اسلامی ہدایتو ں کی پابند ہو۔ اس کے فیصلوں سے سر تابی نہ کر سکے اس صورت میں ندوۃ قوم کو تمام بیہودہ مراسم سے، خلاف شرع باتوں سے، ناجائز امور سے بزور روک سکتا ہے اور جماعت اسلام کو نماز کا روزہ کا حج کا زکوۃ کا بزور پابند کر سکتا ہے‘‘۔ یہ مولانا شبلی نعمانی کے اس مشورے ہی کا اثر تھا کہ ہندوستان بھر کے مولویوں نے دسمبر1919ء میں جمعیت العلماء ہند کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کا نصب العین یہ تھا کہ مسلمانان ہند کی سیاسی و غیر سیاسی امور میں رہنمائی کی جائے گی۔ یہ ہندوستانی مولویوں کی پہلی سیاسی تنظیم تھی اور مولویوں کا سیاست میں پہلا قدم تھا۔

اگر کوئی ڈاکٹر اپنا کام چھوڑ کر انجینئر بن جائے یا کوئی انجینئر ڈاکٹر ی شروع کر دے تو ظاہر ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اور نتیجے کے بعد بھی بضد ہوں کہ ہم دوسروں کا کام ان سے بہتر کر سکتے ہیں تو پھر تباہی اور بر بادی ہی مقدر بنے گی ۔ 1947ء میں صرف پاکستان ہی قائم نہیں ہوا بلکہ برصغیر آزاد ہوا اور ہم بھی آزاد ہوئے تو اصل کارنامہ برصغیر کی آزادی کا تھا جس میں ہندوستان میں رہنے والے سب لوگوں کا حصہ تھا۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں جو تقریر کی اس میں پاکستان کے قیام کو معجزہ نہیں کہا بلکہ برصغیر کی آزادی کو معجزہ کہا۔ مسلم لیگ میں شعیہ، سنی، بریلوی، دیوبندی، اہلحدیث سبھی شامل تھے اسی طرح مسلم لیگ کے مخالفین میں بھی تمام مسالک کے لوگ شامل تھے برصغیر سیاسی طور پر تقسیم ہوا تھا نہ کہ مذہب کی بنیاد پر۔ وہ تمام مذہبی عناصر اور گروہ جو مطالبہ پاکستان کے قائل ہی نہیں تھے اور نہ ہی جن کا جدوجہد پاکستان میں کوئی کردار تھا وہ سب پاکستان بننے کے بعد پاکستان میں داخل ہو گئے۔ اور پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق مخصوص اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے میں مشغول ہو گئے۔

دوسرے لفظوں میں انھوں نے اپنے سابقہ نظریہ قومیت وطنیت کو خیر باد کہہ کر مذہبی نظریہ قومیت کو پروان چڑھانا شروع کر دیا۔ اور نظریہ پاکستان کی اختراعی اصطلاح کو ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت بڑی ہوشیاری سے قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں ہی جنم دے دیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی اسے ایک سرابی دھوکے کے تحت تعلیمی اداروں میں داخل کر نے، نصاب میں شامل کرنے اور نونہالوں کے ذہنوں میں ٹھونسنے کے لیے تگ و دو شرو ع کر دی۔ یاد رہے قیام پاکستان سے پہلے نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا کوئی وجود نہ تھا۔ پاکستان کے مخالفوں، مفاد پرستوں، انتہاپسندوں کا اصل کارنامہ یہی تھا کہ انھوں نے انتہائی چابکدستی سے دو قومی نظرئیے کو نظریہ پاکستان کی اصطلاح میں تبدیل کر دیا۔ دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان کا چوغہ پہنانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اگر اس سے کوئی انکار کرے تو کافر و مرتد ٹھہرے۔1953ء میں پاکستان کے اہم شہر لاہو ر میں فسادات پھوٹ پڑے، مشتعل افراد ایک اقلیتی فرقے کو یہ حق نہیں دینا چاہتے تھے کہ وہ خو د کو مسلمان کہلوائے۔ مظاہرین کی عدم برداشت کا عالم یہ تھا کہ لاہور میں ملک کا پہلا مارشل لا نافذ کر نا پڑا۔ پنجاب کی صوبائی حکومت نے فسادات کی وجو ہ کی نشاندہی کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جو ہائی کورٹ کے جسٹس محمد منیر اور جسٹس ایم آر کیانی پر مشتمل تھا۔

فسادات کی تحقیق و تفتیش کے دوران ٹریبونل نے علماء سے بھی رہنمائی کے لیے رابطہ کیا اور مذہب کا علم رکھنے والے کم و بیش تمام جید علماء کے بیانات قلمبند کیے۔ ہر عالم کا بیان لینے سے پہلے ججوں نے قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر پڑھ کر سنائی اور اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں قلمبند کیا ’’ہم نے علما سے پوچھا کہ ریاست کا یہ تصور ان کے لیے قابل قبول ہے تو ان میں سے ہر ایک نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے نفی میں جواب دیا۔ ان میں احرار بھی شامل تھے اور سابق کانگریسی بھی۔ جنہیں تقسیم سے پہلے یہ ہی تصور کسی پختہ عقیدے کی طرح محترم تھا۔ اگر مولانا امین احسن اصلاحی کی شہادت جماعت اسلامی کے نظریے کی درست ترجمانی کرتی ہے تو اس کے مطابق ایک ایسی حکومت جو ایسے 11 اگست کی تقریر میں بیان کیے گئے نظریے پر قائم ہو باطل تخلیق ہے‘‘ ۔ اور یہ بھی امر قطعی حیران کن نہیں کہ جج صاحبان کے سامنے جب علماء کی طرف سے مسلمان کے بارے میں بہت سی مختلف بلکہ متضاد تعریفیں سامنے آئیں تو وہ مایوسی کے عالم میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’علما کی جانب سے مسلمان کی بہت سی تعریفیں سامنے آنے کے بعد بھی کیا اس امر کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی بھی دو عالم اس بنیادی مسئلے پر متفق نہیں ہیں۔

فاضل علماء کی طرح اگر ہم بھی مسلمان کی تعریف کرنے کی کو شش کریں اور اگر وہ ان کی طرف سے دی گئی تعریف سے مختلف ہو تو ہم بھی متفقہ طور پر دائر ہ اسلام سے خارج قرار پائیں گے۔ اگر ہم ان میں سے کسی ایک عالم کی طرف سے آنے والی تعریف قبول کر لیتے ہیں تو ہم اس عالم کی نظر میں مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں جب کہ باقی تما م علماء ہمیں فوری طور پر بے دین قرار دے ڈالیں گے‘‘۔ سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے مذہبی رہنما 1947ء سے ہی اسلام کا نعر ہ بلند کیے ہوئے ہیں اور دن رات اسلام کی تبلیغ اور نظریہ پاکستان کی تشہیر میں مصروف ہیں مگر پھر بھی وہ ملک میں عدل و احسان، عدم برداشت، مذہبی رواداری کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ جس شدت سے ملک میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سرگرمیاں تیز کی گئیں اسی تیزی کے ساتھ معاشر ہ دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ واریت، اخلاقی جرائم میں مبتلا ہوا۔ جب ہم سیاسی اور ثقافتی اقتدار کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں تو وہیں سے خرابی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر آپ مختلف فرقوں کا ماخذ دیکھیں تو فرقوں کی ابتداء بھی سیاسی حوالوں سے ہوئی ہے۔

پاکستان خوشحال، ترقی یافتہ، اعتدال پسند، روشن خیال ملک صرف اور صرف قائد اعظم کے دیے گئے اصولوں پر کار فرما ہو کر ہی ہو سکتا ہے اس کے علاوہ باقی تمام راستے بربادی کی طرف جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ہمیں سیاست اور مذہب کو بھی الگ الگ کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔