کورونا ہماری اصلاح کر رہا ہے، خیر مقدم کیجیے

عمران خان  پير 30 مارچ 2020
کورونا وائرس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کا جو ہمدرد اور شفیق چہرہ سامنے آیا، میڈیا اسے دنیا کے سامنے پیش نہیں کررہا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

کورونا وائرس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کا جو ہمدرد اور شفیق چہرہ سامنے آیا، میڈیا اسے دنیا کے سامنے پیش نہیں کررہا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

کورونا جتنا بھی موذی سہی مگر سبق، حکایت، نصیحت اور مصلحت کے ضمن میں ایک استاد کا درجہ رکھتا ہے۔ اب تک تو یہی پتا تھا کہ نماز جمعہ کےلیے دیر ہونے کا اندیشہ ہو تو دو چار سگنل توڑنے میں بھی کوئی حرج نہیں، دوران بارش مسجد پہنچنے کی جلدی میں دوسروں پر سڑک کنارے کھڑے پانی کی چھینٹوں کا چلے جانا بھی معمولی بات ہے۔ حج پر پہنچنے کےلیے نفع کی شرح بڑھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کی دوڑ میں حقوق العباد روندے بھی جائیں تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ کورونا سے پہلے تو محسوس ہوتا تھا کہ شلوار کے پائنچے اوپر نیچے ہونے سے ایمان کی شرح اوپر نیچے ہو جاتی ہے۔ پیر و مرشد کے ہاتھ کا بوسہ نہ لیا تو جان و مال سے برکت نکل جائے گی۔ گیارہویں شریف کا سالانہ ختم قضا ہوا تو سمجھو دال روٹی سے بھی گئے، سالانہ میلاد، لنگر، نیاز، مجلس کی محفل رہ گئی تو سمجھو اب تک کے سب کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔ قل، چہلم، برسی کے پروگرام منعقد نہ ہوئے تو مرحوم کا انتقال ہی مکمل نہیں ہوگا، نہ یہ جہاں اور نہ وہ جہاں۔

ہزار موذی سہی مگر کورونا نے یہ تو سمجھا دیا کہ انسان اور انسانیت مقدم ہیں۔ مذاہب، مسالک انسانوں کےلیے ہیں۔ انسان مذاہب، مسالک، فرقوں کےلیے نہیں۔ معاشرے کی بقا کا مسئلہ درپیش ہو تو نماز جمعہ بھی ظہر میں بدلی جا سکتی ہے۔ اپنی اور دوسرے انسانوں کی صحت و سلامتی کی خاطر فرض نمازیں بھی مسجد کے بجائے گھر میں پڑھنے کا اجر و ثواب ہے۔ چوتھا، چھٹی، گیارہویں، تیرہویں، خمسہ، عشرہ، میلاد، مجلس، قل، چہلم، برسی کے اجتماعات بھی معاشرے کے استحکام، امن، سلامتی کےلیے ترک کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ دور کے عزیزوں کو اپنے پیاروں کے جنازوں میں شرکت سے بھی روکا جا سکتا ہے۔

شلوار کا پائنچہ تو درکنار، منہ پر پڑا نقاب بھی خالق حقیقی کے سجدہ میں حائل نہیں۔ جان بچانا ہدف ہو تو قائد، پیر، حضرت، آغا، سائیں، سرکار کا بوسہ تو کیا مصافحہ اور نزدیک کا سلام بھی ترک کرنے میں بھی عار نہیں۔ قصہ مختصر کہ انسانی جان سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے (’’جس نے کسی ایک انسان کی زندگی بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا۔‘‘ قرآن کریم، سورة المائدہ) انسانوں کی خیر خواہی، معاشرے کی بھلائی کی خاطر ان تمام معاملات پر سمجھوتہ ہوسکتا ہے کہ جن کےلیے بظاہر تن من دھن قربان کرنے کی خود ساختہ قسمیں کھائی جاتی ہیں، حلف اٹھائے جاتے ہیں یا عہد کیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو مسائل و معاملات ہم زندگی موت کا مسئلہ سمجھتے ہیں، انسانی زندگی کے سامنے ان کی وقعت و اہمیت کم ہوتی ہے۔

مانا کہ کرونا کے موذی پن کا احاطہ ممکن نہیں، مگر اس کے اثرات کا یہ پہلو خوش آئند ہے کہ لاشعوری طور پر یہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے بلاتفریق رنگت، مذہب و مسلک، ہمدردی اور غمگساری پر اکساتا ہے۔ کورونا کی کیا یہ عنایت کم ہے کہ اس نے چین، امریکا، ایران، سعودی عرب، یورپ، پاکستان، افغانستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے انسانوں کا دکھ سانجھا کر دیا ہے۔ کچھ دیر کےلیے ہی سہی، انہیں ایک دوسرے کو درد دینے کی سوچ و فکر سے نکال کر درد مشترک میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج معبد، مندر، مسجد، کلیسا، حرم، مینار، گنبد، صلیب، پنجہ، کراس، کرپان والوں کو ایک مشترکہ مسئلہ درپیش ہے اور کورونا کی وجہ سے ہی وہ ایک دوسرے کا درد بھی محسوس کر رہے ہیں۔ آج ووہان کے ملحد کے مرنے کا اتنا ہی افسوس کیا جا رہا ہے کہ جتنا سعودی عرب کے سلفی، وہابی کے مرنے کا، جتنا ایران کے شیعہ کی موت کا غم ہے، اتنا ہی غم اٹلی کے مسیحی کا بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

مادر پدر آزاد سمجھے جانے والے امریکی یورپی کے مرنے کا درد اور پڑوسی بھارت میں گاؤ موتر پینے والے ہندو میں کورونا سے ہونے والی ہلاکت کا درد ایک جتنا ہی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کورونا کا سب سے زیادہ شکار ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی ہوئی ہے۔ دور کیوں جائیں، پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے جہاں عشروں کی محنت شاقہ کے بعد ایک خاص ماحول اور فضا قائم ہوئی تھی۔ صوبائیت، فرقہ واریت، قومیت، لسانیت کے نام پر نفرت، عدم برداشت، تشدد، انتہاء پسندی کی فضا۔ جہاں مذہب کے فرق کی بنا پر جوان جوڑے اینٹوں کے بٹھوں میں زندہ بھسم کر دیئے جائیں، جہاں گھر تو گھر پوری بستی کو پھونک ڈالا جائے، جہاں محض مسلکی تفریق کی بنیاد پر منظم نسل کشی کی جائے۔ جہاں نیچے سے اوپر تک تمام سرکاری عہدوں کےلیے قوم، نسل، مذہب، مسلک کو ملحوظ رکھا جائے۔

یہاں تک کہ فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں کو بھی قومیت یا مسلک کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ایسی فضا میں اس قاتل وائرس نے اپنا اثر یوں دکھایا کہ آج سعودی عرب سے آنے والے کورونا کو بھی اتنا ہی ہلاکت خیز سمجھا جا رہا ہے کہ جتنا ایران سے آنے والے کورونا کو۔ (جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔) آج اٹلی سے آنے والی بیماری کے خلاف عوام اور حکومت اتنے ہی مستعد ہیں کہ جتنے مستعد وہ ترکی سے آنے والے کورونا متاثرین کےلیے ہیں۔ کورونا نے پاکستان کو کم از کم اتنی خود مختاری تو بخش ہی دی ہے کہ ایئر پورٹس پر تمام سفارت کاروں کو ایک ہی مشین میں سے گزارا جا رہا ہے، چاہے وہ سفارت کار امریکی ہو یا ایرانی، ترک ہو یا انگلستانی۔ اسی کورونا کی بدولت تو ہم ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر آگئے ہیں۔ اگر چین، امریکا میں ہمارے افراد کے بخار چیک ہوتے ہیں تو ہم بھی اپنے ایئرپورٹس پر ان کا ٹمپریچر ماپ رہے ہیں۔

وطن عزیز میں موجود تمام مذہبی، سیاسی اور مسلکی جماعتوں کے فلاحی اور ویلفیئر ونگز اپنی ذہنی اور مالی استعداد کے مطابق بلاتفریق اپنی فلاحی سرگرمیاں سرانجام دینے میں لگے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے تو سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ویلفیئر ونگز کے ساتھ ساتھ آزاد سوشل ادارے بھی اپنی ان سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے، مگر خوف کا دور دور تک کوئی نام نشان نہیں۔ کاروبار زندگی بند ہیں، مگر عوامی سطح پر بدسکونی کا شائبہ تک نہیں۔ قرنطینہ مرکز کے فوکل پرسن بتا رہے ہیں کہ ضرورت کی اشیا موجود ہیں، مزید کوئی حاجت نہیں۔

اگر کہیں راشن لینے والے مستحقین کا رش لگا ہے تو گھروں، بازاروں، دکانوں، دفاتر کے باہر ایسے سائن بورڈز کی بھی بہتات ہے کہ جن پر جلی حروف میں یہ عبارت کندہ ہے:

’’ضرورت مند باعزت طریقے سے یہاں کھانا کھا سکتے ہیں۔‘‘

’’آپ کو راشن چاہیے تو حسب ضرورت یہاں سے لے سکتے ہیں۔‘‘

’’جس مزدور بھائی کی دیہاڑی نہیں لگی، وہ سامان مفت لے سکتا ہے۔‘‘

’’راشن تقسیم کے اوقات ذیل ہیں۔‘‘

’’دیہاڑی دار افراد کےلیے دودھ اور دہی 30 روپے کلو دستیاب ہے۔‘‘

کہیں ’’میڈیکل ماسک 6 روپے میں دستیاب ہے‘‘ کا بینر لگا ہے تو کہیں ارزاں نرخوں پر آٹے کی فروخت کا یا ٹرکوں پر آٹے کی تقسیم جاری ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کا وہ حقیقی روشن پہلو ہے کہ جو کورونا کے باعث سامنے آیا ہے۔

افسوس اس معاملے میں ہمارے میڈیا کی مثال اس مکھی کی سی ہو ئی ہے کہ جو پورے جسم کو چھوڑ کر گندے زخم پر آکر بیٹھتی ہے۔ جو ایسی خبریں تو تسلسل سے جاری کر رہا ہے کہ جن سے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو، بدسکونی، خوف کی فضا بنے، مگر اچھی خبریں کہ جن میں خیر کا پہلو ہو، ان سے کنی کترا رہا ہے۔

ہمارے میڈیا کو یہ تو دکھائی دیا کہ کچھ ڈاکٹرز نے بغیر ضروری سامان، لباس وغیرہ کے بغیر کورونا مریضوں کا علاج کرنے سے معذرت کی، مگر اسی میڈیا کو یہ نہیں دکھائی دیا کہ ابتدائی دنوں میں بیشتر بڑے اسپتالوں کے اندر ہمارے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملے نے کورونا سے بچاؤ کےلیے درکار لباس اور سامان کے بغیر ہی مریضوں کو ٹریٹ کیا۔ ہمارے میڈیا کو گاڑی کی چھتوں پر، مسافر کوچوں کی ڈگیوں میں رشوت دے کر چوری چھپے سفر کرنے والے کورونا کے مشتبہ مریض تو نظر آگئے مگر بھکر کا رہائشی وہ سادہ لوح نظر نہیں آیا کہ جو 20 کلومیٹر محض اس لیے پیدل چلا کہ وہ خود کو کورونا کا مریض سمجھ رہا تھا اور یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا مرض کسی دوسرے شخص کو منتقل ہو۔

میڈیا کو وقتی طور پر فیس ماسک کی قلت تو دکھائی دی، مگر اب اپنی مدد آپ کے تحت جا بجا اس ماسک کی تیاری اور انسانی بنیادوں پر اس کی مفت یا ارزاں نرخوں پر فراہمی نہیں دکھائی دی۔

ملک بھر میں وینٹی لیٹرز کی قلت کا شور برپا ہوا، مگر پاکستانی طالب علموں نے ان کی استعداد میں جو تین گنا اضافہ کیا، اس کا ذکر کہیں نہیں۔ ملک میں اسپتالوں کی کمی، پیرا میڈیکل اسٹاف کی کمی کا رونا تو جاری ہے، مگر انسانی بنیادوں پر جن نجی اداروں نے اپنی املاک قرنطینہ کےلیے پیش کیں، ان کا ذکر کہیں نہیں۔ میڈیا اس خطرے سے تو بار بار آگاہ کر رہا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہوئے تو لاشیں اٹھانے کےلیے بھی مطلوبہ آپریشنل مشینری نہیں ہوگی، مگر یہ نہیں بتا رہا کہ کسی بھی ملک میں کورونا سے ہلاک ہونے والوں میں سب سے کم شرح پاکستان کی ہے۔ شاید کہ پاکستانی قوم کا امیون سسٹم کورونا کے خلاف زیادہ قوی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کورونا کی تباہ کاریاں اپنی جگہ، مگر اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے کا جو غمگسار، ہمدرد اور شفیق چہرہ سامنے آیا، اسے عوام اور دنیا کے سامنے اس طرح پیش نہیں کیا گیا کہ جس طرح کیا جانا چاہیے تھا۔

کاش کہ یہ قوم دہشت گردی، انتہاء پسندی کے خلاف جنگ میں بھی اسی طرح یکجان ہوتی تو یقیناً وطن عزیز اتنی تباہی سے دوچار نہ ہوتا؛ اور کاش کہ ریاست بھی دہشت گردوں کے خلاف اس طرح زیرو ٹالرینس پالیسی اپناتی کہ جیسی کورونا کے خلاف اپنائی ہے تو کوئی پاکستانی عدم تحفظ کا شکار نہ ہوتا۔ دنیا کے باقی ممالک کے بارے میں تو وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے، مگر پاکستانی معاشرے کے اب تک کے چلن کو دیکھتے ہوئے یقین کی حد تک امید ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس کڑے امتحان سے بہت جلد سرخرو ہوکر نکلے گی اور خیر کے پہلو رکھنے والے موذی کرونا پر اسی تیسرے فیز میں ہی مکمل طور پر قابو پا لے گی۔ ان شاء اللہ!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عمران خان

عمران خان

بلاگر ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافی ہیں۔ میڈیا واچ پاکستان سمیت متعدد اداروں سے وابستہ ہیں، مختلف ویب سائٹس اور قومی اخبارات میں باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔