پہلی جنگ عظیم

شبیر احمد ارمان  اتوار 1 نومبر 2020
سوا کروڑ جانیں نگل جانے والی ڈائن کے بارے میں کچھ اہم حقائق۔ فوٹو: فائل

سوا کروڑ جانیں نگل جانے والی ڈائن کے بارے میں کچھ اہم حقائق۔ فوٹو: فائل

دنیا کی بڑی قوتوں کے مابین یورپ کے ایک بڑے خطے میں لڑی جانے والی پہلی جنگ عظیم کو ایک سو برس سے زائد کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے جب کہ بہ ظاہر جنگ عظیم اول کی وجہ بننے والے ہنگری کے شاہی جوڑے کے قتل کو بھی ایک صدی سے زائد ہو چکا ہے۔

یورپ کو بالخصوص دنیا کے دیگر خطوں کو بالعموم متاثر کرنے والی جنگ عظیم اول نتائج اور اپنی تباہی و بربادی کے لحاظ سے تاریخ عالم میں قبل ازیں لڑی گئی جنگوں کے مقابلے میں سب سے خوف ناک جنگ تھی۔ 4 سال اور ساڑھے 3 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ عظیم اول میں محتاط اندازے کے مطابق سو کروڑ افراد لقمہ اجل بنے۔ پہلی جنگ عظیم میں لقمۂ اجل بننے والے افراد میں صرف فوجیوں کی تعداد ایک کروڑ (10 ملین) ہے جب کہ کئی ملین شہری بھی اس جنگ میں ہلاک ہوئے۔

اعداد و شمار کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں روزانہ 6500 فوجی ہلاک ہوئے۔ جنگ عظیم اول کا باقاعدہ آغاز 28 جولائی 1914 میں آسٹریا (ہنگری) کی جانب سے بوسنیا، ہرزیگووینا پر حملے سے ہوا تھا۔ جنگ کا اختتام 11 نومبر 1918 میں ہوا اور آخر کار فریقین کے مابین ایک امن معاہدے کے تحت جنگ بندی عمل میں آئی تاہم اس معاہدے (Versailles Treaty) اور اس کی چند شقوں کو ہی جنگ عظیم دوم کی بنیاد قرار دیا جاتا ہے۔

28 جولائی سے باقاعدہ شروع ہونے والی جنگ عظیم اول ابتدا میں (سینٹرل پاور) (جرمنی اور آسٹریا۔ ہنگری) کے اتحاد سے ’’الائیڈ فورسز‘‘ (فرانس، برطانیہ اور روس) کے مابین لڑی گئی جب کہ جنگ عظیم کے تیسرے سال امریکا الائیڈ فورسز کی جانب سے اس جنگ میں شامل ہوا اور سوشلسٹ انقلاب کے رونما ہونے کے بعد اپنے داخلی مسائل کے سبب روس اس جنگ سے علیحدہ ہو گیا، جب کہ وسیع سلطنتوں کے حامل ان ممالک کی چھوٹی بڑی ریاستیں کسی نہ کسی صورت اس جنگ میں شامل رہیں۔

جنگ عظیم اول کا آغاز ہنگری کے شہزادے اور اس کی اہلیہ کے قتل سے ہوا دونوں کو 28 جون 1914 کو اس وقت قاتلانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا جب وہ بوسنیا ہرزیگووینا کے سرکاری دورے پر وہاں موجود تھے، جس کے ایک ماہ بعد آسٹریا نے بوسنیا ہرزیگووینا کے خلاف باقاعدہ طبل جنگ بجا دیا اور آسٹریا کا ایک بڑا اتحادی جرمنی بھی اس جنگ میں کود پڑا جرمنی نے الائیڈ فورسز کے ممالک فرانس اور رشیا پر حملے کی منصوبہ بندی شروع کردی اور Schlieffen وارپلان کے نام سے ایک جنگی حکمت عملی طے کی گئی جس کے تحت جرمنی کو مشرق میں رشیا اور مغرب میں فرانس پر حملہ کرنا تھا۔

تاہم رشیا بیک وقت دونوں ممالک سے لڑنے کا متحمل نہیں تھا اور اس معاملے پر غور کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ رشیا پر حملے کے سلسلے میں جرمنی کو اپنے فوجی دستے اور جنگی ساز و سامان وہاں تک بھجوانے کے لیے 6 ہفتے کا وقت درکار تھا جس کے بعد جرمنی نے اپنی فوج کا بڑا حصہ فرانس کی جانب روانہ کیا تو فرانس اور برطانیہ کی جانب سے مشترکہ طور پر روکنے کی کوشش کی گئی اور 5 ستمبر سے 12 ستمبر 1914 تک پیرس کے مضافات میں لڑی گئی جنگ میں بہ ظاہر جرمنی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم جنگ کے اس پہلے حصے کے بعد دونوں جانب کی افواج نے خندقوں میں پوزیشنیں سنبھال لی تھیں۔

بعدازاں 1917 تک دونوں جانب کی افواج خندقوں سے ایک دوسرے پر حملہ آور رہے۔ دونوں جانب کی افواج نے ایک دوسرے کی خندقوں پر قبضے کی کوشش میں Norman Island پار کی اور اسی اثنا میں لاکھوں فوجی ہلاک و زخمی ہوتے رہے۔

1917 میں الائیڈ فورسز نے اس جنگ میں شدت کے ساتھ امریکا کی کمی محسوس کی جو اپنی تازہ دم فوج اور ہتھیاروں سمیت اس جنگ کا نقشہ تبدیل کرنے میں ان کا معاون ہو سکتا تھا جب کہ کئی برس گزرنے کے بعد اب امریکا بھی جنگ میں شامل نہ ہو کر خود کو تنہا محسوس کر رہا تھا۔ تاہم اس دوران میں امریکا کے حوالے 2 ایسے بڑے واقعات رونما ہوئے جن سے امریکا میں جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے لیے رائے عامہ تبدیل ہوگئی۔

1915 میں جرمنی پر ایک مسافر جہاز کو سمندر میں ڈبونے کا الزام عائد ہوا جس میں 159 امریکی بھی سوار تھے اور امریکیوں کا خیال تھا کہ یہ ایک غیرجنگی جہاز تھا جب کہ ایک دوسرا بڑا واقعہ اس وقت پیش آیا جب 1917 کی ابتدا میں جرمنی کی جانب سے میکسیکو بھیجے گئے خفیہ ٹیلی گرام میں امریکا کے خلاف خفیہ پیغام موجود تھا۔

6 اپریل کو امریکا اس جنگ میں جرمنی کے خلاف باقاعدہ طور پر شامل ہو گیا۔ تاہم امریکا کی جانب سے جنگ میں شمولیت کے ساتھ ہی روس نے ملک میں آنے والے داخلی انقلاب کے بعد جنگ سے لاتعلق ہونے کی تیاری شروع کردی تھی اور 3 مارچ 1918 میں جرمنی کے ساتھ ایک امن معاہدے کے بعد خود کو جنگ عظیم اول سے علیحدہ کرلیا اور اپنی مشرقی سمت سے امن ہونے کے بعد جرمنی نے اپنے فوجی امریکا سے لڑنے کے لیے مغربی سمت کی جانب بھیج دیے۔ تاہم جرمنی کے مغرب میں یہ جنگ مزید ایک سال تک جاری رہی۔ واضح رہے کہ امریکی فوجی اس جنگ میں تازہ دم تھے جب کہ دیگر الائیڈ فورسز مسلسل 3 سال سے لڑنے کے بعد اب تھک چکے تھے۔

اب 1918 کے اختتام پر فریقین کے مابین عارضی صلح پر اتفاق ہوا اور 11 نومبر 1918 کی صبح 11 بجے کروڑوں لاشوں اور زخمیوں کے ساتھ پہلی جنگ عظیم کا اختتام ہوا۔

شاہی جوڑے کو بلیک ہینڈ نے قتل کیا:

جنگ عظیم کی بنیاد آسٹریا کے شہزادے ’’فرانسز فرڈیننڈ‘‘ کا اس کی اہلیہ کے ساتھ اس وقت قتل ہوا جب Archduke Franz Ferdinand of Austri ایک سرکاری دورے پر بوسنیا ہرزیگووینا پہنچا۔ اس وقت ہنگری کے خلاف وہاں ’’بلیک ہینڈ‘‘ نامی تنظیم کی جانب سے آسٹریا کے خلاف بھرپور تحریک کا آغاز ہو چکا تھا اور سربیا کی فوج کے بعض اعلیٰ افسران بھی اس تحریک کی پشت پناہی کر رہے تھے۔

یہاں تک کہ انھوں نے ہی آسٹریا کے شہزادے اور اس کی اہلیہ کے قتل کی سازش تیار کرتے ہوئے بلیک ہینڈ نامی تنظیم کے 6 نوجوانوں کو اپنے خفیہ نیٹ ورک سے منسلک کرتے ہوئے انھیں باقاعدہ تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کیا۔ آسٹریا کا شہزادہ فرانز فرڈیننڈ اپنی اہلیہ صوفی کے ہمراہ 28 جون کو ٹرین کے ذریعے سراجیوو پہنچا تو 6 گاڑیاں ان کے پروٹوکول کے لیے منتظر تھیں۔

پروٹوکول کی تیسری گاڑی میں شہزادے اور اس کی اہلیہ کے علاوہ متعلقہ گورنر اور فوج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل سوار تھے اس اسپورٹس کار کی چھت ہٹا دی گئی تھی یہ پروٹوکول ٹاؤن ہال روانہ ہوا اور طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح 10 بجے انھیں ملٹری بیرکس کا دورہ کرایا گیا۔ بعدازاں وہ ٹاؤن ہال روانہ ہوئے اس دوران قتل کی سازش تیار کرنے والے افسران کی جانب سے تعینات اسلحہ اور بم سے لیس دو افراد حملہ کرنے میں ناکام رہے۔

تاہم تیسرے حملہ آور نے ٹاؤن ہال کی جانب جاتی ہوئی کار پر بم پھینک دیا۔ یہ بم نشانے کے بجائے پروٹوکول ہی کی ایک دوسری گاڑی کے قریب آ گرا جس سے گاڑی تباہ اور 20 کے قریب افراد زخمی ہوئے ٹاؤن ہال کی تقریب کے بعد شہزادے اور اس کی اہلیہ نے واقعے میں زخمی ہونے والوں کی عیادت کے لیے اسپتال جانے کا فیصلہ کیا۔ صبح10 بج کر 45 منٹ پر ایک بار پھر وہ پروٹوکول کی اسی تیسری کار میں سوار ہوئے۔ تاہم اب گورنر نے سیکیوریٹی خدشات کے سبب واپسی کا روٹ تبدیل کردیا مگر ڈرائیور کو اس نئے روٹ سے آگاہ نہیں کیا گیا اور اسی ابہام میں ڈرائیور گاڑی پرانے روٹ پر لے گیا جہاں قاتل پہلے ہی موجود تھا۔

ڈرائیور کو نئے روٹ پر آنے کو کہا گیا اس نے گاڑی عین اس جگہ روکی جہاں 19 سالہ قاتل Gavrilo Princip موجود تھا۔ ملزم نے موقع غنیمت جان کر صرف ڈیڑھ میٹر کے فاصلے سے بیلجیئم کی بنی ہوئی سیمی آٹو میٹک پستول سے 2 فائر کیے۔ ایک گولی آسٹریا کے شہزادے کی شہ رگ اور دوسری گولی اس کی اہلیہ کے پیٹ میں لگی جبکہ قاتل کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ گورنر کو مارنا چاہتا تھا۔ واقعے کے بعد ردعمل کے طور پر سربینز کے ہزار سے زائد گھروں، دکانوں، اسکولوں، ہوٹلز، پرنٹنگ ہاؤس اور بینکوں کو مسمار کردیا گیا۔

پہلی جنگ عظیم میں شامل ممالک کی حیثیت یکسر مختلف:

پہلی جنگ عظیم کو ایک صدی گزرنے کے بعد اس جنگ میں شامل ممالک کے آپس کے تعلقات کی حیثیت یکسر مختلف ہوچکی ہے۔ جنگ عظیم اول میں ایک دوسرے کے صف آرا ممالک آج کے دور میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں جب کہ اس وقت کے اتحادی ملک آج ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں۔ واضح رہے کہ جنگ عظیم اول میں مدمقابل 2 عالمی طاقتوں کے گروپس میں ’’الائیڈ فورسز‘‘ (رشیا، فرانس اور برطانیہ) پر مشتمل تھیں جب کہ جنگ کے تیسرے برس امریکا بھی اس اتحاد کا حصہ بن گیا تھا۔ مذکورہ ممالک جنگ عظیم اول میں جرمنی سے صف آرا تھے۔

جنگ عظیم اول میں امریکا کے خلاف لڑنے والا ملک جرمنی آج اس کا اتحادی ہے جب کہ جنگ عظیم اول میں لڑنے والے ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ بھی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ دوسری جانب ایک ہی اتحاد کا حصہ رہنے والے رشیا اور امریکا آج ایک دوسرے کے خلاف مختلف ایشوز پر صف آرا نظر آتے ہیں۔ شام سے لے کر یوکرین کے سیاسی مسئلے تک امریکا اور روس ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں یوکرین تازہ صورت حال میں اس ملک میں روس نواز باغیوں کو اس کی پوری سرپرستی حاصل ہے جب کہ دوسری جانب امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک یوکرین کے پشت پناہ ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل شام کے معاملے پر جب بھی امریکا نے اس کی حکومت کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا تو روس مکمل طور پر شامی ریاست کی حمایت کرتا نظر آیا۔ واضح رہے کہ روس اور امریکا کے مابین یہ سرد جنگ دہائیوں سے جاری ہے۔

پہلی جنگ عظیم: اعلیٰ برطانوی فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس پانے والے 175 افراد میں 3 پاکستانی بھی شامل:

جون 2014 میں جب پہلی جنگ عظیم کو 100 برس ہونے کو تھے تو برطانیہ نے اس جنگ میں حصہ لینے والے 3 پاکستانیوں سمیت 175 افراد کو یادگار خدمات کے عوض اعلیٰ ترین فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس سے نوازا تھا۔ اس ضمن میں لندن میں ’’وکٹوریہ کراس‘‘ حاصل کرنے والے کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، بھارت، امریکا، نیپال، ڈنمارک، بیلجیم اور یوکرین سمیت دنیا بھر کے 175 افراد کے لیے کانسی کی 11یادگاری تختیوں کی نقاب کشائی کی گئی تھی، جو پہلی مرتبہ عوامی نمائش کے لیے رکھی گئی تھی ان پر وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والوں کے نام کندہ ہیں۔

یہ تختیاں ان افراد کے ممالک کو روانہ کی جا چکی ہیں جہاں انھیں برطانوی عوام کی جانب سے اظہار تشکر کے طور پر کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کیا گیا ہے۔ اعزاز پانے والے 3 پاکستانی سپاہیوں کی یادگاری تختیاں اسی سال اسلام آباد میں حکومت پاکستان کے حوالے کی گئی تھیں۔ جن 3 پاکستانیوں کو یہ اعزاز دیا گیا ان میں سپاہی خداداد خان، جمعدار میر دوست اور شاہمد خان شامل ہیں۔ شاہمد خان کا تعلق پنجاب سے تھا جو 1879 میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے، انھوں نے بطور نائک پہلی جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دی تھیں۔ انھیں آج کل کے عراق میں زبردست خدمات کے صلے میں وکٹوریہ کراس سے نوازا گیا تھا وہ مشین گن کے شعبے کے انچارج تھے۔

اس وقت برطانیہ میں تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے سینٹر فارن آفس منسٹر بیرنس سعیدہ وارثی نے کہا تھا کہ یہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ یہ صحیح معنوں میں ایک عالمی جنگ تھی جس میں دنیا کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے حصہ لیا۔ اس جنگ میں قربانیاں دینے والے محض برطانیہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا تعلق ساری دنیا سے تھا اور ان کی تعداد لاکھوں میں تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔