لبرل ازم سے چڑ کیوں؟

خوش بخت صدیقی  منگل 2 جون 2020
لبرل کے معنی ’’اختلاف رائے کا احترام‘‘ اور ’’دوسروں کی ذاتیات کا احترام‘‘ کرنا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لبرل کے معنی ’’اختلاف رائے کا احترام‘‘ اور ’’دوسروں کی ذاتیات کا احترام‘‘ کرنا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لبرل آنٹی، دیسی لبرل، لنڈے کے لبرل… یہ وہ اصطلاحات ہیں جو آج کل سوشل میڈیا پر تنگ ذہن افراد، ترقی پسند یا لبرل ازم کے نظریے کے تحت اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والوں کو زچ یا ایذا پہنچانے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔

اکثریت تو خیر گالیاں دیے بغیر بات کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی ہے لیکن بظاہر سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے افراد بھی ان اصطلاحات کو استعمال کرکے اگلے کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر ان سے بات نہ بنے تو پھر ان کا بھی اگلا ہتھیار گالم گلوچ ہی ہوتا ہے۔ اور اگر لبرل ازم کا نعرہ لگانے والی کوئی خاتون ہوں پھر یا تو ان کو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والی کہہ کر کافر ٹھہرادیا جاتا ہے یا پھر آن لائن باقاعدہ اجتماعی جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔ جس کے بعد یا تو خاتون خاموش ہوجاتی ہیں یا پھر ان کا کوئی رشتے دار یا عزیز اپنی عزت رلتے دیکھ کر خاتون کو چپ رہنے کی تاکید کردیتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لبرل ازم کی اصطلاح میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کو پاکستان میں اتنا برا سمجھا جاتا ہے یا پھر یہ محض جہالت اور بدزبانی کا گھمنڈ ہے جو دوسروں کو ان کے حق رائے دہی سے بزور طاقت روکنا چاہتا ہے اور ان پر اپنے نظریات زبردستی تھوپنا چاہتا ہے۔

دنیا کی تمام مستند، جدید ترین لغت کے مطابق لفظ ’’لبرل‘‘ کا مفہوم ’’جیو اور جینے دو‘‘ ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت سب سے بہترین لغت آکسفورڈ ڈکشنری ہے، جس کے مطابق لفظ لبرل کے معنی ’’اختلاف رائے کا احترام‘‘ اور ’’دوسروں کی ذاتیات کا احترام‘‘ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ میریم ویبسٹر نامی مشہور اور مستند ترین لغت کے مطابق بھی لبرل کے معنی ’’آزاد خیال‘‘ یا ’’ترقی پسند‘‘ کے ہی نکلتے ہیں۔ اب ترقی پسند ہونے میں یا اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے میں ایسی کون سی قباحت ہے جو ہمارے منافق معاشرے میں لفظ لبرل کو گالی کے پہلے اور کفر کے آخری درجے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے؟

لبرل طبقہ ہر بات کو دلیل اور عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے، اس لیے عموماً لبرل طبقے پر مذہبی افراد نکتہ چینی کرتے نظر آتے ہیں۔ شاید ان کے نزدیک ایسا کرنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ تو جناب لبرل ازم کا کسی طور بھی کفر یا لادینیت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو تمام مذاہب کی اعلیٰ ترین خصوصیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کیونکہ دنیا کے تمام تر مذاہب کے مطابق ہر انسان کے ذاتی افعال کا ذمے دار وہ خود ہوتا ہے اور روز قیامت انسان اپنے اعمال کا جوابدہ خدا کے آگے خود ہوگا، نہ کہ کوئی دوسرا۔ دنیاوی اور خدائی قوانین کے مطابق جب تک کوئی شخص کسی دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتا اسے اپنی زندگی اپنے طور پر جینے کا پورا حق ہے اور آزادی اظہار تو انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ مزید یہ کہ اگر کوئی لادین ہے بھی تو کسی لادین شخص کے گناہوں کی سزا یقیناً آپ کو نہیں دی جائے گی۔ تو پھر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستانی معاشرے میں لبرل ازم کے تحت اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے افراد کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کے برعکس گالم گلوچ اور بہتان بازی کرنا، ایک دوسرے کی ذاتیات میں مداخلت کرنا باعث فخر سمجھا جاتا ہے؟ اس احمقانہ اور بیہودہ رویے کی کوئی ایک بھی دلیل ہے تو ضرور پیش کیجئے۔

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ ہر شخص یہاں اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کےلیے آزاد ہے۔ دوسروں کو اپنی بات کہنے کا موقع دیجئےکیونکہ یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ البتہ اختلاف رائے کرنا آپ کا بھی حق ہے، لیکن تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے۔ بہتر یہی ہے کہ دوسروں پر اپنے اندھے نظریات تھوپنے کے بجائے ان کے نظریات پر بھی غور کیجئے، کیا پتہ اصلاح کی کوئی صورت نکل ہی آئے اور اگر آپ کا ظرف اس بات کی اجازت نہیں دیتا تو اپنا نقطہ بغیر گالم گلوچ کے بیان کیجئے۔ بحث کے بجائے دلیل میں وزن پیدا کیجئے۔

دنیا کے کسی مذہب اور کسی معاشرے میں گالیاں دینے والے شخص کو کبھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ بحیثیت قوم نہ سہی محض اپنی عزت نفس کےلیے ہی اپنی زبان پر قابو کرلیجئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خوش بخت گل

خوش بخت صدیقی

بلاگر عملی سیاسیات میں ایم فل کی طالبہ ہیں. سیاسی، سماجی اور معاشرتی نظام میں ناانصافیوں اور بدصورت رویوں کے خلاف اپنے نظریات قلم کے ذریعے عوام کے سامنے لانا چاہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔