چیف جسٹس کا ناقابل فراموش دور…

ناصر الدین محمود  جمعرات 12 دسمبر 2013

اکتوبر 1954ء میں پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد نے اُس وقت کی قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا اس اقدام کے خلاف اُس اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ دائر کی۔ سندھ چیف کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو خلاف آئین قرار دیکر اُسے معطل کر دیا۔ گورنر جنرل، سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ (سپریم کورٹ) پہنچ گئے۔ وہاں جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کو تکنیکی بنیادوں پر کالعدم قرار دے دیا۔ جس کے نتیجے میں گورنر جنرل کا اقدام خود بخود درست قرار پا گیا۔ جسٹس منیر کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان میں ایک ایسے آئینی اور عدالتی بحران نے جنم لیا کہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتا چلا گیا۔ اس کے بعد سے عدلیہ کا کام محض یہی ہو کر رہ گیا کہ ریاست کے اقتدار پر جو بالادستی قائم کرے اس کے اقتدار کی توثیق کر دی جائے۔ ملک میں آئین منسوخ اور معطل کیے جاتے رہے اور عدلیہ ان اقدامات کو درست قرار دیتی رہی۔ عوامی حکومتوں کو ختم کر کے مارشل لاء لگائے جاتے رہے اور عدلیہ اپنے حلف سے روگردانی کر کے پی سی او کے تحت حلف لیتی رہی۔ یہاں تک کہ 9 مارچ 2007ء کا وہ دن آ گیا کہ جب اپنے اقتدار کے نشے میں چُور مطلق العنان حکمراں جنرل پرویز مشرف نے ریاست کے سب سے معتبر ادارے اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس افتخار محمد چوہدری کو آرمی ہائوس طلب کر کے ان سے استعفیٰ کی خواہش کا اظہار کیا۔

ان کی جانب سے استعفیٰ حاصل نہ ہونے کی صورت میں، انھیں خوف زدہ کیا گیا اور کئی گھنٹے محصور رکھا گیا تا کہ جسٹس افتخار مستعفی ہو جائیں لیکن انھوں نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر انکار کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ اگرچہ جنرل پرویز مشرف نے انھیں ان کے منصب سے معزول کر کے ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا لیکن ان کے اس ایک انکار نے مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے افسوسناک فیصلے سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی بغاوت کی توثیق اور پی سی او تک پوری قوم کی شدید مایوسی کا نہ صرف خاتمہ کر دیا بلکہ اس کا کفارہ اس شان سے ادا کیا گیا کہ چیف جسٹس کی بحالی اور اعلیٰ عدلیہ کی آزادی کی تحریک، قومی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو سمیت تمام قومی رہنماء اس تحریک کا حصّہ بن گئے۔

جنرل پرویز مشرف کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔ جسٹس رمدے کی سربراہی میں اعلیٰ عدلیہ کے ایک بینچ نے اپنے تاریخی فیصلے میں جنرل پرویز مشرف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اُسے کالعدم قرار دیدیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو 20 جولائی 2007ء کو ان کے منصب پر بحال کر دیا۔ جسٹس افتخار نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے حلف کی مکمل پاسداری کا عہد کیا اور اس پر سینہ سپر ہو گئے۔ اس کے بعد تمام فیصلے آئین اور قانون کے تقاضوں کے مطابق ہونے لگے۔ اعلیٰ عدلیہ کا یہ رویہ حکمراں جنرل پرویز مشرف کے لیے ناقابل برداشت ہوتا گیا یہاں تک کہ جنرل پرویز مشرف کو3 نومبر 2007ء کو ایک بار پھر غیر آئینی قدم اٹھانا پڑا اور انھوں نے آئین کو ایک بار پھر معطل کر کے بطور چیف آف آرمی اسٹاف ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی۔ اس مرحلے پر اعلیٰ عدلیہ نے اپنے روایتی کردار کے برخلاف چیف آف آرمی اسٹاف کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے نئے پی سی او پر حلف نہ لینے والے تمام ججز کو ان کے منصب سے معزول کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ایک ایسی تحریک چلی کہ مطلق العنان پرویز مشرف کے اقتدار کے دن کم ہوتے گئے۔

یہاں تک کہ 2008ء میں پرویز مشرف کو اپنے اقتدار سے معزول ہونا پڑا اور اس کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری قوم کی ایک عظیم الشان تحریک کے نتیجے میں 6 مارچ2009ء کو ایک بار پھر اپنے منصب جلیلہ پر بحال کر دیے گئے۔ ان کی بحالی پاکستان کے غریب اور بے یارو مددگار عوام کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ اس تبدیلی نے، معاشرے کے کمزور اور ناتواں افراد اور ریاست کے طاقتور ترین افراد کو قانون کی نظر میں برابر بنا دیا اور ماضی کے اس تصّور کو زائل کر دیا کہ قانون صرف غریبوں کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے بعد ریاست کے اہم ترین منصب پر فائز طاقتور شخصیات اعلیٰ عدلیہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہو گئیں۔ آزاد عدلیہ کے وجود میں آنے کے بعد کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عدلیہ، فوج سمیت سینئر بیورو کریٹس اور دولت مند افراد کے خلاف مقدمات سے صرف نظر کرے گی جب کہ عدلیہ کا سارا زور پیپلز پارٹی کی حکومت اور اس کی قیادت تک محدود رہے گا۔ لیکن ان کے تمام خیالات غلط ثابت ہوئے۔

اعلیٰ عدلیہ نے لاپتہ افراد کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے کے حوالے سے جس قدر سخت رویہ اختیار کیا اور لاپتہ افراد کو پیش نہ کیے جانے پر وفاقی وزیر دفاع اور ایف سی کے آئی جی سے جس انداز میں جواب طلبی کی، ماضی میں اس کا تصّور بھی محال تھا۔ عدلیہ نے اپنی آزادی کے بعد نہ صرف اعلیٰ ترین فوجی افسران، سینئر بیورو کریٹس بلکہ بڑی بڑی کاروباری شخصیات اور حد تو یہ کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو بھی سپریم کورٹ کے واضح احکامات کی پاسداری نہ کرنے اور سپریم کورٹ کی توہین کرنے کی پاداش میں توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا سنائی اور انھیں منصب سے نااہل قرار دے دیا۔ میمو گیٹ کیس میں اُس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا سے بیان حلفی طلب کیے گئے۔ اس کے علاوہ اصغر خان کیس کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ تھی کہ عدلیہ خواہ کتنی ہی طاقتور ہو جائے لیکن اس مقدمہ کی شنوائی نہیں ہو سکے گی لیکن یہ توقع بھی غلط ثابت ہوئی۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ سپریم کورٹ نے نہ صرف اس مقدمہ کو سنا بلکہ سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو فوجداری مقدمات کی کارروائی کی سفارش بھی ایک ناقابل یقین واقعہ ہے۔

یہ کہنا یقینا درست نہیں ہو گا کہ جسٹس افتخار سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی لیکن ہمیں اس بات پر مطمئن رہنا چاہیے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد بطور چیف جسٹس آف پاکستان ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ جن کی بدولت اعلیٰ عدلیہ کا معاشرے میں وقار بحال ہوا انھوں نے پاکستان کی عدلیہ پر گہرے اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ انھوں نے کسی دبائو میں آئے بغیر مقدمات کو نمٹایا اور فیصلے کیے۔ عدلیہ بحالی تحریک میں ان کے کچھ رفقاء ان کے چند اقدامات پر معترض ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ماتحت عدالت کی اس حد تک بہتری کے اقدامات نہیں کیے گئے جو کیے جا سکتے تھے۔ بہر حال جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستان کی بے سمت عدلیہ کو ایک سمت عطا کر دی ہے۔ اب ان کے بعد آنے والوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عدلیہ کے وقار میں اضافے کے عمل کو جاری رکھیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں، ماتحت عدلیہ کو بدعنوانی سے پاک کریں اور انصاف کی فراہمی کو ممکن بنائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔