پچاس کا نوٹ اور ویران ریلوے اسٹیشن

سید امجد حسین بخاری  جمعـء 20 نومبر 2020
اتنے بڑے اسٹیشن اور اہم جنکشن پر دس سال سے کوئی ٹرین نہیں آئی۔ (فوٹو: فائل)

اتنے بڑے اسٹیشن اور اہم جنکشن پر دس سال سے کوئی ٹرین نہیں آئی۔ (فوٹو: فائل)

ریل کی سیٹی، پٹری پر گاڑی کی چھک چھک، سرخ جھنڈی اور اسٹیشن پر بھاگ کر گاڑی میں سوار ہونا۔ یہ ایک خواب سا ہے۔ ایک ایسا خواب جو اس شہر کے بزرگ دیکھ چکے ہیں۔ یہاں کے بچوں کو ریل گاڑی کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں، قلیوں کے قصے بتائے جاتے ہیں۔ مال گاڑی پر لدی کپاس کی گانٹھوں اور آم کی پیٹیوں پر بنے افسانے سنائے جاتے ہیں۔ یہ کہانی کسی افسانوی شہر اور دیومالائی ملک کی نہیں بلکہ پاکستان کے ایک ایسے خطے کی تلخ اور حقائق پر مبنی داستان ہے جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ہے۔ یہ قصہ ہے صحرائے چولستان اور دریائے چناب کے کنارے بسنے والے درجنوں قصبوں اور دیہاتوں کا، جن کا مرکزی شہر بہاولنگر ہے۔

یہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی جب میں اس ریلوے اسٹیشن سے گزرا۔ اسٹیشن کا رقبہ اور ویرانی دیکھ کر میرے قدم رک گئے۔ میں نے اپنے میزبانوں سے اسٹیشن کے اندر جانے کی درخواست کی۔ جب میں اسٹیشن کے اندر پہنچا تو علم ہوا کہ اتنے بڑے اسٹیشن اور اہم جنکشن پر دس سال سے کوئی ٹرین نہیں آئی۔ ٹرین نہ آنے کی وجوہات اور دیگر معاملات پر بات کریں گے، پہلے آپ کو اس اسٹیشن کے عہد رفتہ کی کچھ یادیں بتاتا چلوں۔

بہاولنگر ریلوے اسٹیشن نے بہاولپور ریاست کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر 1952 میں بننے والے ضلع بہاولنگر میں خوشحالی بھی اسی ریلوے اسٹیشن کی مرہون منت رہی۔ یہ ریلوے اسٹیشن 1894 میں رجھان والی ریلوے اسٹیشن کے نام سے قائم کیا گیا تھا، جسے 1901 میں نواب محمد خان نے بہاولنگر ریلوے جنکشن میں تبدیل کیا۔ لیکن آج کل یہ ریلوے اسٹیشن کسی اجڑے دیار کا نمونہ پیش کررہا ہے کیونکہ یہاں کوئی ریل گاڑی نہیں آتی۔ اس ریلوے ٹریک پر سمہ سٹہ سے امروکہ تک ایک ریل گاڑی چلتی تھی، جسے 26 جولائی 2011 کو بند کردیا گیا تھا۔ آج بھی ریلوے کا وکو شیڈ، پاور ہاؤس اور ٹرن ٹیبل اس اسٹیشن کے عہد رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔ کچھ فاصلے پر موجود ریلوے ریسٹ ہاؤس کی شاندار عمارت بھی پرانے وقتوں کی کہانی سنا رہی ہے۔

اس ریلوے اسٹیشن کے احاطے میں 1935 سے 1938 تک جو تعمیرات ہوئیں ان میں اسٹاف کالونی، ریلوے اسپتال، ڈی سی پاور اسٹیشن، ڈاک بنگلہ، کھیل کا میدان، قبرستان، ڈانس کلب، ریلوے ورکشاپ، ریلوے پولیس تھانہ شامل ہیں۔ لیکن اب ان سب پر ویرانیوں کے ڈیرے ہیں۔ بہاولنگر ریلوے کالونی میں ملازمین کے 543 کواٹرز میں قیام پذیر چند بڑے لوگوں کے کار خاص مقیم ہیں، جبکہ مریضوں بالخصوص بچوں کےلیے تعمیر کیا گیا اسپتال بھی حکمرانوں کی بے حسی کا المیہ بیان کررہا ہے۔ ریلوے کی زمین پر بڑے زمینداروں کے جانور چر رہے ہیں جبکہ حفاظتی دیواروں کی اینٹیں صاحبان اقتدار کے گھروں کو جانے والی سڑکوں کی تعمیر میں استعمال ہوچکی ہیں۔ 1938 میں یہاں پاور اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ یہ ریلوے اسٹیشن بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث بجلی سے بھی محروم ہے۔

بہاولنگر سے گزرنے والی ریلوے لائن جنوبی پنجاب ریلوے کمپنی کے زیراہتمام تعمیرکرائی گئی۔ 257 کلومیٹر طویل ریلوے لائن دہلی، بھٹنڈا اور سما سٹہ کے درمیان چلتی تھی۔ اس کا مغربی حصہ پاک بھارت بارڈر کے ساتھ سما سٹہ سے امروکہ تک بچھایا گیا تھا، جو بغداد الجدید، خیرپور، ٹیموالی، قائم پور، حاصل پور، چشتیاں، بہاولنگر اور منڈی صادق گنج اسٹیشن سے ہوتا ہوا مختلف ریلوے لائنوں کے ذریعے فیروزپور اور امروکہ اسٹیشن سے ملتا تھا۔ یہ ریلوے لائن ریاست بہاولپور کی ملکیت تھی، جسے دربار لائن کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ فورٹ عباس اور بہاولنگر کے درمیان 112 کلومیٹر طویل ریلوے لائن 1928 میں بچھائی گئی۔ جس کے باعث کسانوں کےلیے نئی غلہ منڈیاں قائم ہوئیں۔ اس دوران کھچی ولا، فقیر والی، ہارون آباد اور ڈونگہ بونگا کی غلہ منڈیاں پورے پنجاب میں مشہور تھیں، لیکن ریلوے لائن کی بندش سے غلہ منڈیاں ویران ہونے لگیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ منڈی ڈب سناٹیکا کا ریلوے اسٹیشن اور ریلوے لائن گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل ہوچکی ہے۔

بہاولنگر ریلوے اسٹیشن کا عروج کا زمانہ 1935 تھا، جب درجنوں ریل گاڑیاں کراچی، دہلی اور لاہور کو جاتی تھیں۔ کوئٹہ سے دہلی جانے والی مسافر گاڑی بھی اسی اسٹیشن سے گزرا کرتی تھی۔ چوبیس گھنٹے اس ریلوے اسٹیشن پر چہل پہل ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ ریلوے جنکشن کاروباری اعتبار سے انتہائی اہم رہا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران سیلمانکی سیکٹر میں پاکستان کی فتوحات میں اس ریلوے جنکشن اور ٹریک کا کردار بھی نمایاں تھا، جس کے ذریعے سے پاک فوج کو بروقت اور محفوظ کمک ملتی رہی۔ 1980 تک اس ریلوے اسٹیشن نے اپنے ماضی کی روایات کو برقرار رکھا، لیکن اس کے بعد یہاں ویرانیوں کے آسیب نے ڈیرے ڈال لیے۔

1980 تک اس ریلوے اسٹیشن پر 16 ریل گاڑیاں آکر ٹھہرتی تھیں۔ یہاں چوبیس گھنٹے خوب چہل پہل رہا کرتی تھی۔ لیکن اب یہاں بڑے روٹس کی گاڑیاں تو دور عوامی ایکسپریس اور لوکل گاڑیاں بھی نہیں آتیں۔ سال 2000 تک اس ریلوے اسٹیشن پر صرف دو گاڑیاں آکر ٹھہرتی تھیں، لیکن بہاولنگر سے فورٹ عباس تک جانے والی ریل گاڑی کو 2002 میں بند کردیا گیا جبکہ سمہ سٹہ سے امروکہ ٹرین کو 2011 میں بند کردیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ویرانی کا ذمے دار کون ہے؟ اس ریلوے ٹریک پر چلنے والی واحد ٹرین کو بند کیوں کردیا گیا؟ اس کا جواب اسٹیشن کے باہر کھجور کے درخت تلے بیٹھے ایک بزرگ نے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہاولنگر اور بہاولپور کے ٹرانسپورٹ مافیا کا ٹرین کی بندش میں بڑا ہاتھ ہے، کیونکہ ریلوے ٹریک پر چلنے والی واحد ٹرین کو خسارے کے باعث بند کرنا پڑا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ٹرین کا ڈرائیور پچاس روپے لے کر گاڑی کو اسٹیشن پر تاخیر سے پہنچاتا تھا، جس کا براہ راست فائدہ لوکل ٹرانسپورٹ مافیا کو ہوتا۔ بہاولنگر میں ٹرین تو پچاس روپے کے ایک نوٹ کی خاطر بند کردی گئی مگر سیکشن میں اکثر ریلوے ملازمین گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب لاہور کے شہری اورنج لائن، میٹرو اور اسپیڈو بسز کے ذریعے دنیا کے تیز ترین سفری نیٹ ورک سے جڑے ہوئے ہیں، راولپنڈی اور ملتان کے شہریوں کو میٹرو اور اسپیڈو بسز دستیاب ہیں، بہاولنگر کے باسی ٹرین جیسی سفری سہولت سے محروم ہیں۔ ایسی سروس جس کو غریب کی گاڑی کہا جاتا ہے۔ اناج کی سپلائی اور مزدوروں کا سفر سستے داموں ریلوے کے ذریعے ممکن ہے، مگر بہاولنگر آزادی سے قبل امیر ترین خطہ اور آزادی کے بعد دنیا کے غریب ترین علاقوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ لوگوں میں احساس محرومی اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اپنے اردگرد دولت کی فراوانی دیکھتے ہیں، وسائل پر راج کرنے والے افراد کو دیکھتے ہیں۔ احساس محرومی کے بعد ہی شہریوں میں بغاوت جنم لیتی ہے۔ پھر ایسی بغاوت کو جنوبی پنجاب صوبہ، سادہ وزیراعلیٰ، بجلی کے بغیر گھر کے مالک سربراہ صوبہ جیسے نعروں سے مرعوب نہیں کیا جاسکتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بہاولنگر ریلوے اسٹیشن اور لوکل ٹریک کو بحال کیا جائے۔ کیونکہ اس کی بحالی سے نہ صرف ملکی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ مقامی افراد کو بھی روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ایم ایل ون کے ذریعے تیز ترین ریلوے کا خواب دکھا رہے ہیں۔ وہ ریلوے کی زمینوں کو واگزار کروانے کے بھی دعویدار ہیں، وہ افتتاحی تختیاں لگانے کے بھی شوقین ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا بہاولنگر ٹریک ان کی وزارت میں نہیں آتا؟ کیا بہاولنگر ریلوے اسٹیشن کی قیمتی اراضی، تاریخی عمارات اور دفاتر کو قبضہ مافیا سے چھڑانا ان کی ترجیح نہیں ہے؟ کیا زرعی ریاست میں عام آدمی تک تازہ اور سستی اجناس فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری نہیں ہے؟ اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے تو یہ جان لیجئے کہ آپ کو عوامی نمائندگی کا حق نہیں پہنچتا۔ عوام کو موقع دیجئے کہ وہ خود اپنےلیے نمائندہ مقرر کریں ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سید امجد حسین بخاری

سید امجد حسین بخاری

بلاگر میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ نجی ٹی وی چینل سے بطور سینئر ریسرچ آفیسر وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی اور معاشرتی موضوعات پر قلم اٹھانے کی سعی کرتے ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر Amjadhbokhari پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔