نوجوانوں کے لیے قرضے کی اسکیم

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  بدھ 18 دسمبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

کراچی کے ایک بینک کے اردگرد جم غفیر موجود تھا، طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں یہ لوگ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے اعلان کردہ یوتھ بزنس لون کے درخواست فارم حاصل کرنے کے متمنی تھے۔ اس دوران ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل کی ٹیم وہاں پہنچ گئی لوگوں کے انٹرویو شروع کیے عوامی تبصرے اور شکایات سامنے آنے لگیں۔ سب سے زیادہ اور مشترکہ شکایت یہ تھی کہ ہم لوگ کافی دیر سے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں کوئی گائیڈ کرنے والا نہیں ہے جب کہ فوٹو اسٹیٹ والے، ایجنٹ اور بینک سیکیورٹی گارڈ قرضہ فارموں کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں من مانے نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔

میڈیا کے کیمرے فوٹو اسٹیٹ کی دکان کی جانب بڑھے، فوٹو اسٹیٹ مشین آپریٹر سے دریافت کیا کہ آپ قرضہ فارم کی فوٹو اسٹیٹ بلیک میں غیر قانونی طور پر فروخت کر رہے ہیں تو اس نے دکان کے مالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مالک یہ ہیں میرا کام فوٹو اسٹیٹ کرنا ہے کیمرے اور مائیک کا رخ مالک کی طرف ہوا تو مالک دکان سے سڑک پر آ گیا اور کہا اب بات کریں اس نے کہا کہ آپ سامنے نہیں دیکھ رہے جگہ جگہ فارم بلیک ہو رہے ہیں۔ خود بینک کا سیکیورٹی گارڈ پچھلے دروازے پر فارم بلیک میں فروخت کر رہا ہے، ٹیم گارڈ کے پاس پہنچی تو اس نے ڈھٹائی سے کہا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کر رہا جب ٹیم نے بینک کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی تو گارڈ نے مزاحمت کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں فلم بندی کر رہے ہیں۔

ڈاکہ ڈلوائیں گے پھر انھیں منیجر کے پاس لے گیا اور سوال کیا کہ اس میڈیا ٹیم کو اندر آنے کی اجازت آپ نے دی ہے؟ یہ منظرنامہ کسی ایک بینک برانچ، کسی ایک شہر یا قصبے کا نہیں تقریباً پورے ملک میں ہی یہ کیفیت ہو گی۔ عوام کی بھیڑ چال یہ ہے کہ بس انھوں نے قرضہ اسکیم اور اس کے فارموں کے اجرا کا سنا اور بینکوں کی طرف چل دوڑے یہ سوچنے کی بھی زحمت گوارہ نہ کی کہ یہ قرضہ کس مقصد کے لیے دیا جائے گا، کن لوگوں کو دیا جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ خود ان کو قرضہ لینے کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟

تحریک انصاف کی رہنما ناز بلوچ نے پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ شرمیلا فاروقی نے اسکیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کرپشن کے راستے کھلیں گے، غریب کو ضمانتی نہیں ملے گا ضمانت دینے والا کہے گا میں ڈیڑھ لاکھ لوں گا پھر ضمانت دوں گا، اسکیم میں لاٹری سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرضہ ہے کوئی قرضہ حسنہ نہیں ہے، اسکیم کی شفافیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے وزیر اعظم کو اپنی بیٹی کے سوا کوئی نظر نہیں آیا اس میں کوئی بھی پہلو قابل تعریف نہیں ہے۔

سیاسی و معاشی تجزیہ کاروں نے اس قرضہ اسکیم پر مندرجہ اعتراضات و تحفظات کا اظہار کیا ہے اور تجاویز بھی دی ہیں مثلاً یہ کہ بہتر ہوتا کوئی ادارہ بنایا جاتا اور روزگار کے مواقعے پیدا کیے جاتے، ایسا ادارہ بناتے جو نوجوانوں سے پرپوزل لیتا پھر قرضے دیے جاتے، قرض کے لیے ضمانتی کی شرط مشکل ہے، اس میں ایڈھاک ازم نظر آتا ہے، لوگ ڈیفالٹ ہو جائیں گے، ریسرچ اور پلاننگ نہیں کی گئی، روزگار کم اور لاٹری زیادہ نظر آتی ہے۔ بینکوں سے قرضہ لینے والے نہیں ہیں اس لیے حکومت کی اسکیم پر راضی ہو جائیں گے، کیونکہ نصف مارک اپ حکومت نے ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے سودی اسکیم غیر شرعی ہے وغیرہ وغیرہ۔

قرضے کی مجوزہ اسکیم کے تحت 21 سال سے 45 سال تک کے افراد کو کاروبار کے لیے آسان شرائط پر ایک تا بیس لاکھ قرضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے جس کی ادائیگی ایک سال بعد شروع کی جائے گی اور اس کا دورانیہ 7 سال پر محیط ہو گا۔ 15 فیصد مارک اپ میں سے 7 فیصد حکومت خود ادا کرے گی اور اس اسکیم سے پورے پاکستان بشمول آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کا ہر شہری بلا کسی امتیاز استفادہ کر سکے گا البتہ نصف کوٹہ خواتین کے لیے مختص کیا گیا ہے اور کسی قسم کا کوٹہ یا صوابدیدی اختیارات نہیں ہوں گے۔ ایک لاکھ افراد کو قرضے دیے جائیں گے۔ درخواستیں جمع کرنے سے قرعہ اندازی تک قرض کے اجر امیں معاملات صاف و شفاف ہوں گے۔ اس اسکیم میں خواتین کے پچاس فیصد مختص کوٹہ کے ساتھ ساتھ اس کی ذمے داری بھی خواتین مریم نواز، ماروی میمن اور نزہت نگہت کو سونپی گئی ہے۔ وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز کی نگرانی کی وجہ سے امید کی جاتی ہے کہ منصوبہ روایتی قسم کے تساہل اور سرخ فیتے کی دسترس سے باہر رہے گا۔

اسکیم میں وزارت صنعت و پیداوار کا ادارہ اسمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (SMEDA) سمیڈا کا ادارہ بھی معاونت کر رہا ہے۔ اسکیم کے اجرا سے قبل کئی اجلاس اور میٹنگز کے بعد اس کا اجرا کیا گیا ہے۔ اسکیم پر سودی ہونے کی تنقید کے بعد اس کے قرضوں کا اسلامی بینکوں سے اجرا کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ قرضوں کی مانیٹرنگ ایک میکانزم کے تحت ہو گی یہ نہیں ہو گا کہ آج قرضہ جاری کیا اور 5 سال بعد ملاقات کریں۔

جہاں تک قرضوں کے اجرا میں کرپشن، اقربا پروری، سیاسی عمل دخل کا تعلق ہے تو قرضے کے لیے جو لائحہ عمل مقرر کیا گیا ہے اس میں یہ الزام بے معنی نظر آتا ہے۔ ماضی میں بھی ییلوکیب، لیپ ٹاپ، سستی روٹی وغیرہ ان کی افادیت سے قطع نظر ان اسکیموں سے کوئی بھی شخص بلاامتیاز فائدہ اٹھا سکتا تھا، لیپ ٹاپ کی تقسیم میں مضامین اور ان میں حاصل کردہ نمبروں کو بنیاد بنایا گیا تھا، اسی طرح نج کاری کی بولیاں بھی کھلے عام ہوا کرتی تھیں، گولڈن ہینڈ شیک میں بھی کسی سیاسی امتیاز کی بجائے عمر اور ملازمت کے دورانیے کو معیار بنایا گیا تھا البتہ یوتھ بزنس لون کی حالیہ اسکیم میں بہت سے پہلو اصلاح طلب اور قابل غور ہیں مثلاً یہ کہ ملک میں بیروزگاری کا طوفان برپا ہے آبادی کا نصف سے زائد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کروڑوں نوجوانوں میں سے صرف ایک لاکھ کے لیے قرضے کا تناسب انتہائی کم ہے۔

اگر قرضے کی رقم کی زیادہ سے زیادہ رقم 20 لاکھ سے کم کر کے 10 لاکھ کر دی جائے اور اس بجٹ میں مزید کچھ اضافہ کر کے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو قرضے کی سہولت فراہم کر دی جائے تو نادہندگی کے خطرات کو کم اور اسکیم کے دائرے کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ قرضوں کے اجرا میں کاروبار کے بنیادی عوامی نوعیت کے شعبہ جات کو کلیدی حیثیت دی جاتی اور غیر پیداواری یا نسبتاً غیر اہم شعبوں کو ثانوی حیثیت میں رکھا جاتا ہے مثلاً بیوٹی کلینکس، ڈے کیئر، گیمنگ زون، نرسری اسکول وغیرہ۔ قرض کی منظوری کے لیے کوئی تعلیمی، پیشہ ورانہ، تکنیکی صلاحیت، تجربہ یا منصوبہ پیش کرنا لازمی نہیں رکھا گیا نہ ہی کاروباری املاک کے رہن (Mortgage) کی پابندی یا سہولت ہے صرف ضمانتی کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ قرض کے مساوی رقم ہونا شرط عاید کی گئی ہے جو خاصی مشکل ہے خواتین کے نصف کوٹے کا غلط استعمال کا امکان ہے۔

کاروبار کی بجائے یہ قرض دوسری ضروریات اور مقاصد کے حصول کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری تجربہ، تعلیم و مزاج نہ ہونے کی وجہ سے نقصانات کے امکانات بھی ہیں گولڈن شیک ہینڈ حاصل کرنے والے ملازمین کی مثال ہمارے سامنے ہے جن کی خاصی تعداد حاصل شدہ خطیر رقوم کاروبار میں گنوا کر کسمپرسی کا شکار ہیں۔ بدامنی، لوڈشیڈنگ، ہڑتالیں، بھتوں کی وجہ سے کاروباری لوگ پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہیں کاروبار بند ہو رہے ہیں، سرمایہ اور ہنر بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے، اس کاروباری کیفیت میں نووارد کاروباری نوجوانوں کا غیر ملکی اشیا کا مقابلہ کرنا پیداواری لاگت، معیار کو برقرار رکھنا، اپنی مصنوعات و خدمات کو مارکیٹ میں متعارف کرانا اور کریڈٹ کے کاروبار میں قدم جمانا بہت مشکل ہو گا۔

حکومت کو نوجوانوں کے مستقبل کی خاطر اقدامات کو بھی اس قسم کی اسکیم میں شامل کرنا چاہیے مثلاً میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز و یونیورسٹیز میں سیلف فنانس کی سیٹوں پر حقدار طلبا کا جو سرکاری استحصال ہوتا ہے حکومت میرٹ پر آنے والے طلبا کو سیلف فنانس کی رقم فراہم کرے اور جب وہ تعلیم مکمل کر لیں تو ان سے یہ قرضہ واپس لے لیا جائے۔ جونیجو دور حکومت میں یہ اقدام کیا گیا تھا کہ انجینئرنگ پاس کرنے والے طلبا کو صنعتی ادارے ایک سال کے لیے وظیفے پر آن جاب ٹریننگ دینے کے پابند ہوں گے اس فیصلے سے ہزاروں انجینئرز کو یہ فائدہ پہنچا کہ بجائے بے روزگار ہونے کے انھوں نے ایک سال جاب میں تجربہ اور وظیفہ حاصل کیا اور اس کی بنیاد پر انھیں ملازمتیں بھی مل گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔