جادوئی گولی؛ جراثیم کش دواؤں کی ابتدا

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  اتوار 20 ستمبر 2020
سال ورسان 606 دنیا کی پہلی جراثیم کش دوا تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سال ورسان 606 دنیا کی پہلی جراثیم کش دوا تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انیسویں صدی کے اختتام تک جہاں جان سنو، لوئی پاسچر اور رابرٹ کوخ و دیگر کی تحقیقات کی مدد سے ایک جانب بیماریوں کے پھیلاؤ کے متعلق قدیم یونانی نظریات (میازمہ وغیرہ) کے خلاف حتمی ثبوت و شواہد اکھٹے ہوچکے تھے، وہیں اس بات کا شدت سے احساس پیدا ہورہا تھا کہ ان ننھے منے نادیدہ قاتلوں کے خلاف کوئی مؤثر دوا یا علاج دستیاب نہیں ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب متعدی بیماریوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا، ایسے میں خواہ کوئی بادشاہ ہو یا صدر، وزیر ہو یا تاجر یا پھر مزدور، یہ ان دیکھے قاتل کسی کےلیے بھی رعایت کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایسے میں ہمارے سفر کی اگلی منزل جراثیم کش ادویہ کے تصور کی ابتدا ہی ہے۔

تحریر کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: مرزا غالب، جان سنو اور ایک عدد ہینڈ پمپ

آج کل ہمارے لیے اینٹی بائیوٹک دوا ایک معمول کی بات ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ جراثیم کش اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اینٹی بائیوٹک تو دور کی بات کوئی اس چیز کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ انسان کبھی بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کو قابو بھی کرسکے گا۔

انگلستان اور یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد جس چیز کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ کپڑوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے رنگ تھے۔ اس وقت تک رنگ سازی کی صنعت قدرتی ذرائع (یعنی پودوں، معدنیات اور دھاتوں وغیرہ) پر منحصر تھی اور ان رنگوں کی فراوانی یا کمیابی ان کی قیمت کا تعین کرتی۔ اگر آپ نے کبھی غور کیا ہو تو آپ کو سرخ، سبز، نیلا، زرد اور سفید وہ رنگ ہیں جو کہ دنیا بھر کے جھنڈوں میں نظر آئیں گے، لیکن اگر کوئی رنگ نہیں ملے گا تو وہ ہے جامنی (پرپل)۔ اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ کہ انیسویں صدی کے درمیان تک یہ رنگ نہایت مہنگا اور کمیاب رنگ تھا۔ اسی مہنگی قیمت اور عدم دستیابی کے باعث اس رنگ کو اس وقت تک دنیا میں کسی جھنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بعض ممالک میں تو یہ رنگ شاہی خاندان نے جاہ و حشمت اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر صرف اپنے لیے مخصوص کر رکھا تھا۔ لیکن یہ سب تبدیل ہونے کو تھا۔

1857 میں جہاں ہم ہندوستانی انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑ رہے تھے، وہیں برطانیہ میں ایک اٹھارہ سالہ ولیم ہنری پرکن نامی نوجوان اپنے والد اور بھائی کے ساتھ مل کر ایک کمپنی قائم کرتا ہے۔ پرکن نے ایک برس قبل ہی ماؤو نامی دنیا کے پہلے مصنوعی رنگ کی تیاری کا کیمیائی عمل اپنے نام سے پیٹنٹ کروایا ہے (پیٹنٹ کسی بھی ایجاد، دریافت یا اختراع کے مالکانہ حقوق اپنے نام رجسٹر کروانے کے عمل کو کہتے ہیں)۔ اس رنگ کی کہانی کافی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرکن اپنی لیبارٹری میں تارکول سے ملیریا کی دوا کیونین کی تیاری پر کام کررہا تھا، مگر اتفاقیہ طور پر اس نے دنیا کا پہلا مصنوعی رنگ تخلیق کر ڈالا۔ وہ بھی سب سے مہنگا اور نایاب رنگ (اسے کہتے ہیں قسمت کی دیوی کا مہربان ہونا)۔ اپنی اس تخلیق کو پرکن نے برطانوی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بیچنا شروع کیا اور چھپر پھاڑ کر پیسے کمانے لگا۔

پرکن کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے کیمیادان تارکول سے اپنے مطلب کے مرکبات کشید کرنے اور ان کو مختلف صنعتوں میں استعمال کرنے کے پیچھے گویا ہاتھ دھو کے ہی پڑگئے۔ اسی دوران تارکول سے حاصل شدہ اجزائے ترکیبی سے کئی اہم ادویہ حاصل کی گئیں، جن میں سے کچھ تو میں اور آپ آج بھی استعمال کرتے ہیں (لیکن یہ کہانی کسی اور وقت سہی)۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں جراثیم کش ادویہ اور کہاں جھنڈے، کپڑے اور رنگ سازی کی صنعتیں؟ تو جناب حوصلے سے کام لیجیے بات وہیں جارہی ہے۔ پرکن کے ساتھ پیش آنے والے اس ایک اتفاق نے صنعتی کیمسٹری کا ایک نیا باب کھول دیا، جس کے نتیجے میں آنے والے برسوں کے دوران سیکڑوں نہیں ہزاروں سائنس دانوں اور محققین نے دن رات کی محنت کے بعد کئی مصنوعی رنگ ایجاد کیے۔

انہی سائنس دانوں میں ایک نام پاول ارلیش کا بھی تھا۔ ویسے تو پاول ارلیش نے اپنی زندگی میں بہت سارے مختلف امور پر تحقیق کی، لیکن ہم آج صرف پاول ارلیش کی میتھائی لین بلیو (Methylene Blue) پر کی گئی تحقیق کا ذکر کریں گے۔

جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس وقت تک سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جرثومے دریافت ہوچکے تھے، جن میں سے کچھ بیماریاں پھیلاتے تھے تو کچھ ہمارے لیے مفید بھی تھے۔ ان کی دریافت میں خوردبین نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے انٹرنیٹ پر یا خبروں وغیرہ میں جراثیم کی رنگ برنگی تصاویر تو دیکھی ہوئی ہوں گی، لیکن حقیقت میں یہ جرثومے اتنے رنگین مزاج نہیں ہوتے۔ مطلب ان کا اپنا رنگ مٹیالا، گندمی یا براؤن ہوتا ہے۔ یہ گندمی یا مٹیالا رنگ اکثر خلیات کا ہوتا ہے، خواہ وہ جراثیمی ہوں یا دیگر جانداروں کے۔ ایسی صورتحال میں اگر کسی مریض سے کوئی سیمپل لے کر اس کا خوردبین کی مدد سے مشاہدہ کیا جائے تو سرسری طور پر ان دونوں کی الگ الگ شناخت مشکل ہوتی ہے۔ ایک دن جب پاول ارلیش مختلف جرثوموں کو خوردبین کی مدد سے دیکھ رہا تھا تو اس نے یہ مشاہدہ کیا کہ میتھائی لین بلیو انسانی خلیوں کے مقابلے میں جراثیمی خلیات کو زیادہ شدت اور موثر طریقے سے رنگتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے اس مشاہدے کے دو نہایت ہی دوررس اور دیرپا اثرات پیدا ہوئے۔ پہلا تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اب بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کی شناخت کا کام پہلے کی نسبت بہت آسان ہوگیا۔ اپنے اس مشاہدے کی مدد سے اور مزید تحقیق کے بعد پاول نے جراثیم رنگنے کے جو طریقے اور اصول وضع کیے وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں مستعمل ہیں۔ آج بھی جب کبھی کسی بھی جراثیمی بیماری کا ٹیسٹ کرنا ہو تو سب سے اہم ٹیسٹ کلچر ٹیسٹ ہی ہوتا ہے۔ اس کلچر ٹیسٹ میں مریض سے خون، پیشاب یا کوئی بھی نمونہ لیا جاتا ہے اور اس میں مبینہ طور پر موجود جراثیم کو افزائش کےلیے مناسب غذا اور ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ معینہ مدت کے بعد ان افزائش شدہ جرثوموں کی شناخت کا عمل شروع ہوتا ہے، جن میں سب سے پہلے میتھائی لین بلیو کی قبیل کے مختلف رنگ استعمال کرتے ہوئے انھیں رنگنے سے ابتدا کی جاتی ہے۔

یہ تو تھا پہلا اثر، جس نے ڈائیگناسٹکس کے میدان میں انقلاب برپا کردیا تھا، مگر اس بھی زیادہ اہم اور دوررس اثرایک اور بھی تھا۔ ایک دن اسی مشاہدے کے بارے میں سوچتے ہوئے پاول کو اس امر کا خیال گزرا کہ میتھائی لین بلیو ایک کیمیکل ہے اور یہ انسانی اور جراثیمی خلیوں کے درمیان تفریق کررہا ہے تو لازمی اس فرق کی کوئی کیمیائی بنیاد ہوگی۔ یعنی انسانی اور جراثیمی خلیے کیمیکل اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسی خیال کو سوچتے سوچتے ایک دن پاول کو اس امر کا ادراک ہوا کہ کیا کوئی ایسی دوا بھی ہوگی جو میتھائی لین بلیو کی طرح ان دونوں میں فرق کرسکے۔ صرف بیماری پھیلاتے جرثوموں کو نشانہ بنائے لیکن انسانی خلیوں اور جسم کےلیے محفوظ ہو۔

اس استدلال کی بنیاد پر پاول ارلیش نے اپنی تحقیق کا رخ ایسی جراثیم کش دوا کی دریافت کی طرف موڑ دیا جسے اس نے جادوئی گولی کا نام دیا (اسے آپ اردو محاورہ میں ’تیر بہدف‘ کہہ سکتے ہیں)۔ پاول نے اپنے ایک جاپانی اسسٹنٹ ہاتا ساہاچئیرو کو اس جادوئی گولی کی تلاش کا کام سونپا۔ ہاتا خرگوشوں میں آتشک نامی بیماری کا جرثومہ داخل کرنے کا کامیاب تجربہ کرچکا تھا۔

لہٰذا اب پاول نے ان خرگوشوں میں آتشک کے علاج کو ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا۔ ہاتا نے آرسینک زہر کے سیکڑوں مرکبات لیے اور ان کو آتشک والے خرگوشوں میں ٹیسٹ کرنا شروع ہوگیا۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرسینک تو انسانوں کےلیے اس وقت بھی زہریلا اور مضر رساں تھا اور آج بھی ہے تو پھر انھوں نے آرسینک کے مرکبات کا انتخاب کیوں کیا؟ پاول اور ہاتا کا استدلال یہ تھا کہ اگر آرسینک کے مختلف مرکبات بنائے جائیں تو ان کے زہریلے پن میں فرق آجائے گا۔ اس کی آسان مثال یہ سمجھ لیں کہ گندم کے آٹے میں نشاستہ یا اسٹارچ ہوتا ہے جو کہ گلوکوز کے مالیکیولز سے مل کر بنتا ہے، لیکن گلوکوز اور نشاستہ (یا روٹی) کے ذائقے میں بے انتہا فرق ہوتا ہے۔ گلوکوز میں مٹھاس ہوتی ہے جبکہ عام آٹے کی روٹی میں آپ کو کوئی مٹھاس محسوس نہیں ہوتی (الا یہ کہ وہ روٹی آپ کے محبوب کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ہو)۔ دونوں نشاستہ اور گلوکوز کی اصل ایک ہی ہے، لیکن ایک معمولی سے فرق کے باعث ذائقہ اور دوسری خصوصیات میں بدلاؤ آگیا۔ اسی سوچ کی بنیاد پر پاول نے ہاتا کو سیکڑوں آرسینک مرکبات کو ٹیسٹ کرنے کا کہا۔

ہاتا نے باری باری ان مرکبات کو جانچنا شروع کیا۔ ان مرکبات کے اثرات تین طرح سے دیکھے جارہے تھے۔ اول تو یہ دیکھنا ضروری تھا کہ آیا آتشک کا جرثومہ اس مرکب سے مرتا بھی ہے یا نہیں؟ دوم صحت مند خرگوش پر اس مرکب کا کوئی مضر اثر تو نہیں آرہا؟ اور سوم بیمار خرگوش پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ ہاتا کو ایک ایسے مرکب کی تلاش تھی جو صرف جراثیم کو مارے مگر خرگوش اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہے۔ تلاش کا یہ سفر کافی مشکل ثابت ہورہا تھا۔ کوئی مرکب نہ خرگوش کو مارتا اور نہ ہی جراثیم کو، تو کوئی دونوں کےلیے یکساں مضر ہوتا یا پھر اس ڈھیٹ ہڈی جرثومے کو تو کچھ نہ ہوتا اور معصوم سا خرگوش زندگی کی بازی ہار جاتا۔ ہاتا نے چھ سو سے اوپر مرکبات کے ٹیسٹ کیے اور ان سب میں ایسے ہی نتائج آئے۔ یہ چھ سو کے چھ سو مرکبات بے فائدہ ثابت ہوئے تھے۔ اس وقت تک پاول اور ہاتا تقریباً اپنی امید چھوڑ ہی چکے تھے لیکن پھر بھی انھوں نے کچھ مزید مرکبات ٹیسٹ کرنے اور اپنے تجربات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اگلا مرکب نمبر 606 ان کی قسمت کا ستارہ بن کر چمکا۔ اس مرکب کو آج دنیا سال ورسان 606 کے نام سے جانتی ہے۔ سال ورسان 606 دنیا کی پہلی جراثیم کش دوا تھی اور اس کی دریافت نے جہاں پاول ارلیش کے استدلال کو صحیح ثابت کیا، وہیں جراثیم کش ادویہ کی بنیاد بھی رکھ دی۔ 1908 میں پاول ارلیش کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔